عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام درس4

چوتھا سبق

عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام درس4 

ولایت فقیہ  کی بحث کلامی ہے یا  فقہی؟

سبق کے اہداف:

1۔علم کلام کی تعرف سے آشنائی

2۔اسلامی تعلیمات کی اقسام سے آشنائی

3۔ولایت فقیہ کے مختلف پہلوؤں سے آشنائی

 

مقدمہ

مذاہب اسلامی میں شیعہ مکتب،  ایک خاص نظریے کا حامل مکتب فکر  ہے اور اس کے  منظومہ فکری  کی بنیادیں وحی الہی اور سنت پیغمبر (ص)سے جاملتی ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ شیعہ علمائے الٰہیات  اپنے  مذہبی اصولوں اور عقائد  کو  عقلی اصولوں کے ساتھ سازگار اور ہماہنگ سمجھتے ہیں۔ اسی بناپر   بحث امامت سے متعلق کتابوں میں امامت اور ولایت  مطلقہ فقیہ کی بحث کو تین طریقوں سے ثابت کرتے ہیں۔

1۔ خالص عقلی دلیل (یعنی اس طرح کی دلیل میں کسی روایت یا آیت سے استدلال نہیں کیا جاتا)

2۔ خالص نقلی دلیل(یعنی اس طرح کی دلیل میں  دلیل عقلی کا سہارا لیے بغیر صرف روایت یا آیت قرآنی سے استدلال کیا جاتا ہے)

3۔  عقلی اور نقلی دلیل کامجموعہ(یعنی  عقلی اور نقلی دلیل کی ترکیب  اور اجتماع سے کسی چیز کے اثبات کے لیے استدلال کیا جاتا ہے)

مذکورہ تین قسم کے استدلالات کے پیش نظر ہماری بحث میں یہ سوال  پیداہوتا ہے کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ کلامی مسئلہ ہے یا فقہی؟  پس ہم یہاں پر  عصر غیبت میں ولایت فقیہ کی ضرورت اور اس کے اثبات کے سلسلے میں دلائل پیش  کرنے سے پہلے  ولایت فقیہ کی بحث  کے اسی پہلو  کی وضاحت بیان کرتے ہیں تاکہ  معلوم ہو کہ بحث  ولایت فقیہ کا تعلق کلام سے ہے یا فقہ سے ہے؟۔اس بحث کی کلامی یا فقہی حیثیت متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ  اس بحث کے کلامی یا فقہی  زاویے کے  فرق سے اس کی ذمہ داریاں اور اختیارات  بھی مختلف ہونگے ۔ اسی طرح  ولایت فقیہ کے اثبات میں پیش کیے جانے واے مختلف زاویہ نگاہ یعنی ولی فقیہ کی ولایت کے اثبات کا تعلق ولایت و سرپرستی کے عنوان سے ہے یا وکالتی عنوان سے ہے یا انتصابی اور انتخابی عنوان سے؟ یہ تمام بحثیں ولایت فقیہ کے کلامی یا فقہی مسئلہ ہونے کے لحاظ سے فرق کرتی ہیں۔

ولایت فقیہ  کی بحث کے کلامی یا فقہی تعلق کو بیان کرنے  اور اس سلسلے میں یک طرفہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہم یہاں  کلامی مسئلہ اور فقہی مسئلہ کی تعریف  اور ان کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہیں تاکہ  اس بحث  کے کلامی یا فقہی  زاویے اور اس کے  نتیجے  کا تعین ہوسکے۔ اس سبق میں ہم انہی مطالب کو تفصیل سے بیان کریں گے۔ پہلے مرحلے میں ہم یہاں علم کلام اور فقہ کی رائج تعریفیں بیان کرتے ہیں۔

1: علم کلام کی تعریفیں اور اس کے بارے میں رائج  اصطلاحات      

1۔ علم کلام کی پہلی تعریف

علم کلام کے مشہور عالم ، قاضی عضد الدین ایجی نے علم کلام کی یوں تعریف کی ہے:

  هو علم تقتدر معه علی اثبات العقاید الدینیه بایراد الحجج ودفع الشبهه ۔[1] علم کلام ایسا علم ہے جس کے ذریعے ہم اپنے دینی عقائد کے اثبات میں دلائل پیش کرتے ہوئے اس سلسلے میں پیش  آمدہ اعتراضات کا جواب دےسکتے ہیں۔

2۔ علم کلام   کی دوسری تعریف

محقق لاہیجی نے علم کلام کی اس طرح تعریف کی ہے: صناعة نظریة یقتدر بها علی اثبات العقاید الدیني،[2]  یعنی علم کلام ایسا  فن ہے جس کے ذریعے ہم دینی عقائد کو ثابت کرسکتے ہیں۔

۳۔ معاصر علماکی تعریف

الف: معاصر علماء کی پہلی تعریف

 بعض معاصر علما ءنے علم کلام کی یوں تعریف کی ہے: علم کلام ایسا علم ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اس  کے افعال کے بارے میں بحث  کی جاتی ہے۔[3]

ب: معاصر علما ءکی دوسری تعریف

بعض علما نے علم کلام کی تعریف اس طرح سے کی ہے:  علم باحث عن الله تعالی وصفاته الذاتیة والفعلیه۔ علم کلام ایسا علم ہے جس میں اللہ تعالیٰ، اسماء و صفات خداوند اور افعال  خداوند کے سلسلے میں بحث ہوتی ہے۔

علم کلام کا موضوع

جیسا کہ علم کلام کی  آخری دو تعریفوں سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور افعال ، علم کلام کا موضوع ہیں۔ اس بناء پر علم کلام کی بہترین  تعریف یہ ہے : علم کلام ایساعلم ہے جس میں اللہ تعالیٰ، اسمائے الہی، صفات اور افعال الہی کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔

2۔ علم فقہ کی لغوی اور اصطلاحی  تعریفیں

1: بعض علمائے  فقہ نے علم فقہ کی تعریف  یوں بیان کی ہے:الفقه فی اللغه الفهم و فی الاصطلاح ، العلم بالاحکام الشرعیة العملیة المکتسب من ادلتها التفصیلیة۔[4]

اہل لغت کے نزدیک فقہ کا معنی صرف سمجھنا ہی نہیں ہے‘ بلکہ گہرائی اور ایک شئے کی حقیقت کے متعلق بھرپور بصیرت کے ساتھ سمجھنے کو فقہ کہتے ہیں۔[5]  جبکہ اسلامی اصطلاح کے مطابق ، فقہ اس علم کو کہا جاتا ہے جس میں شریعت کے ان عملی احکام سے بحث کی جاتی ہے جن کو  ادلہ اربعہ(قرآن، روایات، عقل اور اجماع) سے حاصل کیا جاتا ہے۔

2: بعض دیگر معاصر علما ءنے فقہ کی اس طرح سے تعریف کی ہے: علم فقہ  ایک  ایسا علم ہے  جس میں  افعال مکلف کے  شرعی نقطہ نظر کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔[6]

3: شہید مظہری نے علم فقہ کی تعریف یوں بیان کی ہے: قرآن و روایات کی اصطلاح کے مطابق ،   تمام اسلامی تعلیمات کے بارے میں وسیع اور عمیق  علم و آگاہی حاصل کرنے کا نام  “فقہ” ہے۔ اس اصطلاح کے مطابق فقہ کا تعلق ایک  خاص  اسلامی تعلیم سے نہیں لیکن بتدریج علما کے درمیان  فقہ کی  اصطلاح صرف احکام اور مکلفین کے افعال کے ساتھ  مختص ہوئی۔ اس مطلب کی تفصیل یہ ہے کہ علمائے اسلام اور مجتہدین نے اسلامی تعلیمات کو تین قسموں میں تقسیم کی ہے۔

الف:  اعتقادات یا اصول دین

یعنی دین  اور اسلام کے اصولوں سے متعلق تعلیمات کہ جن کا ہدف ان پر ایمان اور اعتقاد رکھنا ہے جیسے   مبدا و معاد، نبوت،  امامت، وحی ملائکہ وغیرہ ۔

ب: اخلاق اور تربیتی امور

دین  کی اخلاق اور تربیت سے متعلق تعلیمات کا ہدف یہ ہے کہ انسان  کی نفسیاتی  اور روحی خصلتیں کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے بارے میں بحث اور گفتگو ہوتی ہے۔

ج: احکام اور علمی مسائل

دین کے  اس حصے کا ہدف یہ ہے کہ  ہمیں معلوم ہو کہ انسان سے جو افعال سرزد ہوتے ہیں ان کی کیسی نوعیت ہونی چاہیے یا کس طرح کے افعال کو  سرانجام دینا چاہیے؟  دوسری تعبیر کے مطابق دینی قوانین و ضوابط کی کیفیت کے بارے  موجود احکام اور مسائل دین کا تیسرا پہلو ہے۔[7]    

علم فقہ کاموضوع

علم فقہ کی مذکورہ  تعاریف کے تناظر میں  معلوم ہوا کہ مکلفین کے افعال  کا شرعی اور  دینی نقطہ نظر  بیان کرنے والے علم کا نام، علم فقہ ہے۔کیونکہ  مکلفین کا ہر  عمل اور فعل شریعت کی رو سے  ایک الہی حکم  کا حامل ہوتا ہے اب مجتہد اور فقیہ، اسلامی منابع اور مآخذ  سے اس حکم کی نوعیت کو کشف کرتے ہیں مثال کے طور پر مجتہد اسلامی منابع  میں غور وخوض کر کے حکم لگاتے ہیں کہ فلاں فعل اور عمل واجب ہے(مثلا قرآن کی آیات کی روشنی میں استنباط کے بعد حکم لگاتا ہے کہ نماز پڑھنا واجب ہے) اور فلاں عمل حرام(مثلا  مومن کی غیبت کرنا حرام ہے)۔ یا مثلا کہتے ہیں کہ فلاں چیز جائز ہے اور فلاں چیز ناجائز۔

کلامی مسائل اور فقہی مسائل کی تفریق کا معیار

علم کلام اور علم فقہ کی مذکورہ تعاریف سے معلوم ہوا کہ ان دونوں علوم کے درمیان فرق کا معیار ان کا  موضوع ہے۔ دوسری عبارت میں یوں کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ ولایت فقیہ کی بحث کا تعلق علم  فقہ  یا علم کلام سے ہونے کا معیار  اس کا موضوع ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ علوم کی آپس میں تفریق  کا معیار وہ دلائل ہیں جو ان علوم میں  جاری ہوتے ہیں۔ یعنی ہر وہ مسئلہ  جس میں عقلی دلائل جاری ہوتے ہیں اس  کا تعلق کلامی مسائل سے ہے اور ہر وہ  مسئلہ جس میں نقلی دلائل جاری ہوتی ہیں اس کا تعلق  فقہی مسائل سے ہے۔ یعنی  علوم کے درمیان فرق کا معیار دلائل کی نوعیت ہے۔ جس نوعیت کی دلیل ہوگی اسی حساب سے علوم کے درمیان فرق ہوگا۔ لیکن  علوم کے درمیان فرق کا یہ معیار درست  نہیں۔ کیونکہ  ممکن ہے کہ برہان اور عقلی دلیل کلامی مسئلہ میں بھی جاری ہو اسی طرح فقہی مسائل میں بھی عقلی دلیل جاری ہو، یعنی  ممکن ہے کسی فقہی مسئلے کے اثبات میں صرف عقلی دلائل سے کام لیں اگرچہ  برہان اور دلیل کے دوسرے بعض مقدمات غیر عقلی ہوں،  استدلال کا نتیجہ بھی مختلف ہو، پس  صرف دلیل کا عقلی ہونا کسی علم کو کلامی یا فلسفی علم نہیں بناتا اور اس کا ایسا معیار درست نہیں۔  مثلا ان دو مسائل پر غور کریں۔ “عدل الہی ” اور “عدل انسانی” یہ دونوں مسائل عقلی مسائل ہیں، یعنی عقل بطور استقلال حکم کرتی ہے کہ خدا  کا عادل ہونا عقلی طور پر واجب ہے اسی طرح انسان کا عادل ہونا عقلی طور پر واجب ہے۔ لیکن ان دونوں مسائل میں سے ایک  کلامی یا فلسفی  مسئلہ ہے  جبکہ دوسرا فقہی  مسئلہ ہے۔  کیونکہ  “اللہ  کا عادل ہونا واجب ہے”  والے مسئلے میں “وجوب ” کے معنی ضروری اور یقینی ہونے کا ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ “اللہ عادل بالضرورہ” یعنی  اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ ضروری اور واجب طور پر عادل ہے۔(اللہ کیوں عادل ہے؟ کیونکہ عدل کا متضاد ظلم ہے اور  ظلم ایک قبیح عمل ہے اور اللہ تعالیٰ قبیح عمل  سرانجام نہیں دیتا پس اللہ عادل ہے) لیکن  جب عقل حکم کرے کہ انسان کاعادل ہونا واجب ہے،  یہاں وجوب سے مراد فقہی وجوب ہے اور اس کے معنی یہ ہیں:«یجب علی الانسان ان یکون عادلا»  یعنی  انسان پرواجب ہے کہ  وہ  عادل ہو۔

 اللہ کے عادل ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اللہ ظلم نہیں کرتا اور انسان کے عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں پر ظلم کرنا انسان کے لیےحرام ہے۔ پس آپ نے ملاحظہ کیا کہ  پہلے والے مسئلے  کا مفہوم «یجب عن الله » ہے، یعنی اللہ   کے وجوب عدل سے مراد  اللہ کا عادل ہونا ہے ، نہ «یجب علی الله»؛  یعنی یہاں وجوب کے معنی اللہ پر کوئی چیز واجب ہوگئی ہو ایسا نہیں۔ جبکہ انسان میں وجوب عدل کے معنی یہ ہے کہ اس کا عادل ہونا  اللہ کی طرف سے اس پر واجب ہے۔ اس وضاحت کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ  ولایت فقیہ کے اثبات میں جو برہان اور دلیل پیش کی جاتی ہے  وہ اس طرح سے ہو: اللہ کی جانب سے  ضروری اور واجب ہے کہ  وہ ولی فقیہ کی تعیین کرے۔ تو یہ بحث ایک کلامی بحث شمار ہوگی۔   اس بحث کے کلامی ہونے کی کیفیت اس طرح سے ہے: وہ ذات جو  تمام ذرات کائنات کا علم رکھنے والی ہے، «لا یعزب عنه مثقال ذره» اور اس بات کا علم نؤبھی رکھتی ہے کہ معصومین علیہم السلام ایک محدود زمانے میں زندگی بسر کریں گے اور اس بات سے بھی واقف ہے کہ اس کی آخری  حجت ایک لمبے عرصے تک غیبت میں رہے گی۔  اب اللہ نے زمان غیبت  میں زندگی کرنے والے انسانو ں کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا ہے یا ان کے لیے کوئی کاخاص انتظام کیا ہے؟  پس یہاں اللہ کے ایک فعل پر بحث ہوتی ہے کہ کیا اللہ نے ایسا انتظام کیا ہے یا نہیں؟  اور معلوم ہے کہ  اللہ کے فعل کی بحث کا تعلق علم کلام سے ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ولایت فقیہ کا اس انداز میں  اثبات کا تعلق  علم کلام  سے ہوگا۔

مسئلہ ولایت فقیہ کا تعلق علم فقہ سے ہونے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے  کہ علم فقہ میں مکلفین کے افعال  کے حکم  کی نوعیت  کے بارے میں بحث ہوتی ہے  اور اس میں کلامی اور اعتقادی کچھ مفروضات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ پس ولایت فقیہ کو علم کلام کے رو سے ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ  علم  فقہ میں بھی دو جہتوں سے اس پر بحث ہوتی ہے۔

پہلی جہت:

 زمانہ غیبت میں ولایت اور سرپرستی کرنے  کے لیے فقیہ کی تعیین کی ہے پس فقیہ پر واجب ہے کہ حکومت تشکیل دےکرولایت اورسرپرستی  ذمہ داری کو ادا کرے۔

دوسری جہت:

 تمام مکلفین جو بالغ اور عاقل  ہیں ان پر بھی واجب ہے کہ فقیہ کی ولایت اور  رہبریت کو مانیں اور اس کی طرف سے  جاری ہونے والے تمام شرعی احکامات کی پیروی کریں۔ اب یہ دونوں  جہتیں فقہی مسائل ہیں جو کہ ایک  مسئلہ کلامی پر مترتب ہیں۔

یہ دونوں جہتیں فقہی مسئلے ہیں اور ایک کلامی مسئلہ پر متفرع اور مترتب ہیں چونکہ یہاں مکلف کے  فعل  کے بارے میں بحث ہے ایک خود فقیہ کا فعل کہ ولایت اور سرپرستی کو قبول کرے اور دوسرا فعل عام لوگوں کا کہ وہ فقیہ کی ولایت کو قبول کریں اور اس کی جانب سے جاری  کردہ احکام شرعی پر عمل پیرا رہیں۔ اس بنا پر  اصل  ولایت فقیہ کا تعلق علم کلام سے ہے جبکہ  علم فقہ میں بھی اس پر بحث ہوتی ہے  اس طرح سے کہ علم  کلام سے ماخوذ  حکم کے مطابق فقہی احکام  مترتب ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا  مطالب کا نتیجہ یہ ہوا کہ  ولایت فقیہ کے بارے میں کلامی اور فقہی دونوں پہلوؤں سے بحث کی جاتی ہے۔ کلامی پہلو یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا علم رکھنے  کے باوجود کہ  معصومین علیہم السلام محدود عرصے تک امت کے درمیان رہیں گے اور اس کی آخری حجت کی غیبت کا زمانہ  طولانی ہوگا، ان دو حالتوں کے باوجود  کیا اللہ تعالیٰ  لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟

اسی طرح  کیا اللہ کی طرف  سے فقیہ  جامع الشرائط منصوب ہونے کے سلسلے میں کوئی حکم ہے اور لوگوں کو اس کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا نہیں؟   اس طرح  بحث کا موضوع ایک کلامی موضوع ہے کیونکہ یہاں فعل اللہ کے بارے میں بحث ہوتی ہے ۔ پس ولایت فقیہ کے اثبات میں جو براہین اور دلائل پیش کیے جاتے ہیں اس کا تعلق علم کلام سے ہے۔ جب علم کلام کے رو سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اللہ نے عصر غیبت میں امت پر  ولایت و سرپرستی  کے لیے فقیہ کو معین کیا ہے تو علم فقہ میں دو جہتوں سے یہ مسئلہ قابل بحث ہے:

پہلی جہت یہ کہ فقیہ جامع الشرائط  پر واجب ہے کہ  حکومت تشکیل دے کر ولایت و سرپرستی کی ذمہ داری  ادا کرے ۔

دوسری جہت یہ کہ لوگوں پر بھی واجب ہے کہ فقیہ جامع الشرائط کی رہبری کو  مان کر ان کے  شرعی احکامات پر عمل پیرا ہوں۔

ولایت فقیہ کی یہ دو جہتیں فقہی بحث ہے اور کلامی مسئلے پر متفرع ہیں۔ پس  بنیادی طور ولایت فقیہ کا مسئلہ ایک کلامی مسئلہ ہے اور اسی ہی کی بنیاد  پر علم فقہ کی دو جہتیں  یہاں بحث کی جاتی ہیں۔ گویا فقہی بحثیں کلامی مسئلے  کا نتیجہ اور اس پر متفرع ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ہم  علم فقہ  کی رو سے   لوگوں پر مجتہد کی پیروی کو واجب قرار دیں یا ثابت کریں کہ مجتہد جامع الشرائط پر واجب ہے کہ  مسلمانوں کے اجتماعی مسائل اور امور  کو چلانے کے لیے حکومت اسلامی تشکیل دے، ان دو صورتوں  میں ہم پر یہ  کشف ہوتا ہے کہ اللہ نے زمان غیبت میں ولایت و سرپرستی کے لیے فقیہ کو معین کیا ہے کیونکہ جب تک اللہ حکم نہ دے  فقیہ کی ذمہ داری ثابت نہیں ہوتی اور لوگوں پر بھی فقیہ کی پیروی کرنا ثابت نہیں ہوتا۔

مذکورہ تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ عصر غیبت میں ولایت فقیہ کی  بحث ایک لحاظ سے کلامی  پہلو رکھتی ہے جبکہ دوسرے لحاظ سے یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔  ولایت فقیہ کی بحث  کلامی مسئلہ  قرار پانا رکاوٹ نہیں بنتا کہ یہ فقہی مسئلے کا پہلو نہ رکھتی ہو بلکہ ان دونوں مسائل کے درمیان میں تلازم موجود ہے۔

بحث ولایت فقیہ کا کلامی پہلو

بحث ولایت فقیہ کے کلامی پہلو کا حامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ولایت فقیہ کا تعلق  بحث امامت سے ہے پس اگر  بحث ولایت فقیہ کو امامت  کے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا کلامی ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ جس طرح امامت کی بحث ایک خالص کلامی بحث ہے اسی طرح ولایت فقیہ کی بحث بھی کلامی پہلو کا حامل ہوگی۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ مذہب کے مطابق  امامت کی بحث کیوں  ایک کلامی بحث ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ  عقیدہ کے مطابق امامت  اور سرپرستی ، نبوت کی مانند  اللہ تعالیٰ کا  فعل ہے۔ یعنی جس طرح نبوت اور  سلسلہ انبیاء اللہ کا فعل ہے اسی طرح نصب امام بھی اللہ ہی کا فعل اور من جانب اللہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ  اعتقاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد امت کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ ان کی ہدایت کے لیے امامت کا سلسلہ قائم کیا ہے جو کہ اللہ کی جانب سے ہے۔ اس بنا پر اگر ہم  ولایت فقیہ کے مسئلے کو معصومین ؑ کی ولایت کا تسلسل سمجھیں  اور ولی فقیہ کے انتصاب کو انتصاب امام کی طرح سمجھیں تو ولایت فقیہ کا  مسئلہ کلامی ہونا واضح ہوجاتا ہے۔

امام  خمینی(رح) کا شمار ان فقہاء میں ہوتا ہے جو ولایت فقیہ کی بحث کو کلامی بحث قرار دیتے ہیں ۔ امام خمینی(رح) اس بات کو زور دے کر کہتے ہیں کہ  امت کی ہدایت و رہبریت کے سلسلے میں  جن دلائل سے امام معصوم کی امامت کو ثابت کیاجاتاہے انہی دلائل سے زمان غیبت میں امت کی ہدایت و رہبرییت کے لیے فقہاء  کے انتصاب  اور حکومت کی تشکیل  کوثابت کیاجاسکتاہے۔ جیسے کہ امام خمینی(رح) رقمطراز ہیں:۔۔۔ فما هو دلیل الامامه بعینه دلیل علی لزوم الحکومه بعد غیبه ولی الامر (عج الله فرجه) )… فهل یعقل من حکمه الباری الحکیم اهمال الاسلامیه و عدم تعین تکلیف لهم؟ او رضی الحکیم بالهرج و المرج و اختلال النظام؟[8] یعنی جن دلائل سے  نبوت کے بعد سلسلہ امامت کی ضرورت اور  اس کے لازمی ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے انہی دلیلوں سے  عصر غیبت میں تشکیل  حکومت کی ضرورت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ حکیم ذات  کا  حامل اللہ،   امت کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور ان کی ہدایت و رہبری کا انتظام نہ کرے؟! کیا انسانی معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہونا اللہ کو منظور ہے؟! ہرگز ایسا نہیں۔ آیت اللہ جوادی آملی، نظریہ ولایت فقیہ کے ارتقائی اور تکاملی  مراحل طے کرنے کے سلسلے اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا نظریہ امام خمینی(رح) کے زمانے میں اپنے اوج پر پہنچا۔کیونکہ امام خمینی(رح ) واحد فقیہ تھے جو ولایت فقیہ کے مسئلے کو علم کلام   سے منسلک سمجھتے تھے۔  امام خمینی(رح) نے اپنے زمانے میں اپنی فقہی مباحث میں جو کارنامہ انجام دیا  وہ یہ ہے کہ انہوں نے   فرعی مسائل میں محبوس اور  مہجوریت اور مظلومیت  کے شکار مسئلہ ولایت فقیہ کو  فقہ اور فرعی مسائل سے نکال کر  اسے  اپنا حقیقی مرتبہ دے کر علم  کلام میں جگہ دی پھر عقلی اور کلامی براہین کے ذریعے اس کو مزید   ترقی  دے کر ایسا نتیجہ خیز  اور تمام فقہی مسائل کا پیش خیمہ مسئلہ قرار دے کر  جو  مثبت اور مفید  نتائج اور آثار اس پر مترتب کئے ہم ان پر   گواہ  ہیں۔

ولایت فقیہ کی تاریخی واقعیت  میں  اس کی کلامی اور فقہی پہلوؤں کی جھلکیاں

اگر ہم ولایت فقیہ کی تاریخی واقعیت میں اس  کے  فقہی اور کلامی دونوں پہلوؤں کے حامل ہونے کو تصور کریں تو  اس سوال کا  جواب ملتا ہے کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ  امام خمینی(رح)  سے پہلے کے فقہاء اور مجتہدین کے درمیان ایسا اجاگر کیوں نہیں ہوا جتنا عصر  امام خمینی(رح) میں اجاگرہوا اور اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں؟!  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عصر غیبت میں امت کی  رہبری  اور سرپرستی کا منصب فقہاء  کو عطا فرمایا ہے اس لیے فقہاء پر واجب ہے کہ اس بھاری ذمہ داری کو ادا کریں اور دوسری طرف،  لوگوں پر واجب ہے کہ  فقہاء کی  ولایت اور ان کی سرپرستی کو مان کر ان  کی جانب سے صادر شدہ احکام الہی کی  اطاعت اور پیروی کریں۔

آیت اللہ جوادی آملی اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قدیم  علما کی فقہی کتب میں فقیہ عادل کی مسلمانوں پر ولایت اور سرپرستی  کا عام طور پر  ذکر نہ آنا اور ایسا  رائج نہ ہونا اس وجہ سے نہیں تھا کہ  قدیم علما اور مجتہدین ولایت فقیہ کے قائل نہیں تھے  البتہ دسویں صدی کے بعد یہ مسئلہ بتدریج رواج پا گیا اور مرحوم نراقی(رہ) کے زمانے  میں  اس مسئلے کو عروج مل گیا اور عصر  امام  خمینی(رح) میں اسے مزید ترقی ملی اور  اس کے عملی فوائد حاصل ہونے لگے۔ قدیم   معاشروں میں دینی سیاست کی باتیں، حکومت  اسلامی کے قیام کی گفتگو اور سیاسی رہبریت اور ہدایت  کے نعرے  لوگوں کے لیے پسندیدہ خاطر اور خوش آئند باتیں نہیں تھیں اسی لیے فقہی متون میں ان پر بحث بھی نہیں کرتے تھے ۔ کیونکہ  زمانے کے تقاضوں کے مطابق ، حدود اور تعزیرات کے اجرا کرنے والے حاکم ،  اسی طرح فوج کی کمان کرنے والے کمانڈر اور دیگر حکومتی امور کی بحثیں رسمی طورپر  نہیں کی جاتی تھیں تاکہ  کہا جاسکے کہ  امام کے حضور کے زمانے میں امام معصوم اور عصر غیبت میں مجتہدین اور فقہاء  ان ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیں۔ البتہ حکومت اور سیاست سے متعلق  بحثیں  رائج نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ زمان غیبت میں امام معصوم کے  عدم حضور کا بہانہ بنا کر  تشکیل حکومت  جیسی اہم ضروریات کو طاق نسیان میں ڈال دیا جائے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ قدیم ایام میں  حکومت پر قابض افراد کی جانب سے    ابتر حالات ، گٹھن ماحول اور دیگر اندرونی و بیرونی عوامل کی وجہ سے  سیاسی اور فقہ حکومتی کی بحثیں اپنے ڈگر سے نکل گئیں وگرنہ  اسلامی متون میں تحقیق و جستجو سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اور سیاست کے درمیان نہ صرف  جدائی ممکن نہیں بلکہ   فقہ سیاسی کی بحثیں در حقیقت ، کلام کی اصلی  بحثوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔   خلاصہ یہ کہ قدیم زمانوں کے فقہی متون میں حاکم اسلامی   کی ولایت اور ان کی امت پر سرپرستی جیسی بحثیں رائج طور ہر نہیں ہوا کرتی تھیں البتہ جزئی طور پر کبھی کبھار اور متفرق انداز میں  ان پر بحثیں ہوتی تھی، اسی طرح امامان معصوم کی  سیاسی رہبریت اور سرپرستی کے بارے میں بھی مکمل طور پر بحث نہیں ہوتی تھی  کیونکہ سیاسی مسائل کو اصلا مبتلا بہ مسائل نہیں سمجھتے تھے۔    

چند اعتراضات کے جوابات

پہلا اعتراض

بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر ولایت فقیہ کو ایک کلامی مسئلہ قرار دیں تو یہ اصول دین میں سے ہوگی اور اعتقادی مسائل میں اس کا  شمار ہوگا۔ اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ بس ہمیں اس پر دل سے  اعتقاد رکھنا ہوگا(عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں)  جس طرح نبوت اور امامت پر ہم دل سے  اعتقاد رکھتے ہیں۔  اس خیال کی بنا پر   بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ  حکمرانی اور سیاست جیسی بحثیں نہ نبوت  کے اعتقاد کا حصہ ہے اور نہ ہی  امامت کی ماہیت میں ایسی چیزیں نظر آتی ہیں۔[9]

جواب

معترضین کا خیال یہ ہے کہ جو چیز کلامی مسئلہ قرار پاتی ہے اس کا تعلق  اصول دین اور اعتقادات سے ہے حالانکہ ایسا بالکل  نہیں ہے کیونکہ  بہت سی بحثیں ایسی ہیں جن کا تعلق  کلامی مسائل سے ہے  لیکن اصول دین یا اعتقادی  مسائل میں سے نہیں جیسے  قیامت اور معاد سے متعلق چند بحثیں یا مثلا اماموں کی عصمت کا مسئلہ اور  ہمارا موضع بحث ولایت فقیہ کا مسئلہ  جو کہ امامت کے فروعی مسائل میں سے ہے۔ 

دوسرا اعتراض

بعض لوگ  مسئلہ ولایت فقیہ کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ  دو عشرہ قبل اس مسئلے کا تعلق علم  فقہ سے تھا جبکہ اسے ابھی کلامی مسائل میں سے قرار دیتے ہیں۔ ایک دو عشروں سے  اس  کی کلامی نوعیت   پر بحث کی جانے لگی۔ جس کے مطابق یوں استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور  لطف کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کے زمام سیاست سنبھالنے کے لیے عادل  و فقیہ شخص  کا انتخاب  اللہ کی جانب سے ضروری ہے  اور یہ اللہ کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کے افعال کے بارے میں بحث علم کلام  میں ہوتی ہے ۔ پس  ولایت فقیہ کی بحث کو کلامی قرار دینا ،  متاخرین  علما کی کاوش ہے علمائے متقدم ایسا نظریہ نہیں رکھتے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ متاخر علما،  ولایت فقیہ کوضروریات  اور ارکان مذہب شیعہ  میں سے گردانتے ہیں۔

جواب

دوسرے اعتراض کا پہلا جواب

ہم نے پہلے بھی اس سلسلے میں بیان کیا تھا کہ قدیم علما ءکے ولایت فقیہ کی بحث کو فقہی مسائل کے ضمن میں بیان کرنے سے یہ توہم ہوا کہ وہ اس مسئلے کو فقہی سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں، دوسری وجہ یہ کہ قدیم علما ولایت فقیہ کے فقہی لوازمات کو   بیان کرتے تھے اس سے یہ سمجھا جانے لگا کہ  قدیم علما اسے مسائل فقہی سمجھتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ کہ کسی  مسئلے کو ایک خاص علم میں ذکر کرنا اس بابت کا سبب نہیں بنتا ہے کہ وہ مسئلہ اس علم میں شامل ہو۔ جیسے کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ  اماموں کی ولایت اور ان کی سرپرستی کو  کبھی فقہی فروعات کے درمیان بحث کرتے ہیں  حالانکہ اماموں کی ولایت کا مسئلہ  فرعی اور فقہی مسئلہ نہیں۔

دوسرے اعتراض کا دوسرا جواب

ہم سب پر یہ بات  عیاں ہے کہ گذشتہ زمانوں میں شیعہ،     آبادی  کے لحاظ سے اقلیت  میں ہونے کی وجہ سے  برسر اقتدار حکمرانوں کی جانب سے مختلف دباؤ اور پابندیوں کا شکار رہتا تھا اور شیعہ  حکومت کی تشکیل کو ناممکن تصور کیا جاتا تھا  اس لیے زعامت سیاسی کی بحثیں نہیں ہوا کرتی تھیں اور جزئی طور پر فقہی بحثوں کے دوران اس پر بھی کبھی کبھار بحث ہوتی تھی۔    لیکن عالمگیر   اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد  چیدہ چیدہ علما ،   اسلامی  سیاسی نظام اور ولایت فقیہ کی بحث کو کلامی کتابوں میں  تفصیل  کے ساتھ  بیان کرنے لگے۔ آیت اللہ جوادی آملی جیسی شخصیات نے “وحی و رہبری”، “ولایت فقاہت ”  اور “ولایت فقیہ اور اسلام میں رہبریت کا نظام” جیسی کتابیں تالیف کر کے   اس پر سیر حاصل گفتگو کی۔

دوسرے اعتراض کا تیسرا جواب

تیرہویں صدی کے مشہور مجتہد  صاحب جواہر جیسی شخصیت نے ولایت فقیہ کے مسئلے کو فعل اللہ اور کلامی مسئلہ قراردیا ہے۔ صاحب جواہر رقمطراز ہیں کہ: ولی فقیہ کی اطاعت کو اللہ نے ہمارے اوپر واجب قرار دیا  ہے اور کسی کی اطاعت اس بات کی فرع ہے کہ پہلے وہ شخص معین ہو پس ولی فقیہ  کو تعیین کرنا اللہ کا فعل ہے اور کلامی مسئلہ ہے۔  صاحب جواہر کی عین عبارت یہ ہے:  اطلاق ادلة حكومته خصوصا رواية النصب التی وردت عن صاحب الامر ـ روحی له الفداء يصيره من اولی الامر الذين اوجب الله علينا طاعتهم.[10]

دوسرے اعتراض کا چوتھا جواب

 اگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ ولایت فقیہ ایک کلامی مسئلہ اور فعل اللہ ہے تو اس  بحث کے قدیم یا جدید ہونے کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ لہذا یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ جدید دور میں اس  پر زیادہ بحثیں کی گئ ہیں۔

دوسرے اعتراض کا پانچواں جواب

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمگیر اسلامی انقلاب کے بعد امام  خمینی(رح) کی عظیم شخصیت اور ان کی معجزہ آمیز  قیادت  سبب بنی  کہ رہبری اوراسلا می سیاسی نظام  نے  علم کلام میں اپنا  مقام دوبارہ حاصل کیا اور شیعہ  مذہب میں سیاست اور  زعامت کی باتیں عام ہونے لگیں۔

دوسرے اعتراض کا چھٹا جواب

   دوسرے اعتراض کے آخری جملے  کا جواب یہ ہے کہ معترض کے برخلاف ولایت فقیہ کے قائلین میں سے کوئی ایک بھی اسے مذہب شیعہ کی ضروریات اور ارکان میں سے نہیں مانتا۔

مذکورہ جوابات کے بعد  ہمیں اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ  ظہور اسلام  کے فورا بعد اور بالاخص  پہلی اور دوسری صدی میں شیعہ مذہب میں   رہبری اور حکمرانی سے متعلق   نظریات علم کلام میں اٹھائے جاتے تھے  یہ  اس وجہ سے تھا کہ  خلافت اور امامت کا مسئلہ اسلامی فرقوں کے درمیان  محوری موضوع تھا لہذا  شیعوں کے نزدیک مسئلہ امامت کی اہمیت کے پیش نظر اس مسئلے کی ذیلی مباحث یعنی ولایت فقیہ جیسے مسائل کو اعلیٰ  مقام حاصل ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر اس پر سیر حاصل بحث  ہونی چاہیے تھی۔ لیکن  افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  مخالف اور حکمران طبقے کی جانب سے شیعوں کو معاشرتی اور سیاسی  امور سے لاتعلق اور منزوی قرار دینے کی بنا پر  شیعوں کو  اسلامی سیاسی نظام کے  بارے میں علمی اور کلامی بنیادیں اور ان کا اصلی نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع فراہم نہیں ہوسکا۔ اسی وجہ سے شیعہ مکتب سے تعلق رکھنے والے  علما اور مجتہدین صرف  خصوصی اور نجی محافل و مجالس اور  سلسلہ دروس میں اختصار کے ساتھ حکومت سے متعلق کچھ موضوعات پر بحث کرتے تھے۔ حکومت او رسیاست سے متعلق  امور کو کلامی اور اعتقادی بحث میں جگہ دینے کی بجائے محدود انداز میں امور حسبیہ، غائبین اور نابالغ افراد کے اموال کی سرپرستی، قضاوت، حدود و تعزیرات  اور   جہاد جیسے چند موضوعات  زیر بحث لاتے تھے۔ امتداد زمانہ کے ساتھ حکومت سے متعلق اصلی بحثیں  لوگوں کے اذہان سے دور ہونے لگیں۔ یہ تو پہلے زمانے کی حالت تھی، لیکن جمہوری اسلامی ایران میں  ولایت فقیہ  کی حکومت قائم ہونے کے باوجود اب بھی  کچھ لوگوں  کے پاس ولایت فقیہ کی بحث  سیاسی مظلومیت کا شکار ہے اور وہ  لوگ  اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے اسلام کے ابتدائی ایام سے لیکر اب تک ایک طویل عرصہ گزرنے کے سبب کچھ لوگوں کو یہ باور اور یقین نہیں ہوتا ہے کہ کیا دین میں  سیاست اور حکومت سے متعلق باتیں بھی موجود ہیں؟!  

دنیائے  شیعیت کی ایک قدآور علمی  شخصیت علامہ حلی (رح) اس بات پر فکرمند نظر آتے ہیں کہ بعض شیعہ فقہاء امامت  اور اس کی شرائط  کی بحث کو- جو کہ علم کلام سے مربوط ہے- کیوں فقہی کتابوں میں زیر بحث لاتے ہیں؟! علامہ حلی(رح) لکھتے ہیں: فقہاء کے درمیان یہ رائج ہے کہ  امامت اور اس کی شرائط کے موضوع  کو باغی کے ساتھ جنگ والے باب میں ذکر کرتے ہیں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس کی اطاعت واجب ہے اور کس پر خروج کرنا حرام ہے اور کس کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے؟ حالانکہ یہ مسئلہ علم کلام سے مربوط مسئلہ ہے نہ علم فقہ سے۔   [11]

ولایت فقیہ کے کلامی یا فقہی مسئلہ ہونے کا نتیجہ

ولایت فقیہ کے کلامی یا فقہی مسئلہ  ہونے کے اعتبار  سے  اس کے مختلف نتیجے برآمد ہوسکتے ہیں۔ علماء نے  ان نتائج کو یوں ذکر کیا ہے۔

پہلا نتیجہ

اگر ہمارا نظریہ یہ ہو کہ مسئلہ ولایت فقیہ  ایک کلامی مسئلہ ہے تو اس کا  پہلا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ولایت ائمہ علیہم السلام کے  تسلسل میں امام زمان (عج) کی غیبت کے زمانے میں جامع الشرائط فقیہ کو ولایت عطا کی ہے لہذا لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ جامع الشرائط فقیہ کی شناخت کر نے کے بعد  اس کی پیروی کریں اس نظریے کی بنیاد پر فقیہ کو ولایت حاصل ہونے یا نہ ہونے کے لحاظ سے لوگوں کا کوئی کردار یا اختیار نہیں۔ البتہ فقیہ کی ولایت کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے کے اعتبار سے لوگ   تکوینی[12](نہ تشریعی) طور پر مختار ہیں۔  کیونکہ تشریعی طور پر لوگ  جامع الشرائط قفیہ کی ولایت اور سرپرستی کو تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ یہی مطلب ہو بہو  اسلام  اور اس کی دیگر تعلیمات کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں بھی ہے۔ یعنی   خود اسلام اور اس کی تعلیمات کے سلسلے میں انسانوں کی کوئی دخالت نہیں البتہ اسے تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے وہ مختار ہیں۔ جولوگ اسے تسلیم کرتے ہیں وہ  دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہونگے اور جو اسے قبول نہ کریں وہ اس سے فیضاب نہیں ہوسکیں گے۔

مذکورہ مطلب کے برعکس اگر ہمارا نظریہ یہ ہو کہ ولایت فقیہ ایک فقہی مسئلہ ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب تک لوگ معاشرتی امور کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی فقیہ کو انتخاب نہیں کرتے  وہ فقیہ صاحب ولایت نہیں بن سکتے۔ جب لوگ انہیں انتخاب کریں اور اسلامی معاشرے کے حاکم کے عنوان سے ان کی زمام داری کو قبول کریں تو ظاہری طور  پر بھی ان کے لیے ولایت ثابت ہوگی اور وہ مسلمانوں  کے والی بنیں گے۔ ایک معاصر دانشور  ولایت فقیہ کےاثبات کے  سلسلے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ولایت فقیہ ایک انشائی مفہوم رکھتی ہے یعنی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ کسی جامع الشرائط فقیہ کو ولایت اور سرپرستی کرنے کے لیے انتخاب کریں۔ اس نظریے کے مطابق فقیہ کی ولایت کا دارو مدار عوام اور لوگ ہیں جن کے ذریعے سے فقیہ کو ولایت حاصل ہوتی ہے۔[13] اس نظریے کی بنیاد پر ولایت فقیہ کے اثبات کے حوالےسے  لوگوں کی ذمہ داری اور ان پر واجب ہونے کے اعتبار سے بحث ہوتی ہے لہذا اس بحث کا تعلق فقہ سے ہوگا۔ پس  اس بنا پر ولایت فقیہ کا تعلق علم فقہ سے ہوگا اور ایک فقہی مسئلہ شمار ہوگی۔

دوسرا نتیجہ

       ولایت فقیہ کا مسئلہ کلامی ہونے کی بنا پر  ولی فقیہ کے انتخاب   اور اسے عہدے سے ہٹانے کا اختیار لوگوں (یا فقہاء پر مشتمل  کونسل) کے پاس نہیں ہوگا بلکہ فقیہ کی پہچان یا خود سے عہدے سے ہٹنے کے اعتبار سے لوگ یا فقہاء کی کونسل اختیار رکھتے ہیں لہذا ان کی رائے کاشفیت کی حیثیت رکھتی ہے البتہ لوگوں یا  فقہاء کی کونسل   کاشفیت کی حیثیت رکھنا رائے عامہ کی بے احترامی یا توہین  تصور نہیں ہوگا جس طرح کسی نبی کی نبوت یا امام کی امامت کو تسلیم کرنے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہونا عقلاء کی بے احترامی نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کا  تسلیم کرنا مصداق خارجی کی تعیین اور فقیہ کی حکومت کو زیادہ کارآمد بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔

       اگر ہم ولایت فقیہ کی بحث کو  فقہی مسائل میں سے شمار کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا  کہ لوگوں پر واجب ہے کہ کسی جامع الشرائط فقیہ  کو انتخاب کریں اور اس کی ولایت اور سرپرستی  کو قبول کریں۔   اس نظریے کی بنیاد پر فقیہ کو ولایت حاصل ہونے کا دار و مدار عوام اور لوگ ہیں اسی طرح فقیہ کو اپنے منصب سے ہٹانے کا اختیار بھی عوام(یا فقہاء کی کونسل) ہی کو ہوگا۔  بلکہ لوگ   فقیہ کے لیے خاص مدت طے کرسکتے ہیں دوسری طرف اگر کسی شخص میں  مسلمانوں کی قیادت کی شرائط  موجود ہوں تو اس پر واجب ہے کہ اپنے آپ کو امت کی قیادت کے لیے پیش کرے۔

تیسرا نتیجہ

       اگر ولایت فقیہ ایک کلامی مسئلہ شمار ہوگی تو اس کا اثبات بھی  آسان ہوگا کیونکہ اس کے اثبات کے  سلسلے میں وہی   نبوت اور امامت کی دلائل سے استفادہ کریں گے لیکن اگر یہ مسئلہ  فقہی مسئلہ قرار دیا جائے تو ہر فقیہ اپنے نظریے کے حساب سے  اس کے مبانی پیش کریں گے اور  اسی کے مطابق  اسے اثبات کرنے کے لیے دلائل پیش کریں گے۔[14]

چوتھا نتیجہ

اگر ہم ولایت فقیہ کے مسئلے کو کلامی مسئلہ قرار دیں  تو اس کا ایک نتیجہ یہ ہوگا فقیہ کی ولایت کی نوعیت  امام معصوم کی ولایت جیسی ہوگی یعنی  فقیہ کی ولایت اور  حکومتی امور کے سلسلے میں اختیارات کے حوالے سے  اطلاق اور وسعت پائی جائے گی۔ کیونکہ عقل حکم کرتی ہے کہ عمومی مصلحتوں کی انجام دہی  اور زمام حکومت سنبھالنے والے کے لیے   مکمل اختیارات  ہونے چاہیں۔ چاہے وہ نبی ہو یا امام یا فقیہ جامع الشرائط۔ لیکن اگر ولایت فقیہ کا مسئلہ فقہی مسئلہ قرار پائے تو ہمیں   حکومتی اور سیاسی امور  کے ہر مورد میں دلیل کی ضرورت پڑے گی  کیونکہ ولایت فقیہ فقہی مسئلہ ہونے کی بنا پر اصل اور شرعی  ضابطہ یہ ہے   کہ انسانوں میں سے کسی انسان کو  دوسرے انسان پر کوئی اختیار نہیں۔ پس اختیار چلانے کے لیے دلیل  لانا پڑے گی تاکہ  اسے اصل اور شرعی  ضابطہ سے خارج کردے۔ [15]

پانچواں نتیجہ

اگر ہم ولایت فقیہ کو کلامی مسئلہ قرار دیں تو ہماری نظر میں  اس  کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہوگا کہ  ولایت فقیہ کو  ایک خاص تقدس حاصل ہوگا  اور امامت سے متعلق امور کی بحث شمار ہوگی کیونکہ  ولایت فقیہ کا کلامی  مسئلہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم فقیہ جامع الشرائط کو  امام معصوم(ع) کا نائب(عام) مانتے ہیں اور  ولایت امام کےہی دلائل سے اس کا اثبات کرتے ہیں۔

مسئلہ ولایت فقیہ کے کلامی ہونے کی بنا پر اس پر اعتراضات  

   پہلا اعتراض

بعض معاصر دانشوروں کے درمیان ایک فقہی اصطلاح ” واجد حق پیشین ” کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی  پہلے سے ہی کسی  چیز کا حقدار بننا۔  “باور دینی ، داور دینی” کے مقالہ نگاراس  سلسلے میں لکھتے ہیں: اگر ہم ولایت فقیہ کو کلامی  مسئلہ قرار دیں تو ا س کا مطلب یہ ہے کہ   فقہاء،  لوگوں  کے انتخاب کرنے  اور ان کی طرف سے  حق حکمرانی دینے سے پہلے ہی حق حکمرانی کے مستحق  تھے۔  حالانکہ  فقہی اور حقوقی لحاظ سے ایسا درست نہیں۔ لیکن اگر ہم ولایت فقیہ کو ایک  فقہی مسئلہ قرار دیں تو   اس طرح کی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ بلکہ  حکمرانی سے متعلق تمام حقوق  لوگوں کی جانب سے انتخاب اور  ان کی طرف سے رائے دینے کے بعد حاصل ہونگے۔ مقالہ نگار نے  اپنے مقالے میں اس مطلب کو اس طرح بیان کیا ہے:ہم اس  اہم  نکتے کو موضوع بحث قرار دیتے ہیں کہ  لوگوں  پر حکومت کرنا  کیا واقعا ایک الہی یا شرعی حق ہے؟ کیا بعض لوگوں کا ایسی چیزوں کا حقدار بننے اور لوگوں پر حکومت کرنے کا تصور  صحیح ہے؟ مغربی مفکرین اور فلاسفر وں کا  کلیسائی نظام  کے ساتھ  یہی شدید  اختلاف  تھا کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ  ایک شخص بغیر کسی استحقاق کے کسی چیز کا حقدار بنے؟! لبرل ازم اور ڈیموکریسی کا اصلی ہدف اس طرح کی فکر کو معاشرے میں پنبنے سے روکنا  اور  ایسے حقوق کا انکار کرنا تھا۔

اس اعتراض کے جواب میں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔

پہلا نکتہ

یہ کیسے  ہوسکتا ہے کہ اگر لوگوں کی جانب سے کسی کو حق حکمرانی دی جائے تو وہ  اس کا حقدار بنے لیکن اس ذات کی جانب سے،   جو خود صاحب ولایت ہے اور حکومت و تسلط کا حقیقی مالک ہے، دیے جانے والے حق کا  بعض لوگ انکار کریں؟! حالانکہ توحید ربوبی کی بنا پر اس حق کا حقیقی مالک اللہ کی ذات  والا ہے  جس کی ایک چھوٹی سی تجلی جامع صفات فقیہ کو بھی دی جاسکتی ہے۔   یہاں دوسری بات یہ کہ فقیہ جامع الشرائط کی حکمرانی کا جواز اللہ ہی  کی طرف سے  ہے البتہ اس حکومت کی مقبولیت لوگوں کی طرف سے اسے تسلیم کرنے کے بعد مل سکتی ہے۔ یعنی  فقیہ کی عملی حکمرانی  اس وقت متحقق ہوسکتی ہے جب  لوگوں کی جانب سے اسے تسلیم کیا جائے۔

دوسرا نکتہ

 عیسائیت میں حکومت اور حکمرانی کے مبانی کیا ہیں؟ اس کو ثابت کرنا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اس فکر کو اسلامی دنیا میں عام کررہے ہیں اور ان دونوں ادیان کے درمیان موازنہ کررہے ہیں۔  لیکن ہماری نظر میں یہ موازنہ سرے سے درست ہی نہیں۔ کیونکہ   اسلامی تعلیمات کے مطابق  حاکم اسلامی کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ صحیح اور وسیع معنوں میں  عادل ہو اور عادل اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی  واجب کو ترک نہ کرے ، کسی حرام عمل کا ارتکاب نہ کرے ، صغیرہ گناہوں کو بار بار انجام نہ دے اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرے۔ یہ ایک ایسی شرط ہے جس پر تمام شیعہ علما ءاتفاق  کرتے ہیں۔ کیا یہ بے انصافی نہیں کہ   ایسی سخت شرائط کے حامل فقہاء کو ان موقع پرست اور دنیا زدہ  کچھ پاپ اور پادریوں سے موازنہ کریں اور حکمرانی کے سلسلے میں ان جیسا قرار دیں؟!

دوسرا اعتراض 

    اس اعتراض کا تعلق ایک فقہی اصطلاح،  انشائی اور خبری سےہے۔ معاصر علما میں سے ایک دانشور  اس سلسلے میں لکھتا ہے: علم فقہ میں  رائج ایک اصطلاح وضع، جعل اور انشاء کی اصطلاح ہے۔علم فقہ میں رائج اس اصطلاح کے معنی یہ ہیں کہ  اللہ تعالیٰ احکام اور تکالیف کو انشاء  فرماتا ہے  اب لوگوں کی شرعی نقطہ نگاہ سے یہ  ذمہ داری ہے کہ ان احکامات کو قبول کریں۔ علم کلام میں رائج ایک اصطلاح ” اصطلاح خبری” ہے یعنی  جو چیز حقیقت اور واقعیت رکھتی ہے متکلم اس کے بارے میں خبر دیتا ہے۔ ان دونوں اصطلاحات کی روشنی میں ہم اپنے موضوع بحث کا اس طرح سے  جائزہ لیتے ہیں۔  ولایت فقیہ کی بحث میں ان دونوں اصطلاحات  کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ ولایت فقیہ کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ  ولایت فقیہ اپنے اندر مفہوم خبری رکھتی ہے۔ یعنی عادل فقہاء اللہ تعالیٰ کی جانب سے ولایت اور سرپرستی کے منصب پر منصوب ہوئے ہیں اور لوگوں کا اس  سلسلے میں کوئی کردار  نہیں۔ بس بے چون و چرا فقہاء کی ولایت کو قبول کرنا لوگوں پر واجب ہے۔ اس کے برخلاف بعض لوگ ولایت فقیہ میں مفہوم انشائی پایا  جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یعنی لوگوں کو یہ حکم  دیا گیا ہے کہ وہ جامع الشرائط فقیہ  کو  اپنے لیے ولی اور سرپرست کے طور پر انتخاب کریں۔ اس مفہوم کے مطابق فقیہ کے لیے ولایت حاصل ہونے کا مرکزی کردار خود لوگ اداد کرتے ہیں۔ [16] مذکورہ دو اصطلاحات کے  بیان کردہ مفاہیم کے علاوہ بعض لوگوں نے کچھ اور مفہوم بھی بیان کیے ہیں۔ بعض اس سلسلے میں لکھتے ہیں: ولایت فقیہ کے مفہوم خبری کے معنی یہ ہیں کہ  عدل کی صفت سے متصف  فقہاء شارع کی  طرف سے سرپرستی اور ولایت کے منصب پر فائز ہیں چاہے لوگ انہیں مانیں یا نہ مانیں۔ لوگوں کو  اپنا سیاسی رہنما انتخاب کرنے کا حق ہی نہیں ہے بلکہ اللہ کی جانب سے منتخب ہے۔ جبکہ ولایت فقیہ  کے مفہوم انشائی رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں پر ضروری ہے کہ فقہاء میں سے جو بابصیرت اور لائق ترین فقیہ ہیں اسے اپنے لیے سرپرست انتخاب کریں اور اسے حق حکمرانی اور ولایت  دیں۔ [17]  یہی دانشور مزید لکھتے ہیں کہ  ولایت فقیہ کے مفہوم خبری کا ملازمہ یہ ہے کہ ولایت فقیہ کے مخالفین کو درست جواب نہ دیا جائے جو کہ کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ کے قائلین کی نظر میں  عوام  الناس نابالغ بچے اور محجور التصرف لوگوں کی مانند ہیں اور  حا کم کےانتخاب حق نہیں رکھتے کیونکہ  نصب فقیہ کے نظریے کے مطابق عوام الناس  حاکم انتخاب کرنے کا حق نہیں رکھتے، اس صورت میں مخالفین کا اعتراض باقی رہتا ہے۔[18] بعض بزرگ علما اس کے جواب میں لکھتے ہیں: جو علما ء ولایت فقیہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں ان  کے ہاں دو  مختلف نظریے پائے جاتے ہیں۔

بعض  علماء کے مطابق  ولایت فقیہ میں مفہوم خبری پایا جاتا ہے اور دوسرے بعض کے نزدیک  ولایت فقیہ مفہوم انشائی کی حامل ہے۔ ماہیت کے لحاظ سے یہ دونوں الگ الگ مفہوم ہیں۔ کیونکہ پہلے والے مفہوم کے مطابق فقہاء اللہ کی طرف سے منصوب ہیں  اور دسرے مفہوم کے مطابق  عوام الناس کو چاہیے کہ فقیہ جامع الشرائط کو اپنے لیے سرپرست کے طور پر منتخب کریں۔ لیکن ہماری نظر میں  اس تقسیم کی بنیاد ہی صحیح نہیں۔  کیونکہ  بہر صورت ولایت،  انشائی مفہوم کی حامل  ہے چاہے اس کا انشاء کرنے والا اللہ تعالیٰ ہو یا رسول خدا(ص) یا ائمہ معصومین(ع)۔ یا مثلا خود عوام  الناس فقیہ کو اپنے لیے سرپرست انتخاب کریں۔ تمام صورتوں میں ولایت  انشائی ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک میں انشاء اللہ کی جانب سے ہے دوسرے میں رسول اخدا کی طرف سے اسی طرح تیسرے میں ائمہ معصومین(ع) کی جانب سے۔ پس مذکورہ نظرے میں  ولایت فقیہ   کے سلسلے میں اخباری مفہوم  بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ   کہنے والے کو اخبار اور انشاء کے درمیان موجود فرق  ہی معلوم نہیں یا  شاید اس سے غافل تھے۔

بنابر این ولایت فقیہ کے بارے میں  درست اور صحیح تعبیریہ ہے کہ ولایت ایک انشائی مفہوم رکھنے والا لفظ ہے جو انشاء کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کبھی یہ انشاء اللہ کی جانب سے ہے اور کبھی رسول خدا (ص)کی طرف سے اور کبھی ائمہ معصومین(ع) کی جانب سے ہے۔ اگر عوام الناس  کو یہ  حق دیا جائے تو  مکتب توحیدی کے نظریے کے مطابق یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہے جبکہ مکتب شرک و الحاد میں محض لوگوں کا حق تصور کیا جاتا ہے۔ پس ہمارا اختلاف اس میں نہیں کہ ولایت  اخباری مفہوم رکھتی ہے یا  انشائی۔ بلکہ  بحث اس میں ہے کہ  انشاء کس کی طرف سے ہوتا ہے  خدا یا مخلوق خدا؟  دوسری عبارت میں یوں بیان کریں کہ حکومت اسلامی  کے تمام مراتب کی مشروعیت میں اذن خدا درکار ہے  یا صرف لوگوں کی جانب سے انتخاب کرنے پر مشروعیت حاصل ہوتی ہے؟ الہی نظریہ کی بنیاد پر  پہلا قول صحیح ہے  دوسرا صحیح درست نہیں۔

ایک اعتراض میں کہا گیا تھا کہ ولایت فقیہ کے مفہوم خبری کے  حامل ہونے کا  ملازمہ یہ ہے کہ مخالفین کو اس کا جواب نہ دیا جائے، اس کا جواب یہ ہے کہ   ہماری نظر میں انہوں نے ولایت کے دو  مفاہیم  میں فرق کو نہیں پہچانا ہے۔ ولایت سیاسی ، فقیہ جامع الشرائط   کی عقلمند اور رشد و کمال کے حامل انسانوں  کی سرپرستی کا نام ہے جبکہ ولایت  کا دوسرا مفہوم محجور اور ممنوع التصرف افراد کی سرپرستی  ہے جو ہمارا موضوع بحث نہیں۔ پس ان دو مفاہیم میں موازنہ درست نہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر دوسری بات یہ ہے کہ  ولایت فقیہ کی مشروعیت  خدا اور معصومین علیہم السلام کی جانب سے حاصل ہونے کے باوجود چند چیزوں کی طرف ہماری توجہ رہنی چاہیے:

1۔ بنیادی طور پر  ولایت فقیہ کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے لوگوں کو اختیار حاصل ہے،

2: ولی فقیہ کی حکومت  کی مقبولیت میں لوگوں کی رائے  بنیادی کردار ادا کرتی ہے،

3۔ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جامع الشرائط فقہاء میں سے  حکمرانی اور سرپرستی کے لیے   لائق ترین کا انتخاب کریں،

4۔  ولایت فقیہ کے سلسلے میں انتصابی مبانی کے قائلین  نے عملی طور پر دیکھا ہے کہ ولایت فقیہ کی دو عشروں پر مشتمل حکومت میں مختلف میدانوں اور سیاسی امور میں  لوگوں کی رائے  حکمرانوں کے نزدیک درست معیار قرار پائی ہے۔

 مذکورہ مطالب کا خلاصہ  یہ کہ  اسلام کے توحیدی مکتب میں حکومت صرف لوگوں کے انتخاب  سے نہیں بنتی جب تک اس حکومت کی بنیادوں میں اللہ کا اذن اور شریعت کی رہنمائی موجود نہ ہو۔ اس بنا پر اسلامی حکومت،  جمہوریت پسند دینی حکومت  سے عبارت ہے اور حکومت  وضعی احکام میں سے ہے لہذا یہ انشائی  مفہوم ہوگی اخباری نہیں۔

ہماری نظر میں پوری بحث کا نتیجہ یہ  ہوا کہ ولایت فقیہ  بنیادی طور پر ایک کلامی  موضوع ہے کیونکہ اس کا اصلی موضوع یہ ہے کہ کیا عصر غیبت میں اللہ کی جانب سے حکمرانی اور سیاسی امور کی مدیریت کے لیے کسی کا انتخاب کیا گیا ہے یا نہیں؟ یہ انتخاب اگرچہ صفات کے بیان کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس بحث  میں فعل خداوند  کے سلسلے میں بات ہوتی ہے  اور اللہ کی جانب سے تعیین ہونے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہےاس لیے یہ مسئلہ کلامی پہلو کا حامل مسئلہ ہے اس پر مستزاد یہ کہ ولایت فقیہ کے اثبات کا ایک طریقہ قاعدہ لطف  اور حکمت الہی ہے اس لیے  اس مسئلے کا کلامی ہونا بالکل روشن  ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف سے اس بحث میں حاکم اسلامی کی شرائط، ان کی ذمہ داریوں، ان کے اختیارات ، لوگوں کی اس سلسلے میں ذمہ داریوں اور ان کی دلیلوں کے بارے میں بحث ہوتی ہے  اس لیے اس  بحث میں فقہی پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے۔  جس طرح سے ہم مسئلہ امامت میں عقلی دلائل کے ذریعے  امام کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں اور نقلی طریقوں  جیسے واقعہ غدیر وغیرہ سے اس کے مصادیق کا تعین کرتے ہیں اسی  طرح ولایت فقیہ کی بحث  میں بھی عقلی دلائل کے ذریعے سے  ولی فقیہ کے انتصاب  کو شریعت کی جانب سے ثابت کرتے ہیں اور اس کے مصادیق کے تعین  اور  اس کے اختیارات کو نقلی دلیلوں کے ذریعے سے ثابت کرتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اس  بحث میں فقہی پہلو بھی موجود ہے۔

ولایت فقیہ کے کلامی یا فقہی مسئلہ ہونے کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ

         علمائے اہل سنت، نبوت  کی بحث کو کلامی مسائل میں سے قرار دیتے ہیں [19]جبکہ امامت کو فرعی اور فقہی مسئلہ گردانتے ہیں۔ ہم یہاں اہل سنت علماء کے بعض اقوال کا ذکر کرتے ہیں۔

1۔ قاضی عضد الدین ایجی

 نصب الامام عندنا واجب علینا سمعا… وقالت الامامیه والاسماعیلیه لایجب نصب الامام علینا بل علی الله سبحانه… لحفظ قوانین الشرع[20] اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد امت کی  رہبری اور حکمرانی کے لیے حاکم کا تعین کرنا اللہ پر واجب نہیں لہذا اللہ کی جانب سے ایسا کوئی انتظام بھی نہیں ہوا ہے۔ عبد الرحمن بن ابن خلدون اس سلسلے میں  رقمطراز ہے: امامت اور خلافت کے بارے میں جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ امامت ،  امت کی  ایک مصلحت پذیر اور اجماعی مسئلہ ہے  اصول دین یا عقیدے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔  [21]

چند مہم نکتے

1: اہل سنت  کی جانب سے امامت کو کلامی مسئلہ قرار نہ دینے کی وجہ ان کی  فکری بنیادیں ہیں۔ یعنی وہ لوگ حُسن و قبح عقلی کو نہیں مانتے۔ اور کسی بھی نوعیت کے فعل کو اللہ کی جانب سے صادر ہونے کے بارے میں عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس  فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ  سلسلہ نبوت کے بعد  امام کے انتخاب کے  حوالے سے  اللہ کی جانب سے کوئی  حکم صادر نہیں ہوا ہے۔  بلکہ امام کے انتخاب  کی پوری ذمہ داری لوگوں پر عائد کی گئی ہے۔[22]حسن و قبح عقلی کے انکار اور اس جیسی فکر ہی کی وجہ سے وہ لوگ مفضول کو افضل پر ترجیح دینے کو ناممکن نہیں سمجھتے  بلکہ ان کے ہاں یہ ایک ممکنہ صورت حال ہے۔کیونکہ امام کے انتخاب کا مکمل حق لوگوں کے پاس ہے۔ اب لوگوں کی مرضی ہے کہ وہ افضل کا انتخاب کریں یا مفضول کا۔جبکہ شیعہ  فقیہ اور متکلم علامہ حلی اس کے بارے میں لکھتے : شیعہ علما ء کی نظر میں مفضول کو افضل  پر ترجیح دینا جائز نہیں، جبکہ اہل  سنت کی اکثریت کے نزدیک ایسا جائز ہے۔[23] اہل سنت کی جانب سے مسئلہ امامت کو کلامی مسئلہ قرار نہ دینے کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ امام اور حاکم میں عصمت کی شرط کو نہیں مانتے اسی طرح  حاکم اسلامی کے عادل  ہونے کی شرط کو بھی نہیں مانتے۔ یہی وجہ ہے کہ فاسق حاکم کی اطاعت کو  بھی وہ لوگ جائز قرار دیتے ہیں مگر یہ کہ وہ فاسق حاکم اللہ کی نافرمانی کا  حکم دے، اس صورت میں اس کے حکم کی تعمیل ضروری نہیں۔[24]

علمائے اہل سنت،  شیعہ مکتب میں رائج  عدالت کے معنی  اور افضلیت کی شرط کو نہ ماننے کے باوجود ولی اور حاکم اسلامی کی سرپرستی اور اختیارات  کے دائرے  وسیع سمجھتے ہیں اور معاشرتی تمام پہلووں  اس کی حکمرانی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی جانب سے حاکم کی بیعت کی جانے کے بعد اسے منصب  حکمرانی سے عزل نہیں کرسکتے اور اگر کبھی حاکم غیر مشروع یا  لوگوں کی مصلحت سے متصادم  کوئی فعل انجام دے تو صرف اسے  موعظہ و نصیحت کی جاسکتی ہے۔ حاکم کی اطاعت معصیت کے علاوہ تمام امور میں واجب ہے۔

مندرجہ بالا  بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل سنت ولایت مطلقہ کو ایک فقہی بحث  گردانتے ہیں البتہ ولایت کا مفہوم  ان کے نزدیک پیغمبر(ص) یا امام معصوم(ع) کی نیابت منظور نظر نہیں بلکہ  پیغمبر اکرم(ص)  کی خلافت اور جانشینی مراد ہے۔ان کے نزدیک اولی الامر کی اطاعت پیغمبر(ص) کی اطاعت کے مانند  شرعی طور پر واجب ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کو حکمرانی کا عہدہ اللہ کی جانب سے عطا ہوتا ہے البتہ اس کے مصدا ق کے تعین کی راہیں مختلف ہوسکتی ہیں۔

تیسرے درس کا خلاصہ 

1: ولایت فقیہ تین طریقوں سے ثابت ہوتی ہے۔

الف: خالص دلیل عقلی

ب: خالص دلیل نقلی

ج: عقلی اور نقلی دلیل

ولایت فقیہ کے اثبات کے ان تین طریقوں کی وجہ سے اس کے کلامی یا فقہی  مسئلہ ہونے کے بارے میں سوال ہوتا ہے۔

2: علم کلام ایسا علم ہے  جس میں اللہ تعالی کی ذات، صفات اور  افعال کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔علم فقہ ایسا علم ہے جس میں فعل  مکلف  کے شرعی حکم  کی نوعیت کا تعین ہوتا ہے۔ پس علم کلام کا موضوع اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء، صفات اور افعال ہیں اور علم فقہ کا موضوع مکلفین کے افعال ہیں جس میں ان کے حکم کا تعین ہوتا ہے۔

3: علم کلام اور علم فقہ کے درمیان فرق کا معیار ان دونوں علوم کا موضوع ہے ۔ فرق کا معیار ان  دونوں علوم کے دلائل نہیں۔   ان کی دلیل فرق کا معیار قرار نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ کبھی  ایک برہان عقلی  بطور دلیل  ایک کلامی حکم کے لیے بھی  استعمال ہوتا ہے اور کبھی یہ برہان عقلی فقہی کسی حکم کے اثبات کے لیے بھی۔

4۔ ولایت فقیہ   کی بحث کا تعلق علم کلام  اور علم فقہ دونوں سے ہے۔ علم کلام سے اس کا تعلق اس انداز میں ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے فقہاء کو لوگوں کی  سیاسی سرپرستی کے لیے منتخب کیا ہے یا نہیں؟   اسی طرح  ولایت فقیہ علم فقہ میں دو لحاظ سے مورد بحث قرار پاتی ہے:

الف: جامع الشرائط فقیہ پر واجب ہے کہ  لوگوں کی سیاسی سرپرستی کو قبول کریں اور  اس کے لیے حکومت تشکیل دیے۔

ب: لوگوں پر واجب ہے کہ فقیہ کی ولایت اور رہبری کو قبول کریں اور اس کی جانب سے صادر شدہ احکامات پر عمل کریں۔ پس ولایت فقیہ کے کلامی اور فقہی  پہلو دونوں ایک دوسرے  کا لازمہ ہے۔

5: ولایت فقیہ کے کلامی اور فقہی مسئلہ ہونے  ہی کی بنیاد  پر اس سوال کا جواب ملتا ہے کہ کیوں   ولایت فقیہ کا مسئلہ  امام خمینی(رح)  سے پہلے کے فقہاء اور مجتہدین کے درمیان ایسا اجاگر کیوں نہیں ہوا جتنا عصر  امام خمینی(رح) میں اجاگرہوا اور اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں؟! 

6: اگر ہم ولایت فقیہ کو کلامی مسئلہ قرار دیں تو  اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ  اللہ تعالیٰ نے  فقہاء کی ولایت کو ائمہ علیہم  السلام  کی ولایت کا تسلسل قرار دیا ہے اور لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ فقیہ جامع الشرائط کی پہچان کرلیں اور اان کی اطاعت کریں۔ پس  فقہاء کو ولایت عطا ہونے میں لوگوں کا کوئی کردار نہیں البتہ اس ولایت کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے وہ تکوینی اختیار رکھتے ہیں تشریعی نہیں۔

7: اہل سنت علماء نبوت کو کلامی مسائل میں سے قرار دیتے ہیں لیکن امامت کو ایک فقہی اور فرعی مسئلہ جانتے ہیں۔

چوتھے سبق کے سوالات

سوال1: ولایت فقیہ کے اثبات کے کتنے طریقے ہیں؟

سوال2: علم کلام اور علم فقہ کا موضوع کیا ہے؟

سوال3: علم کلام اور علم فقہ کے مسائل کی پہچان کا ذریعہ  ان کی ادلہ ہیں یا ان کا موضوع؟

سوال4: اہل سنت علماء کی نظر میں ولایت فقیہ کلامی مسئلہ ہے یا فقہی؟ اور کیوں؟

سوال5: ولایت فقیہ اگر کلامی مسئلہ ہو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اس  پر مکمل بحث کریں۔

[1] : قاضی عضد الدین ایجی، شرح مواقف، ج 1، ص 34و35.

[2] : عبد الرزاق فیاض لاهیجی، شوارق ، ج1، ص 5.

[3] : آیت‌الله جوادی آملی، ولایت فقیه و رهبری در اسلام، ص 134.

[4] : میرزا علی مشکینی، اصطلاحات الاصول، ص 180.

[5] : راغب اصفہانی، مفردات راغب۔

[6] : آیت‌الله جوادی آملی، ولایت فقیه و رهبری در اسلام، ص 134

[7] : استاد مرتضی مطهری، آشنایی با علوم اسلامی، ج 3، ص 70ـ71.

[8]. امام خمینی، ج2،ص2-461.

[9] : مهدی حائری، حکمت حکومت، ج 1، ص 172.

[10]. محمدحسن نجفی، جواهر الکلام، ج15، ص 421.

[11]. علامه حلی، الالفین، ص 24.

[12] : یعنی لوگ چاہیں تو  اپنے اختیار سے ولایت کو تسلیم  کرسکتے ہیں اور  اپنے اختیار سے اس سے دور بھی ہوسکتے ہیں۔

[13]. صالح نجف آبادی، ولایت فقیه، حکومت صالحان، ج 1، ص 46.

[14]. مجله حکومت اسلامی، سال دوم، شماره 6، زمستان 76.

[15]. همان.

[16]. صالحی نجف آبادی، ولایت فقیه حکومت صالحان، ج1، ص 46و47.

[17]. صالحی نجف آبادی، ولایت فقیه حکومت صالحان، ج1، ص50.

[18] : صالحی نجف آبادی، ولایت فقیه حکومت صالحان، ج1، ص52۔

[19]. علی ربانی گلپایگانی، دین و دولت، ص 128.

[20]. قاضی عضدالدین ایجی، شرح مواقف، ج 8، ص 345.

[21]. عبدالرحمن بن خلدون، کتاب مقدمه ابن خلدون، ص 465.

[22]. تفتاذانی، شرح مقاصد، ج 5، ص 263.

[23]. حسن بن یوسف حلی، تذکرة الفقهاء، ج 1، ص 453.

[24]. باقلانی، التمهید، ص 81، کتاب شرح العقاید الطعاویه، ج1، ص 379، تفتازانی، شرح مقاصد، ج 5، ص 233و257.

(بازدید 4 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *