اعتکاف کے احکام

اعتکاف کے احکام

مسئلہ (۱۷۱۹)اعتکاف مستحب عبادتوں میں ہے جو نذر عہد اور قسم وغیرہ کی بناء پر واجب ہوجاتا ہے اور شرعاً یہ اعتکاف یہ ہے کہ کوئی شخص قصد قربت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ عبادت کےاعمال جیسے نماز اور دعا کے انجام دینے کی نیت سے قیام کرے۔

مسئلہ (۱۷۲۰)اعتکاف کےلئے کوئی معین وقت نہیں ہے پورے سال کے اس زمانےمیں جب روزہ صحیح ہوں تو اعتکاف بھی صحیح ہے اوراس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان ہے اور سب سے زیادہ فضیلت ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں ہے۔

مسئلہ (۱۷۲۱)اعتکاف کا سب سے کم وقت درمیانی دوشب کے اضافے کے ساتھ تین دن ہے اور اس سے کم صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ کےلئے کوئی حد نہیں ہے اور پہلی شب اور چوتھی شب کو اعتکاف کی نیت میں شامل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے اس بناء پر اعتکاف تین دن سے زیادہ جائزہے اور اگر کوئی شخص پانچ دن مکمل اعتکاف کررہا ہو تو چھٹے دن ضروری ہے کہ اعتکاف کرے۔

مسئلہ (۱۷۲۲)اعتکاف کے وقت کا آغاز پہلے دن کی اذان صبح سے ہوتا ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر اس کا اختتام تیسرے دن کی اذان مغرب پر ہوتا ہے اور اعتکاف کے محقق ہونے میں اگر الگ الگ تین دنوں کو جمع کرکے انجام دیا جائے تو کافی نہیں ہے یعنی کوئی شخص پہلے دن کی اذان صبح کے بعد سےاعتکاف شروع کرے اور اس کمی کو چوتھے دن میں کچھ اضافہ کرکے پورا کرنا چاہے جیسے پہلے دن کی اذان ظہر سے شروع کرے چوتھے دن کی اذان ظہر تک مسجد میں ٹھہرے (تو اس صورت میں اعتکاف کافی نہیں ہے)۔

اعتکاف میں معتبر امور

مسئلہ (۱۷۲۳)اعتکاف میں کچھ امور معتبر ہیں :

(۱:)اعتکاف کرنے والا مسلمان ہو۔

(۲:) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو۔

(۳:) اعتکاف قصد قربت سے انجام دیا جائے۔

مسئلہ (۱۷۲۴)اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ اس طرح قصد قربت اختیار کرے جس طرح وضو میں گزراہے اور شروع سےلےکر آخر تک اعتکاف کو معتبر خلوص کی رعایت کے ساتھ قصد قربت سے انجام دے۔

(۴:)اعتکاف کی مدت کم سے کم تین دن ہے

مسئلہ (۱۷۲۵)اعتکاف کی مدت کم سےکم تین دن ہے ،تین دن سے کم اعتکاف صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ مقدار کی کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ مسئلہ (۱۷۲۱ )میں گزرا ہے۔

(۵:)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے۔

مسئلہ (۱۷۲۶)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے اس بنا پر جو شخص روزہ نہیں رکھ سکتا جیسے وہ مسافر جو دس دن کے قیام کا ارادہ نہیں رکھتا اور مریض، حائض اور نفساء عورت تو ان لوگوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے اور اعتکاف کے دنوں میں لازم نہیں ہے کہ اعتکاف سے مخصوص روزہ رکھاجائے بلکہ ہر طرح کا روزہ صحیح ہے یہاں تک کہ اجارہ کا روزہ ،مستحبی روزہ اور قضا روزہ بھی کافی ہے۔

مسئلہ (۱۷۲۷)جس زمانے میں اعتکاف کرنے والا روزہ سے ہے یعنی ہر روز اذان صبح سے مغرب تک ہر وہ کام جو روزہ کو باطل کرتا ہے، اعتکاف کے باطل ہوجانے کا سبب بنتا ہے اس بناء پر اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ روزہ کے دوران عمداً روزہ کے مبطلات کے انجام دینے سے پرہیز کرے۔

(۶:)اعتکاف چار مسجدوں یا جامع مسجد میں ہو۔

مسئلہ (۱۷۲۸)اعتکاف مسجد الحرام یا مسجد نبوی یا مسجد کوفہ یا مسجد بصرہ میں صحیح ہے اس طرح اعتکاف ہر شہر کی جامع مسجد میں صحیح ہوگا سوائے یہ کہ اس مسجد کا امام غیر عادل ہو ایسی صورت میں ( احتیاط لازم کی بنا پر) اعتکاف صحیح نہیں ہوگا ۔ جامع مسجد سے مراد وہ مسجد ہے جو کسی محلہ یا خاص علاقے یا مخصوص گروہ سے تعلق نہ رکھتی ہو اور اسی علاقے کے لوگوں اور شہر کے مختلف علاقے کے رہنے والوں کے جمع ہونے اور رفت وآمد کی جگہ ہو۔ اور جامع مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں اعتکاف کی شرعی حیثیت ثابت نہیں ہے لیکن احتمال مطلوب کےاعتبار سے بجالانے میں اشکال نہیں ہے لیکن اس جگہ اعتکاف جو مسجد نہیں ہے مثلاً امام بارگاہ ہو یا صرف نماز خانہ ہو، صحیح نہیں ہے اورجائز بھی نہیں ہے۔

(۷:)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے۔

مسئلہ (۱۷۲۹)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے اس بنا ء پر ایک اعتکاف کو دو مسجدوں میں انجام نہیں دیا جاسکتا ہے چاہے ایک دوسرے سے جدا ہوں یا ایک دوسرے سے متصل ہوں سوائےیہ کہ اس طرح سے متصل ہوں کہ عرف میں ایک مسجد سمجھی جاتی ہو (تو اعتکاف صحیح ہے)

(۸:) اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے۔

مسئلہ (۱۷۳۰)اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے اس بناء پر اس زمانے میں کہ عورت کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہو مثلاً عورت اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نکلی ہو تو اعتکاف باطل ہے او رایسی صورت میں جب مسجد میں رکنا حرام نہ ہولیکن شوہر کے حق سےاعتکاف ٹکراتا ہوتو اس کے اعتکاف کاصحیح ہونا ایسی صورت میں جب کہ شوہر کی اجازت کے بغیر ہو ،محل اشکال ہے۔ اسی طرح سے ایسی صورت میں جب کہ اعتکاف والدین کےلئے ایذاء اور تکلیف کا سبب ہو اور یہ اذیت ان کی شفقت اور قلبی لگاؤ کی وجہ سےہو تو اولاد کا ان سے اجازت لینا لازمی ہے اگر اذیت کا سبب نہ ہوتو احتیاط مستحب یہ ہےکہ ان سے اجازت لے۔

(۹)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے محرمات کو انجام نہ دے۔

مسئلہ (۱۷۳۱)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی حالت میں ان محرمات اعتکاف سے پرہیز کرے جومندرجہ ذیل ہیں اور ان کا انجام دینا اعتکاف کو باطل کردے گا لیکن ان سب سے پرہیز کا واجب ہونا اس اعتکاف میں جو واجب معین نہیں ہے جماع کے علاوہ بقیہ صورتوں میں احتیاط کی بناء پر ہے:

(۱:) خوشبو سونگھنا ۔

(۲:) بیوی سے ہمبستری کرنا۔

(۳:) استمناء اور شہوت کے ساتھ بدن کا مس کرنا اور بوسہ لینا (احتیاط واجب کی بناء پر) ۔

(۴:) بحث ونزاع کرنا۔

(۵:) خریدوفروخت کرنا۔

(بازدید 15 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *