عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام ،ولایت فقیہ

دوسرا  سبق

عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام ،ولایت فقیہ

دین ، فقہ اور سیاست کا باہمی تعلق

درس کے اہداف؛

1۔مفہوم سیاست سے آشنائی

2۔دین کی خصوصیات سے آشنائی

مقدمہ

دین اور سیاست کا باہمی تعلق، دین سے انسان کی توقعات اور دین کا دائرہ اختیار ان مسائل میں شمار ہوتے ہیں جو آج کے دور میں فلسفہ دین(Philosophy Of Religion )اور کلام جدید(Modern Theology) میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی وجہ سے دین کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں کی خاص توجہ اسی پر مرکوز ہوئی ہے۔ بعض نے دین کی نظر سے ان مسائل کے بارے میں بحث کی ہے جبکہ کچھ افراد نے سیکولر نظریات کے تحت ان مسائل پر گفتگو کی ہے۔ اگرچہ جدید اور ماڈرن دور میں ان مسائل پر اس انداز میں گفتگو ہورہی ہے لیکن ان کی ابتدا مغرب سے ہوئی اور مختصر مدت میں دنیا کے دوسرے خطوںکو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہمارے معاشرے میں بھی حالیہ عرصے میں بعض دانشوروں نے دین اور دینداری کے حوالے سے ان سوالات کو پیش کرنا شروع کیا ہے۔ کلام اسلامی کے قدیمی آثار و کتب میں ان عنوانات کے بارے میں واضح بحث موجود نہیں ہے البتہ بعض مواقع پر دین کی ضرورت، دین کے فوائد، ختم نبوت اور دین کی تکمیل جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہوئے ان مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ دین اور سیاست کا تعلق ایسا موضوع ہے جس کا بعض دوسرے موضوعات کے ساتھ قریبی تعلق ہے مثلا دین سے وابستہ انسان کی توقعات یا دین کا دائرہ اختیاراور قلمرو۔ ان ابحاث کا ہدف دین کا دائرہ اختیار معین کرنا نہیں کیونکہ یہ خدا پر ہماری اپنی مرضی مسلط کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس بحث کا مقصد دین کی حدود اور حقیقی دائرہ اختیار کو معلوم کرناہے۔ دین سے انسان کی وابستہ توقعات اس کے  دائرہ اختیار اور قلمرو کو واضح کرتی ہیں اس طرح کہ ہمیں دین سے کس طرح کے سوالات پوچھنا چاہئے؟ کن مشکلات کا حل دین سے طلب کرنا چاہئے؟ البتہ اس سے فقط یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین کن سوالوں کا جواب دے سکتا ہے لیکن سوالات کی نوعیت اور مطالب کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہے یعنی فقط کلی اور مجموعی طور پر سوال کا جواب ملتا ہے مثال کے طور پر عبادت اور پرستش انسان کی ایسی ضرورت ہے جس کے بارے میں حکم کو مشخص کرنا دین پر فرض ہے لیکن دین ان ضروریات کو کیسے پورا کرتا ہے؟ اس کے  جواب کے لئے دین سے ہی رابطہ کرنا ضروری ہے۔ انسان کی دین سے وابستہ توقعات کے بارے میں بحث کرنے والوں کی بڑی تعداد دین کو انسان کی فردی زندگی تک محدود کرنا چاہتی ہے دوسرے الفاظ میں دین کی اجتماعی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الہی و غیر الہی ادیان کے درمیان فرق کئے بغیر تمام ادیان کو ایک ہی نظر سے دیکھنے والے بہت سارے مغربی دانشور دین کو انسان کا ذاتی معاملہ اور مادیات سے ماوراء اور مقدس  حقائق سے رابطہ قرار دیتے ہیں۔  اس نظرئیے کے حامی اسلامی نظرئیے کے مقابلے میں کمترین دین کا نظریہ پیش کرتے ہیں اور اپنے نظرئیے کا دفاع کرنے کے لئے بعض اسلامی اصول اور مقدمات پر اشکال کرتے ہیں یا اپنے نظریات کے مطابق ان کی تفسیر کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں؛

  • دین خاموش ہے اور دین کی معرفت انسانی معارف کے تابع ہے اس طرح اس میں لچک  اور مصلحت پذیری (قبض و بسط )موجود  ہے۔
  • دین کی معرفت نسبی ہے اور زمانے کے مطابق ہوتی ہے۔
  • دین میں اصل اور اہمیت اس کے گوہر کو حاصل ہے۔ عرفانی تجربے دین اسلام کے گوہر کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ احکام اس گوہر کا صدف ہیں۔
  • اسلام خدا اورمعصوم کے کلام کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عرفاء کے مقدس تجربات کا نتیجہ ہے ۔
  • انبیاء کی بعثت کا مقصد انسان کی دنیا آباد کرنا اور اصلاح نہیں بلکہ ابدی زندگی کو سنوارنا ہے۔
  • اسلامی احکام ابدی نہیں بلکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے مختص ہیں۔ اسلام نے فقط چندرہنما اصول اور اقدار بیان کئے ہیں ۔
  • ختم نبوت کا مطلب انسان کا انبیاء کے مکتب اور تعلیمات سے بے نیاز ہونا ہے۔ انسان ترقی اور پیشرفت کے ساتھ ساتھ انبیاء کی تعلیمات سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
  • دین جامع نہیں بلکہ کامل ہے ۔ اس کا کمال بھی کمترین درجے کا ہے۔
  • انسانی زندگی کے مختلف پہلووں میں دین کی موجودگی سے اس کے اندردینی آئیڈلوجی پیدا ہوئی ہے۔[1]

اس نظرئیے کے مقابلے میں  دین کا حداکثری نظریہ بھی موجود ہے جو دین کو جامع اورانسانی زندگی کے  تمام معاملات میں شامل کرتا ہے۔ اس نظرئیے میں قرآن کریم اور آئمہ اہل بیت کے فرامین  کی روشنی میں دین کو انسان کی فردی، اجتماعی، خاندانی، سیاسی، اقتصادی اور دنیا و آخرت کے تمام امور میں موثر قرار دیا جاتا ہے۔

دین اور سیاست کے باہمی تعلق کی نوعیت اور ان دونوں نظریات کے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے دین اور سیاست کی جدائی کی مختصر تاریخ اور اس کی بنیادوں کے بارے میں مختصر بحث کی جائے گی۔ اس سلسلے میں دین اور سیاست کی تعریف بھی پیش کی جائے گی۔

دین اور سیاست کی جدائی کے نظرئیے کی مختصر تاریخ

مغرب میں اقتصادی، ثقافتی اور معاشرتی انقلاب اور نشاہ ثانیہ  کے نتیجے میں یہ نظریہ معرض وجود میں آیا۔ دین اور سیاست کی جدائی سیکولرزم کا طرز فکر ہے جس میں سیاست، حکومت، علم، اخلاق اور انسانی زندگی کے دیگر شعبوں سے دین کاکردار ختم یا کم کرنے  کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نظرئیے کے تحت چنانچہ انسان اپنی عقل اور علم کے بل بوتے پر مادی امور کی شناخت میں کامیاب ہوا ہے اسی طرح ثقافت، سیاست، عدالت، اقتصاد، معاشرتی رسومات اور دیگر مادی و معنوی شعبوں میں خوبیوں اور خامیوں کی تشخیص کرسکتا ہے بنابراین زندگی کے ان امور میں دین کو شامل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پس دین اور سیاست جدا ہونے کا نظریہ مغرب سے شروع ہوا۔ قرون وسطی اور اس کے بعد کچھ عوامل اور حواد ث کی وجہ سے مغربی ثقافت پر یہ فکر حاکم ہوگئی۔ ایک جانب تحریف شدہ مسیحی مذہب غیر معقول و مبہم مفاہیم اورکلیسا کی   مطلق العنان حاکمیت کے ساتھ سامنے آئی دوسری جانب عقل اور علم کا انجیل کی تعلیمات سے ٹکراو کے باعث دین اور تجدد کے درمیان  تضاد واضح ہوتا گیا جس کے نتیجے میں علم اور دین کی جدائی کا نظریہ پیدا ہوا اور علم کے میدانوں سے دین کا بوریا بسترہ لپیٹ دیا گیا۔

مغرب میں اس طرز فکر کے رائج ہونے کے  بعد اسلامی دنیا میں بھی تین طبقوں کی جانب سے دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ پیش کیا گیا؛

پہلاطبقہ ظالم اور جابر حکمرانوں کا ہے جو اسلام کے ابتدائی دور میں ہی خلافت کو ملوکیت اور سلطنت میں بدلنا چاہتے تھے مثال کے طور پر سن 40 ہجری میں جب معاویہ تخت خلافت پر براجمان ہوا تو عراق آیا اور کہا کہ میں نے تم سے نماز اور روزے کی خاطر جنگ نہیں کی بلکہ حکومت حاصل کرنا میرا مقصد تھا جوکہ مجھے حاصل ہوگئی۔ معاویہ کے  بعد اسلامی معاشرے میں حکومت نے دینی شکل کھودی اور سلطنت میں بدل گئی۔ جابر حکمرانوں نے ہر دور میں علمائے دین کا مقابلہ کرنے کے لئے دین اور سیاست کی جدائی کا نعرہ بلند کیا اور علماء کو سیاست میں مداخلت کرنے سے بالاتر قرار دیا۔

دوسرا طبقہ بیرونی استعمار کے کارندوں کا ہے۔ عالمی استعمار کو اسلامی ممالک میں علمائے دین کی جانب سے ترویج ہونے والی دینی تعلیمات سے شدید نقصان پہنچا ۔ اس نقصان کی تلافی کے لئے استعماری طاقتوں نے دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ پیش کیا۔

تیسرا طبقہ مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے فکری حوالے سے بیمار دانشوروں کا ہے جنہوں نے مغرب میں رائج دین اور سیاست کی جدائی کے نظرئیے کو اسلامی ممالک میں بھی ترویج کرنا شروع کیا۔ یہ نام نہاد دانشور اس حقیقت سے غافل تھے کہ اسلام اور مسیحیت میں بڑا فرق ہے۔ ان دانشوروں نے اپنے نظرئیے  پر غیر منطقی انداز میں استدلال کرتے ہوئے نتیجے اور دعوی  کوہی دلیل کے طور پیش کیا ۔

دین اور سیاست کے باہمی تعلق کی نوعیت اور دونوں نظریات پر بحث کرنے سے پہلے دین اور سیاست کی تعریف اور حقیقت کو بیان کریں گے۔

سیاست

سیاست ان اہم ترین اور پیچیدہ ترین مفاہیم میں سے ہے جس کے بارے میں دانشوروں کے درمیان کوئی متفقہ رائے نہیں  ہے۔ پہلے سبق میں چنانچہ بیان کیا گیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مفاہیم مختلف مفروضوں سے متاثر ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق نظریات بنتے ہیں۔ علم سیاسیات بھی دوسرے انسانی علوم کی طرح مفروضوں پر مبنی ہے بنابراین سیاسیات کے اصول اور مقدمات پر ہونے والی ابحاث نظریات اور مفروضات پر مبنی ہوتی ہیں پس علم سیاسیات کو نظریات اور فکری اقدار سے جدا کرنا ناممکن ہے۔  علم منطق کی رو سے تعریف جامع اور مانع ہونا چاہئے البتہ چونکہ علوم انسانی کا موضوع انسان کی رفتار اور سلوک ہے جو مختلف اور نامعلوم اسباب پر مبتنی ہے بنابراین اس میں بہت ساری پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ سیاست اور علم سیاسیات علوم انسانی کا حصہ ہونے کی وجہ سے پیچیدہ اور مشکل مفاہیم میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ اس کا دائرہ اختیار معلوم نہیں ہے۔ ایک لحاظ سے سیاست انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں کردار ادا  کرتی ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اندرونی اور بیرونی حکمرانوں کے سیاسی فیصلوں سے متاثر ہوتا ہے۔ رابرٹ ڈل کہتے ہیں کہ انسان کااپنی  زندگی کے ہر موڑ پر سیاسی مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔  بعض کا دعوی یہ ہے کہ علوم قدرت کی منشاء سے وجود میں آتے ہیں یعنی تحقیق کا موضوع جس قدر وسیع اور اجزاء متفرق اور ناہموار ہوں، کسی جامع تعریف کو پیش کرنا مزید سخت ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ کسی بھی علم کی تعریف کرنے سے پہلے اس کو تشکیل دینے والے عناصر کے بارے میں مکمل آگاہی ہونا چاہئے جوکہ نہایت دشوار ہے اسی بناپر سیاست کی تعریف فرضی اور مفروضات پر مبنی ہے۔ اس موضوع سے مربوط مطالب کو سمجھنے میں آسانی کے لئے ذیل میں ہم سیاست کی چند تعریفوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛

سیاست کی لغوی تعریف

لغت میں مفہوم سیاست کے لئے متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں چنانچہ سیاسیات میں اس کے کئی اصطلاحی مفاہیم بھی پائے جاتے ہیں۔ سبق کے اس حصے میں ہم پہلے لغوی مفاہیم کی طر ف اشارہ کریں گے اس کے سیاسیات کے ماہرین کی جانب سے پیش کردہ  چند تعریفوں کے بارے میں مختصر بحث کرتے ہوئے تجزیہ و تحلیل کریں گے۔

لغت میں سیاست  حفاظت اور نگہبانی کرنا، حکم کرنا،  رعایا کی پرورش، حکمرانی، عدالت، مصلحت، تدبیر، ادب سکھانا، دوراندیشی، ڈانٹنا،   اذیت دینا اور سزا وغیرہ کو کہتے ہیں۔ [2]

اسلامی سیاسی زبان میں سیاست ساس یسوس سے مشتق ہے اس اس کے معنی حکومت، اقتدار، تنبیہ، تربیت، انتظام، تدبیر، عدالت، حفاظت اور نگرانی ہیں۔[3] 

سیاست کا اصلی اور حقیقی مفہوم تربیت و پرورش ہے کیونکہ الفاظ ابتدا میں محسوس اور مادی مفاہیم میں استعمال ہوتے ہیں اس کے بعد وسعت آتی ہے اور غیر مادی و غیرمحسوس معانی میں استعمال ہوتے ہیں چنانچہ ساسة الفرس کہا جاتا ہے  یعنی گھوڑے کے مالک نے اس کی تربیت کا انتظام کیا۔ سیاست کا یہی مفہوم وسیع ہوتے ہوئے انسان اور معاشرے کی تربیت کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔[4]

احادیث اور روایات کے منابع اور کتابوں میں بھی سیاست کو تربیت، پرورش اور اقتدار کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ذیل میں چند روایات کی روشنی میں اس کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: کان بنو اسرائیل تسوسهم انبیائهم[5]

بنی اسرائیل کی سرپرستی اور  حکمرانی انبیاء کے پاس تھی۔ دوسری روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: فوض الیه امرالدین والدنیا لیسوس عباده[6]  دین اور دنیا کے امور ان کے سپرد کئے گئے ہیں تاکہ بندوں کی تربیت کریں۔  آپ کا ارشاد گرامی ہے: والامام مضطلع بالامامه عالم بالسیاسه[7]  معاشرے کی قیادت امام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور وہ سیاست سے آگاہ ہوتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ان الله ادب نبیه فاحسن ادبه فلما اکمل له الادب قال انک لعلی خلق عظیم ثم فوض الیه امرالدین و الدنیا لیسوس عباده[8] اللہ نے اپنے نبی کی اچھی طرح تربیت کی۔ جب تربیت مکمل ہوگئی تو فرمایا کہ تو اخلاق کے عظیم رتبے پر فائز ہو اس کے بعد دین اور دنیا کے امور ان کے سپرد کئے تاکہ بندوں کی تربیت کریں۔ زیارت جامعہ کبیرہ میں ہے کہ السلام علیکم یا اهل بیت النبوه و دعائم الدین و ساسه العباد سلام ہو آپ پر اے خاندان نبوت، دین کے ستون اور بندوں کے تدبیر کارو۔ حضرت علی علیہ السلام سیاست اور تربیت کے باہمی تعلق کے بارے میں فرماتے ہیں: بحسن السیاسه یکون الادب الصالح[9] اچھی سیاست اور تدبیر سے شائستہ انداز میں تربیت ہوتی ہے۔ نیز سیاست اور عدالت کی باہمی نسبت  کے بارے میں فرماتے ہیں: ملاک السیاسه العدل یعنی سیاست کا معیار عدالت ہے نیز فرماتے ہیں جمال السیاسه العدل فی الامره و الفعو مع القدره[10] سیاست کا حسن یہ ہے کہ حکومت کرتے ہوئے عدالت اور قدرت کے باوجود درگزر سے کام لیا جائے۔ آپ علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:  آفه الزعامه ضعف السیاسه[11] سیاست میں کمزوری اقتدار کے لئے آفت ہے۔

قرآن میں سیاست کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے بنابراین قرآن میں سیاست کے بارے میں تحقیق کرنے کے لئے امامت، ولایت اور خلافت جیسے الفاظ سے استفادہ کرنا ہوگا چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ[12]اللہ مومنین کا سرپرست ہے جو ان کو تاریکیوں سے نور کی طرف لے جاتا ہے۔ اور کفار کے سرپرست طاغوت ہیں جو ان کو نور سے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہی اصحاب جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔  اس آیت میں ولایت اور امامت کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ الف۔ امامت و ولایت حق ب۔ امامت و ولایت باطل؛ دونوں امامت و قیادت کی قسمیں ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا[13] ہم نے ان کو ائمہ بنایا جو ہمارے حکم کی طرف ہدایت کرتے ہیں۔ اس آیت میں امامت حق اور نور کی طرف ہدایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دوسری آٰیت میں ارشاد ہوتا ہے: وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ[14] اور ہم نے ان کو ائمہ بنایا جو آگ کی طرف بلاتے ہیں۔ اس آیت میں باطل امامت اور باطل حکومت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن میں معاشرے کی سرپرستی اور حکومت کے لئے خلیفہ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ[15] اے داود! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا پس لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹادے گی۔

سیاست کی ایک جامع اور مانع تعریف نہایت مشکل ہے۔ اب تک کی گئی درجنوں تعریف سے اس کی پیچیدگی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ان تعریفوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔ طاقت کا حصول اور اس کی حفاظت

بعض دانشوروں نے سیاست کو انسانوں، گروہوں، حکومتوں اور جماعتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئےباہمی  چپقلش اور مخاصمت قرار دیا ہے۔ شاید یہ سیاست کی سب سے پرانی تعریف ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ ایسی طاقت کب، کس کو اور کن اقدار پر مشتمل ہونا چاہئے، طاقت اور قدرت کا حصول سیاست کی سب سے قدیمی تعریف شمار کی جاتی ہے جس کی طرف قدیم مغربی و مشرقی آثار میں اشارے ملتے ہیں۔ ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں؛

مک آئیور اپنی کتاب معاشرہ اور حکومت میں لکھتے ہیں کہ سیاست طاقت کے استعمال اور اس پر مرکوز  ساخت و تنظیم کو کہتے ہیں۔ ہارولڈ لاسول کے مطابق علم سیاست ہمیں سکھاتا ہے کہ کون، کیا، کب، کہاں اور کیسے جیتا؟[16] موریس طاقت کو سیاست کی بنیاد اوراس کا  مرکزی محور قرار دیتے ہیں۔ سیاست کے دو پہلو ہیں۔ حکومت یا منظم طاقت ہمیشہ اور ہر جگہ بعض طبقوں کے دوسروں پر تسلط کا ذریعہ ہے حاکم طبقہ اس کو اپنے مفادات کی حفاظت اور دوسروں کے مفادات کو نقصان پہنچانے  کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہی طاقت معاشرتی نظم و ضبط اور مصلحت عمومی کے تحفظ کا وسیلہ ہے۔[17] فیوڈور برلنسکی سیاست کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ سیاسی نظریئے کے ارتقاء اور سیاسی مطالعات کا محور طاقت ہے۔ سیاست، سیاسی تنظیموں اور تحریکوں کو سمجھنے میں یہی مفہوم کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔[18] برٹرینڈ رسل اپنی کتاب میں سیاست کو طاقت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔[19] رابرٹ ڈل بھی سیاست کو اقتدار اور طاقت سے تعبیر کرتے ہیں۔[20] فریڈرک نیچہ کہتے ہیں: طاقت پہلا حق فراہم کرتی ہے اور ایسا کوئی حق نہیں جس میں اندر سے ڈھٹائی، ناراضگی اور تشدد نہ ہو۔[21]

ڈیوڈ ایسٹن اس نظرئے کا قائل ہیں کہ سیاست کا تعلق معاشرے میں اقدار کے آمرانہ اختصاص  سے ہے۔[22] عالم اسلام میں بھی طاقت یا قدرت قدیم زمانے سے دیکھا جاسکتا ہے چنانچہ “الحق لمن غلب” یعنی اختیار اسی کو ہے جو غالب آئے؛ یا “لایقوم الناس الا بالسیف” [23]یعنی عوام تلوار کے ذریعے ہی راہ راست پر آتے ہیں؛ اس قسم کی حکایتیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ سیاست کے بارے میں لکھنے والے ایرانی دانشور سیاست کو معاشرے میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے اقتدار اور طاقت کے تحفظ کے معنی میں لیتے تھے چنانچہ خواجہ نظام الملک نے سیاستنامہ، جاحظ نے التاج اور کیکاووس بن قابوس بن شمگیر نے قابوسنامہ[24] میں یہی تعریف کی ہے۔

2۔ حکومت کا مطالعہ

سیاست کی تعریف میں اقتدار اور طاقت کے بعد مفہوم حکومت کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسیات کے بعض دانشور سیاست حکومتی ادارے کا مطالعہ کرنے کا نام قرا ر دیتے ہیں۔ حکومت کا مفہوم  سولہویں عیسوی میں میکاولی نے استعمال کیا ۔ اس سے پہلے یونان والے  پولیس (شہر۔حکومت) استعمال کرتے تھے۔ حکومت ابتدا میں یورپی بادشاہوں کی حکمرانی کو کہا جاتا تھا جو معاشرہ، اجتماع اور قوم سے مختلف تھی۔ رفتہ رفتہ عوامی حکومت کا نظریہ وجود میں آیا جس سے یورپ میں بادشاہی نظام تبدیل ہونے لگا اور عوامی حکومت نے اس کی جگہ لے لی۔ بعض سیاسی مفکرین کے مطابق سیاست حکومت کے سیاسی ڈھانچے اور ساخت کا مطالعہ کرنے کو کہتے ہیں اینڈرسن، کارلٹن اور کریسٹل کے مطابق سیاست حکومت کے بارے میں علم حاصل کرنے کو کہتے ہیں یا اجتماعی علوم کا ایک شعبہ ہونے کے لحاظ سے معاشرتی اداروں، حکومت اور حکمرانی کے نظریات سے مربوط ایک علم ہے۔[25] ہارولڈ لاسکی اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں: حکومت اور ملک کے رسمی اداروں کے بارے میں  تحقیق کرنے  کو سیاست کہتے ہیں۔[26] میک آئیور کے مطابق سیاست اس منظم اور متمرکز نظام کا نام ہے جس کی ذمہ داری معاشرے میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے۔[27] زمانہ قاجار کے روشن خیال اور جمہویت و سیکولرزم کے حامی روشن خیال مرزا میلکم خان کے مطابق سیاست حکومت کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق حکومت یعنی سیاست اور سیاست یعنی حکمرانی اور انتباہ؛ انتباہ کے بغیر حکمرانی ممکن نہیں چنانچہ حکمرانی کے بغیر سیاست اور حکومت نہیں ہے۔[28]

3۔ فیصلہ سازی کا عمل یا کرائسس منیجمنٹ

بعض سیاسی مفکرین سیاست کو معاشرے میں پیدا ہونے والے بحرانوں کو کنٹرول کرنے کے لئے سیاسی فیصلہ سازی کا عمل سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں سیاست کی ماہیت اور حقیقت ہی بدل جاتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق معاشرہ اور حکومت ہمیشہ بحرانوں میں غوطہ زن ہیں اور سیاستدان کا کام فقط ان بحرانوں کو حل کرنا ہے تاکہ حالات قابو سے باہر نہ ہوجائیں۔ ریمون ایرون اسی نظریے کے مطابق سیاست کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: سیاست معاشرے  میں پیش آنے والے مختلف اور ناہموار واقعات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا نام ہے۔[29] اس تعریف کے مطابق سیاست حکومت کی پالیسی اور سیاسی عمل کا نام ہے ایسا عمل جس کے مطابق سیاستدان مخصوص اور نازک حالات میں مختلف اقدامات کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل علمی اور تحقیقاتی نشستوں میں سیاست کو منیجمنٹ اور انتظام کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ سیاست کی مخصوص اور اہم ترین ذمہ داری  یہ ہے کہ “کیسے حکومت کی جائے”۔ گذشتہ زمانے میں “کون حکومت کرے؟” پر زیادہ تاکید کی جاتی تھی بنابراین سیاست کی تعریف اور معنی میں ایک ارتقاء پیدا ہوا ہے جس کے نتیجے میں سیاست کے اندر طاقت اور حکومت کی جگہ سیاسی عمل اور کارکردگی نے بنیادی حیثیت حاصل کرلی۔

تجزیہ و تحلیل: اس تعریف پر کئی اشکالات ہوسکتے ہیں؛ 1۔ سیاست کو منیجمنٹ اور انتظام کے معنی میں قرار دینا اگرچہ اس تعریف کو کسی حد تک اسلامی مفکرین کے نظرئیے کے قریب کرتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں کرائسس منیجمنٹ قرار دینے میں سیاست کی حقیقت اور ماہیت زیادہ آشکار ہوتی ہے کیونکہ فقط انتظام کے معنی میں قرار دینے سے معاشرے کے موجودہ حالات اور نظام کی حفاظت سمجھی جاتی ہے۔ صرف انتظام کے معنی میں لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ عوام کی تربیت، تقدیر اور سعادت کے بارے میں سیاست کو کوئی اختیار نہیں ہے اور معاشرے کے مستقبل کے لئے کوئی جامع پروگرام اور لائحہ عمل موجود نہیں۔ 2۔ یہ تعریف انسان کی طبیعت اور فطرت کے بارے میں نہایت خوش فہمی پر مبنی تصور کی بنیاد پر استوار ہے۔ مفکرین کے مطابق اس نظرئے کی بنیاد مغرب میں جان لاک اور روسو ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ انسان کی طبیعت اور فطرت خوبی کی طرف مائل ہے لیکن اس کے اندر بغاوت اور ستم گری کا مادہ بھی پایا جاتا ہے۔

4۔ ہدایت اور تقوی پر مبنی تدبیر

دین کی تعریف اور دائرہ کار: دین کے دائرہ کار کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے پہلے دین کی خصوصیات، مقاصد اور اہداف کی شناخت ضروری ہے بنابراین پہلے ان موضوعات پر بحث کریں گے؛

دین کا ہدف

اسلامی منابع کے مطابق دین کا ہدف انسان کے لئے حقیقی سعادت کا سامان فراہم کرنا اور دنیا اور آخرت میں اصلی کمال تک پہنچانا ہے جس کے سائے میں مخصوص ہدایت ملتی ہے۔ اسلامی منابع میں اس کو صراط مستقیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ[30] اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جاؤ کہ راہ  خدا سے الگ ہوجاؤ گے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ[31] ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ۔ جو اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں۔ سورہ مائدہ میں خداوند متعال فرماتا ہے: قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ[32]تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے  جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

اسلام کی نظر میں انسان فطری طور پر دنیا و آخرت میں کئی آرمان لے کر آتا ہے جوکہ درج ذیل ہیں؛

الف۔ کمال کا حصول

 ب۔ سالم معاشرے تک رسائی

ج۔ جامع عدالت و انصاف

د۔ اجتماعی فلاح و بہبود

ھ۔ بین الاقوامی صلح و آشتی

و۔ امنیت و تحفظ

ز۔ سکون و اطمینان

ک۔ سعادت و خوشبختی

چونکہ یہ ساری  آرمانیں  پوری ہوسکتی ہیں لہذا ان آرمانوں کی صحیح تعریف کرنا لازمی ہے۔ ان کے پورا ہونے کے لئے اجتماعی اور گروہی کردار کی ضرورت ہے۔ ہر آرمان تک پہنچنے کے لئے مخصوص راستہ ہے اسی کو شناخت کرکے طے کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ قرآنی آیات کی روشنی میں دین انسان کی ہدایت کے علاوہ معاشرے کے احیاء میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دین کے بغیر معاشرہ تاریک اور بے جان معاشرہ کہلائے گا۔ اللہ اور رسول کے دعوت پر لبیک کہنے اور صراط مستقیم پر چلنے سے انسان اور انسانی معاشرہ سنور جاتا ہے۔ یہ وہی زندگی ہے جس کو اللہ تعالی نے حیات طیبہ اور پاک زندگی سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ[33]  اے ایمان والو اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے.  اللہ تعالی صالح مومنین کو حیات طیبہ عطا کرتا ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً[34] جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے۔ پس دین کا ہدف دنیا اور آخرت میں انسان کے لئے اچھی زندگی فراہم کرنا ہے۔

دین کی خصوصیات

دین میں چند خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے دین حیات انسانی کے احیاء میں بے مثال کردار ادا کرتا ہے۔ ذیل میں دین کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے؛

1۔ حقانیت

کسی چیز کی حقانیت کا مطلب حقیقت کے مطابق ہونا ہے دوسرے الفاظ میں یوں کہا  جاسکتا ہے کہ وہ چیز حقیقت پر مبنی ہوتی ہے جو واقع کے ساتھ مطابق ہو۔ دین کی حقانیت کو چاروں علتوں کی روشنی میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ چار علتوں سے مراد علت فاعلی، علت غائی، علت صوری اور علت مادی ہے۔ دین اسلام کی چار علتوں کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس کی علت فاعلی خدا ہے جس نے دین کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی حدود کو معین کیا ہے۔ دین کی علت غائی دو بنیادی اور آخری اہداف میں تقسیم ہوتی ہے جو دنیا و آخرت کی صورت میں یکجا ہوتے ہیں۔ دین کا بنیادی ہدف لوگوں کا عدالت و انصاف کے لئے قیام ہے جبکہ اس کا آخری اور انتہائی ہدف نور الہی سے منور ہونا ہے۔ دین کی علت صوری کتاب، سنت اور عقل کی صورت میں متجلی ہوتی ہے جبکہ علت مادی یعنی دین کا مادہ اور موضوع انسان کی حقیقت ہے کیونکہ انسان کے بارے میں کئی موضوعات زیربحث آتے ہیں مثلا عقیدہ اور عمل جوکہ احکام دینی کے موضوعات میں شمار ہوتے ہیں۔ موضوع محل اور مادے کی حیثیت رکھتا ہے (بنابراین انسان کی حقیقت دین کی علت مادی ہے)۔ یہ تمام علتیں خالص حقیقت اور واقع کے مطابق ہیں اس طرح اسلام کی حقانیت ثابت ہوجاتی ہے۔ اسلامی عقائد، اخلاق اور احکام واقع اور نظام ہستی کے مطابق ہیں۔ جو بھی ہستی اور حقیقت کے مطابق اور خالق ہستی کی مخلوق ہو وہ حق اور حقیقت پر مبنی ہے اسی لئے خداوند متعال قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ[35] یعنی حق کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ[36] اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے توکہ اسے سب ادیان پر غالب کرے۔ قرآن کا یہ دعوی بے بنیاد نہیں ہے۔ انبیاء نے اپنی رسالت کو ثابت کرنے کے لئے معجزے لائے لیکن ان کی آسمانی کتابیں ان کی رسالت کی سند یا معجزہ نہیں تھیں جبکہ قرآن ایک معجزہ ہونے کے ناطے رسالت کی کتاب بھی ہے اور سچائی پر دلیل بھی ہے بنابراین اسلام کی حقانیت کی سب سے بڑی سند قرآن ہے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت پر زندہ  اور جاوید معجزہ ہے جو صدیوں سے انسانوں کو چیلنج دے رہا ہے۔ گذشتہ انبیاء کے معجزے اس زمانے کے لوگوں کے لئے تھے اور اس کے بعد ختم ہوگئے۔ آج کا معاشرہ ان معجزوں سے محروم ہے جبکہ قرآن کریم واحد آسمانی کتاب ہے جو پورے یقین اور اطمینان کے ساتھ بے مثل ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ اگر تمام انسان و جن مل کر بھی اس جیسی کتاب لانا چاہیں تو پیش نہیں کرسکتے۔ قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا[37] کہہ دو اگر سارے اسنان اور جن مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں تو ایسا نہیں لاسکتے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے مددگار کیوں نہ ہو۔ انسان اور جنات میں قرآن جیسے دس سورے لانے کی طاقت نہیں ہے۔ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ[38] کیا کہتے ہیں کہ تو نے خود قرآن بنالیا ہے، کہہ دو تم بھی ایسی دس سورتیں بنالاو۔ حتی کہ ایک سورہ بھی نہیں لاسکتے ہیں۔ وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ[39] اور اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آو۔

قرآن میں تاکید کے ساتھ چیلنج اور انسانی کی ناتوانی اس کے آسمانی ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی رسالت پر دلیل ہے۔ قرآن کے اندر اس کے معجزہ ہونے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت پر واضح دلیل موجود ہے جو ہمیشہ کے لئے انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہر روز قرآن کی صدا دوست اور دشمن کے ذریعے دنیا تک  پہنچتی ہے اور اور اپنی حقانیت کا اظہار کرتی ہے۔ تبلیغ رسالت کے آغاز سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سخت اور کینے سے بھرپور دشمنوں کا سامنا تھا جنہوں نے اس الہی دین کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دہمکیوں اور لالچ دے کر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کو باز نہ رکھ سکے تو آپ کےقتل کا منصوبہ بنایا جو اللہ کی تدبیر اور رات کو آپ کی مخفیانہ ہجرت کے نتیجے میں ناکام ہوا۔ ہجرت کے بعد آپ کو مشرکوں اور یہودیوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑنا پڑی۔ آپ کی رحلت کے بعد سے آج تک اندرونی منافقین اور بیرونی دشمن اس الہی نور کو بجھانے کے درپے اور مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر اس جیسی کوئی کتاب لانے کی توانائی ہوتی تو یقینا لاتے۔ آج دنیا کی بڑی حکومتیں اپنے ظالمانہ نظام کو برقرار رکھنے کے لئے اسلام دشمنی میں صف آراء ہیں اور علمی، مالی اور سیاسی وسائل سے استفادہ کرتی ہیں اگر قرآن جیسی ایک سطر عبارت بھی لانا ممکن ہوتا تو میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا کیونکہ اسلام کا مقابلہ کرنے کا سب سے آسان اور موثر طریقہ یہی ہے۔ ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقت کے طالب اور عاقل شخص کو یقین ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم اور بے مثال کتاب ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا؛ کوئی شخص یا گروہ کوشش کے باوجود اس جیسی کتاب لانے پر قادر نہیں۔ قرآن کے اندر ایک معجزے کی تمام خصوصیات بہ طور کامل موجود ہیں؛ مثلا فوق العادہ آسمانی کتاب ہے جس کا کوئی مثل اور نظیر نہیں بنابراین قرآن کریم پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت اور دین اسلام کی حقانیت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس کتاب کو زندہ معجزے کی شکل میں نازل کرکے اللہ تعالی نے انسانوں پر کرم کیا ہے جس کی حقانیت پر خود ہی دلیل ہے۔ اس کی دلالت کو ثابت کرنے کے لئے کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شخص کے لئے قابل فہم ہے علاوہ براین اسلام کی یہ گرانقدر آسمانی کتاب کے مطالب بے شمار خصوصیات کے حامل ہیں جن کو بیان کرنے کے لئے وسیع فرصت کی ضرورت ہے۔

2۔ وسعت و جامعیت

سب سے کامل قانون وہ ہے جس میں انسان کی فطری اور عملی پہلو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور اعتقادی پہلو پر بھی توجہ کی گئی ہو اور انسانی زندگی کے لئے ہر حوالے سے لائحہ عمل مرتب کیا گیا ہو۔[40] پس وہ قانون انسانی زندگی کے لئے شائستہ اور مناسب ہے جو جامع اور کامل ہونے کے ساتھ ساتھ سعادت و کامیابی کی راہ دکھائے تاکہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں کو منظم اور اصلی ہدف کی جانب رہنمائی کرسکے اور حقیقی سعادت تک پہنچ سکے۔ چنانچہ اس حقیقت کی طرف قرآن میں اشارہ ہوتا ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ[41] اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے۔ اس آیت میں دین اسلام کے جامع اور کامل ہونے پر تاکید کی گئی ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا[42] آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ تفسیر کے مطابق دین کامل ہونے کا مطلب سب سے ترقی یافتہ شکل میں آنا ہے جس کے بعد مزید ترقی اور نقص کی گنجائش باقی نہ رہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «و ما ترک شیئا مما تحتاج الیه الامّه و قد بَیَّنَه، فمن زعم أَنَّ اللهُ لم یُکمِل دینه فقدرد کتاب الله و من رد کتاب الله فقد کفر»[43] قرآن میں امت کے لئے ہر ضروری امر کو اللہ نے بیان کیا ہے پس کوئی گمان کرے  کہ اللہ نے اپنا دین کامل نہیں کیا تو اللہ کی کتاب کو مسترد کیا اور جو کتاب خدا کو مسترد کرے کافر ہے۔ کوئی اسلام کی وسعت اور جامعیت کے بارے میں اشکال اور شبہہ ایجاد کرسکتا ہے کہ جدید زمانے میں اجتماعی روابط میں پیچیدگی پیدا ہوئی ہے جو نئے احکام کی متقاضی ہے بنابراین گذشتہ زمانے کے احکام میں تبدیلی یا جدید پیغمبر مبعوث ہونے کی ضرورت ہے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بہت تبدیلی رونما ہوئی ہے اور اجتماعی روابط و تعلقات پیچیدہ شکل اختیار کرگئے ہیں۔ کیا یہ تبدیلیاں نئی شریعت کا تقاضا نہیں کرتی ہیں؟

جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ پہلی بات یہ کہ انسان ان تبدیلیوں کا حقیقی معنوں میں اندازہ لگانے کی توانائی نہیں رکھتا جو بنیادی قوانین میں تبدیلی کا تقاضا کریں کیونکہ انسان احکام اور قوانین کی حکمت و اسباب کا احاطہ نہیں کرسکتا بلکہ اسلام کی جامعیت اور ختم نبوت کے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے بنیادی احکام اور قوانین میں کسی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں البتہ کچھ جدید ایجادات کی وجہ سے جدید قوانین بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام میں ایسے جدید اور ذیلی قوانین بنانے کے لئے بھی اصول اور قواعد مدنظر رکھے گئے ہیں۔ ان قوانین کو وہی لوگ مقرر اور نافذ کرسکتے ہیں جن میں اس کی  اہلیت اور صلاحیت موجود ہو۔[44]

3عالمگیریت

اسلام تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قرار دیتا ہے اسی لئے مختلف قبیلوں، نسل اور رنگ سے تعلق رکھنے کے باوجود اسلام کا پیغام یکساں طور پر تمام انسانوں کے لئے ہے۔ قرآنی آیات اسلام کی عالمگیریت پر بڑی دلیل ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ[45]  یہ قرآن تو عالمین کے لئے ایک ذکر اور نصیحت ہے۔ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ[46] یہ تو صرف لوگوں کی نصیحت کا ایک ذریعہ ہے۔وَ أُوحِيَ إِلَيَّ هذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَ مَنْ بَلَغ‏[47] اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں۔ هذا بَلاغٌ لِلنَّاس‏[48] یہ (قرآن) لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے۔ یہ آیات دلیل ہیں کہ انسان ہمیشہ ہدایت الہی کا محتاج ہے جس سے کسی بھی دور اور زمانے سے محروم ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر دین کسی مخصوص زمانے یا مخصوص علاقے سے مختص ہوجائے تو انسان کی دوسری نسلیں محروم ہوجائیں گی جوکہ فلسفہ بعثت اور اللہ کی ربوبیت کے منافی ہے۔[49]

4فطری ہونا

اسلام ایک فطری دین ہے اگرچہ فطری ہونا اسلام سے مخصوص نہیں ہے۔ فطری ہونے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور عملی اصول فطرت اور انسانی طبیعت کے ساتھ مکمل ہماہنگ ہیں۔ اسلام انسان کو عدالت، آزادی، تہذیب و تعلیم، برے کاموں سے بچنے، اچھی صفات اپنانے اور وعدہ وفائی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ صفات انسان کی فطرت کے ساتھ مکمل ہماہنگ ہیں۔[50]

فطری ہونے کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ خدا شناسی اور اس کے بارے میں جستجو، بندگی کا رجحان اور عدالت طلبی و فضیلت طلبی جیسے دینی عقائد اور اخلاقی و عملی احکام انسان کی فطرت میں پیدائشی طور پر موجود ہیں اور فطری و پیدائشی طور پر ان کی شناخت اور رجحان انسان میں پایا جاتا ہے۔[51] علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں اسلام کے فطری ہونے کو ہدایت فطری کے عمومی قانون پر تطبیق کرتے ہیں جس میں انسان سمیت کائنات کی تمام مخلوقات شامل ہیں۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالی نے انسان کی سعادت اور کمال کی خواہش اور طلب کو پورا کرنے کے لئے فطری طور پر ہی انسان کے اندر خداشناسی، بندگی کا رجحان اور فضیلت طلبی جیسے رجحانات رکھے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سعادت اور کمال کا راستہ ڈھونڈ کر اس کو طے کرے۔ علامہ طباطبائی نے اس مطلب پر کئی قرآنی آیات دلیل کے طور پر پیش کی ہیں؛

الف۔ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتىِ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيها لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَالِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لَكِنَّ أَكْثرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ[52] پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں، اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، (یعنی) اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ عربی زبان کے قانون کے مطابق الدین میں الف لام عہد کے لئے ہیں اور مخصوص دین کی طرف اشارہ ہے چنانچہ دوسری آیت میں اسلام کو اس کا مصداق قرار دیا گیا ہے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلام‏[53] اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ ان دونوں آیات سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اسلام ایسا ہے کہ جس کو خداوند عالم نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ تبدیل اور تغییر نہیں ہوتا۔

ب۔ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا[54] اور نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا، پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔[55] یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسانی روح کو نفس کی آلودگی کا باعث بننے والے گناہوں اور طہارت و پاکیزگی کا سبب بننے والی صفات سے پہلے سے ہی آگاہ کردیا ہے۔ فطری ہونے کی دوسری تفسیر یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ ہدایت فطری ایک لحاظ سے ہدایت تکوینی ہے جو انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے مخصوصا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ شریعت کا نظام خلقت کے نظام سے پوری طرح ہماہنگ ہوتا ہے۔[56] یہ بات قابل غور ہے کہ فطری ہونے کی دونوں تفسیروں کو جمع بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ پہلی تفسیر میں تشریع کا مرحلہ جبکہ دوسری تفسیر میں تکوین اور خلقت کو مدنظر رکھا گیا ہے ان دونوں کے درمیان تلازم پایا جاتا ہے بنابراین دونوں تفاسیر قابل قبول ہیں۔ قرآن کریم متعدد اور متفرق ادیان کے بجائے ایک دین کا قائل ہے۔ چونکہ دین داری کا مطلب پرودگار کے حضور خضوع اور سرتسلیم خم کرنا ہے بنابراین دین واحد کے طور پر اسلام کا نام لیا گیا ہے إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ[57] اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ قرآن کے مطابق آسمانی ادیان کے درمیان اختلاف جزئی اور ذیلی احکام میں شمار ہوتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا[58] ہم نے تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ایک دستور اور طرز عمل اختیار کیا ہے۔ اسی طرح سورہ روم کی آیت 30 میں دین داری کو انسان کی فطری اور دل کی گہرائی سے پیدا ہونے والی شیئ قرار دیا گیا ہے۔ ان آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فطری ہونے کی خصوصیت دین اسلام میں منحصر نہیں بلکہ گذشتہ ادیان میں بھی یہ صفت عمومی طور پر پائی جاتی تھی۔ دوسری بات یہ کہ انسانی فطرت کے اندر دین کے فرعی اور جزئی احکام نہیں بلکہ اصول اور کلی احکام کا ریشہ موجود ہے۔

5ابدیت و جاودانگی

چنانچہ اسلام ایک عالمی اور فطری دین ہے فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتىِ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيها لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَالِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لَاكِنَّ أَكْثرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ[59] پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں، اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، (یعنی) اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اسلام کی حقانیت اور ہمہ گیری تمام زمانوں اور پوری دنیا کے لئے ہے بنابراین زمانے کے گزرنے سے اس میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی ہے۔

درس کا خلاصہ

1۔ اس بحث میں کا مقصد دین کے قلمرو کو واضح کرنا ہے ۔  دینی حدود کا تعین اللہ کا کام ہے دین کے لئے حدود معین نہ کیا جائے۔ دین سے وابستہ انسانی توقعات کے بارے میں بحث کرنے والوں کی اکثریت اس کے برعکس دین کے لئے حدود معین کرنا چاہتی ہےیا دوسرے الفاظ میں دین کی اجتماعی حیثیت کو کم کرنا ان کا مقصد ہے۔

2۔ دین اور سیاست کے باہمی تعلق کی نوعیت کے بارے میں تحقیق اور دونوں نظریات کا تجزیہ کرنے سے پہلے اس موضوع کی تاریخ اور بنیادوں کے بارے میں چھان بین کرنا چاہئے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ دین اور سیاست کی صحیح تعریف کی جائے۔

3۔ دین اور سیاست کی جدائی کی تاریخ یورپ میں قرون وسطی کے بعد علوم و فنون کی نشاہ ثانیہ کے دور میں ملتی ہے۔  ایک طرف کلیسا کے استبداد کے ساتھ ساتھ  مسیحیت کے غیر معقول اور مبہم مفاہیم  اور دوسری طرف انجیل کی تعلیمات کا عقل اور علم سے تضاد اور تیسری جانب متوسط طبقے کی تشکیل دین اور تجدد کے درمیان اختلاف کا باعث بنا جو سرانجام علم اوردین، عقل اور دین اور سیاست اور دین کے درمیان جدائی پر منتج ہوا۔

4۔ عالم اسلام میں دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ تین گروہوں کی جانب سے پیش کیا گیا؛ پہلا اسلام کے ابتدائی دور میں حکومت پر قابض ظالم طبقہ، دوسرا بیرونی استعمار کے عناصر اور تیسرا بیمار ذہنیت کے حامل نام نہاد روشن خیال طبقہ۔

5۔ سیاست لغت میں حکومت، سرپرستی، تربیت و پرورش، انتظام و انصرام، تدبیر، عدالت اور حفاظت کرنے کو کہا  جاتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ سیاست کا اصلی لغوی معنی پرورش ہے اور باقی معانی اس کے لوازم ہیں۔

6۔ اسلام کتابوں اور منابع میں سیاست کو تربیت، پرورش، سرپرستی اور قیادت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

7۔ علم سیاسیات میں سیاست کی چار  تعریفیں کی گئی ہیں؛

الف۔ طاقت کا حصول اور اس کی حفاظت

ب۔ حکومت کا مطالعہ

ج۔ مدیریت اور بحران کے دوران فیصلہ سازی

د۔ ہدایت، عدالت اور انصاف پر مبنی تدبیر

8۔ علامہ محمد تقی جعفری نے سیاست کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے؛

الف۔ شیطانی سیاست: اس طرز کی سیاست میں  معاشرے کو چلانے کے لئے دھوکہ بازی، فریب اور جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔

ب۔ حیوانی سیاست: اس طرز سیاست میں  حکومت معاشرے کی مادی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دیتی ہے۔

ج۔ اسلامی سیاست: اسلامی طرز سیاست میں انسان کی حیوانی و مادی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی اور معنوی اقدار کے حصول کے لئے اعلی انسانی صلاحیتوں کو نکھارنے پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔

9۔ دین کی تعریف کرنے سے پہلے اس کا قلمرو اور دائرہ اختیار مشخص  کرنے کی ضرورت ہے۔

10۔ دین کا قلمرو اس وقت مشخص ہوگا جب اس کے اہداف اور خصوصیات سے آشنا ہوجائیں جو حقانیت، جامعیت  و عالمگیریت، جاودانی اور اس کا فطری ہونا ہے۔

11۔ دین کی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی یوں تعریف کی جاسکتی ہے کہ دین عقائد، انفرادی و اجتماعی احکام اور اخلاق پر مشتمل معارف کے مجموعے کا نام ہے جس کا منبع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ہونے والی وحی ہے اور انسانی فطرت اور عقلی بنیادوں سے ہماہنگ اقدار ، اصول اور اعتقادات کو شامل کرتا ہے۔ان معارف کو لوگوں تک پہنچانے ،تعلیم و تفسیر اور نافذ کرنے کی ذمہ داری آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاندھوں پر تھی۔ قرآن کریم، سنت، عقل اور اجماع دین اسلام کے منابع میں شمار ہوتے ہیں جس کا آخری ہدف انسان کو کمال تک پہنچانا اور دنیا و آخرت میں سعادت کی فراہمی ہے۔ اس کا درمیانی ہدف  دنیا میں عدالت و انصاف قائم کرنے کے علاوہ مادی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔

درس کے سوالات:

1۔ دین اور سیاست کی تعریف کریں، کیا مغربی لکھاریوں کے ذوق تحریر اور نظریات کے مطابق دین کی تعریف کرنا صحیح ہے؟ کیوں؟

2۔ دین کی خصوصیات کیا ہیں؟

[1] ۔مجله اندیشه صادق، شماره 6و7، عباسی، ولی الله.

[2]۔  العین، واژه «سوس»، ج 7، ص 336، لسان العرب، واژه «سوس»، ج 6، ص 108، لغت نامه دهخدا، مرآة العقول، ج 3، ص 150.

[3]۔  على اکبر دهخدا، لغت نامه، و ابن منظور، لسان العرب و قاموس اللغه.

[4]۔  اسماعیل دارابکلائى، نگرشى بر فلسفه سیاسى اسلام (قم: بوستان کتاب، 1380) ص 15.

[5]  ۔الطریحى، مجمع البحرین، ماده ساس.

[6]  ۔محمد بن یعقوب کلینى، اصول کافى، ج 1، ص 226.

[7]  ۔همان، ص 202.

[8]  ۔کلینى، پیشین، ج 1، ص 226.

[9]۔  همان، ص 28.

[10]  ۔محمد محمدى رى‏شهرى، میزان الحکمه، ج 4، ص 584.

[11]  ۔عبدالواحد تمیمى آمدى، غررالحکم و دررالکلم، ج 3، ص 384.

[12]  ۔بقرہ/257

[13]  ۔انبیاء/73

[14]  ۔قصص/41

[15]  ص/26

[16]  توماس اسپریگنز، فهم نظریه‏هاى سیاسى، ترجمه فرهنگ رجایى (تهران: انتشارات آگاه، 1365)، ص 10.

[17]  موریس دو ورژه، اصول علم سیاست، ترجمه ابوالفضل قاضى (تهران: شرکت سهامى کتابهاى جیبى، 1349) ص 8.

[18]۔  فیودور بورلاسنکی، قدرت سیاسی، ماشین دولتی، ترجمه رهسپر، (تهران، نشر آموزگار، 1360)، ص 15.

[19]  ۔برتراند راسل، قدرت، ترجمه تجف دریابندری، (تهران، خوارزمی، 1361)، ص 217.

[20]  ۔رابرت دال، پیشین، ص 6.

[21]  ۔علی اصغر حلبی، مبانی اندیشه های سیاسی در ایران و جهان اسلام (تهران، زوار، 1382)، ص 11.

[22]  ۔ابوالقاسم طاهری، اصول علم سیاست (تهران، پیام نور، 1374)، ص 10.

[23] ۔همان، ص 11.

[24] ۔احمد بخشایشی اردستانی، اصول علم سیاست (تهران، آوای نور، 1376)، ص 20

[25] : آندرسن و دیگران، آشنایی با علم سیاست، ترجمه بهرام ملکوتی، ص 30

[26] : هارولد، پلاسکی، مقدمه ای بر سیاست، ترجمه منوچهر صفا (تهران، شرکت سهامی کتابهای جیبی، 1347)

[27] : مک آیور، پیشین، ص 29

[28] : میرزا ملکم خان، مجموعه آثار، (تهران، کتابخانه دانش، 1327) ص 127

[29] : موریس دو ورژه، اصول علم سیاست، پیشین، ص 8.

[30] : سورہ انعام، آیت نمبر153۔

[31] : سورہ حمد، آیت نمبر6۔7۔

[32] : سورہ مائدہ، آیت نمبر15۔16۔

[33] انفال/24

[34] نحل/97

[35] آل عمران/60

[36] توبہ/33

[37]  اسراء/88

[38]  ہود/13

[39]بقرہ/23

[40] جوادی آملی، ولایت فقیه، ص 52،

[41] نحل/89

[42] مائدہ/3

[43]. حسن بن علی وانی، تحف العقول، ص 461، مبانی حکومت اسلامی، حسین جوان آراسته.

[44] آیت الله مصباح یزدی، آموزش عقاید، ص 234و235

[45] یوسف/104

[46] مدثر/31

[47] انعام/19

[48] ابراھیم/52

[49] شریعت در آینه معرفت، جوادی آملی، ص 214-227- محمدتقی مصباح یزدی، آموزش عقاید، جلد 2، ص 113-126.

[50] سبحانی، جعفر، مفاهیم القرآن، ج۳، ص۵۴-۵۵

[51] . طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان، ج۱۶، ص۱۹۳وطباطبایی، سیدمحمدحسین، قرآن در اسلام، ص۷-۸ وجوادی آملی، عبدالله، فطرت در قرآن، ص۷۴و مطهری، مرتضی، فطرت، ص۲۴۴- ۲۴۲

[52] روم/30

[53] آل عمران/19

[54] شمس/7۔8

[55] طباطبایی، سیدمحمد حسین، المیزان، ج 16، ص 193_189. طباطبایی، سیدمحمدحسین، قران در اسلام، ص۹-۴

[56] طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان، ج۱۶، ص۱۹۳.جوادی آملی، عبدالله، فطرت در قرآن، ص۲۱۱.

[57] آل عمران/19

[58] مائدہ/48

[59] روم/30

(بازدید 11 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *