امام غایب کے فایدے

امام غایب کے فایدے

غیبت امام کے معنی عدم ظهور ہے نہ عدم حضور۔ امام ظاہر ہو یا غائب آپ کے وجود سے ہم بہرہ مند ہورہے ہیں۔ ہم یہاں پر چند فواید کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کرتے ہیں۔
1۔وجود رهبر موجب بقای مکتب
تجربہ نے ثابت کردیا ہے کہ امام کے وجود کا اعتقاد رکھنا طول تاریخ میں مکبت اہل بیت ؑ کی سیاسی اور اجتماعی حیات پر عمیق اثر گزار دیا ہے۔ عام طور پر کسی بھی معاشرے میں کسی تنظیم یا پارٹی کی بقا اور اس کے وجود کے لئے اس کا لیڈر اور رہبر کا بڑا کردار کیا ہے۔ ممکن ہے وہ لیڈر بیمار ہو یا ملک میں نہ ہو کسی اور ملک میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہو پھر بھی وہ اس تنظیم کے اعضا کے لئے مایہ آرامش اور اطمئنان کا باعث ہے۔ اسی طرح امام عصر کی زندگی بھی ہے۔ جنگ احد میں جب یہ افواہ پھیلی کا رسول خدا شہید ہوچکے ہیں تو سب بھاگ گئے اور جب مطمئن ہوگئے کہ آپ زندہ ہے تو پراکندہ قدرتیں دوبارہ جمع ہونے لگی اور شکست فتح میں تبدیل ہوگئی۔ 
” وَ ما مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرينَ؛ اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤںپھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔ (آلعمران/144) 
2۔ امام حجت آشکار خدا
امام علی ؑ نے دو قسم کی حجت کی اشارہ کیا ہے:” اللَّهُمَّ إِنَّكَ لَا تُخْلِي الْأَرْضَ مِنْ حُجَّةٍ لَكَ عَلَى خَلْقِكَ ظَاهِرٍ أَوْ خافٍ مَغْمُورٍ لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَّتُكَ وَ بَيِّنَاتُكَ؛ اے پروردگارا! تو نے زمین کو مخلوق کے لئےاپنی حجت سے خالی نہیں رکھا چاہے وہ ظاہر ہو یا غایب تاکہ تیری حجت اور بیّنات باطل نہ ہوجائے۔”(محمد بن يعقوب كلينى الكافي( ط- الإسلامية)،ج1،ص343۔)
“حجت خائف و مغمور” سے مراد امام معصوم ہے جو شرائط مہیا نہ ہونے کی وجہ سے غیبت کے پردے میں ہے۔ 
جیساکہ بیان ہوا کہ امام غایب سے مراد ظاہر نہ ہونا ہے نہ حاضر نہ ہونا اس کا مطلب ہے امام ہمارے درمیان ہے لیکن ہم انہیں نہیں پہچانتے ہیں۔ لیکن وہ ہماری ہدایت فرمارہے ہیں جیساکہ سابقہ انبیاء میں سے بہت سے اس قسم کے نمونے موجود ہیں:
الف) حضرت خضر معلم موسی ٰ۔ ؛
ب) پیغمبر اسلامﷺآغاز رسالت کے تین سال فردسازی میں مشغول رہے؛
ج) حضرت موسیؑ چالیس دن تک اپنی قوم سے غائب رہے؛
د) حضرت یونسؑ مچھلی کے شکم میں ایک مدت تک غائب رہے۔
3۔ امام غائب بادل کے پیچھے سورج کی طرح 
معصومین ؑ کی روایات کے مطابق عصر غیبت میں امام سے استفادہ کا وہی طریقہ ہے جو ہم سورج سے بادل کے پیچھے سے کرتے ہیں۔ 
جابربن عبدالله انصاری، نے رسول خدا ﷺ سے سوال کیا غیبت کے زمانے میں شیعہ امام سے کس طرح استفادہ کرسکتے ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا:مجھے قسم ہے اس پروردگاری کی جس نے مجھے نبی بنادیا! ان کی نور ولایت اسی طرح استفادہ کیا جائے گا جس طرح سورج سے استفادہ کیا جاتا ہے جبکہ وہ بادل کے پیچھے ہو۔” 
امام صادق ؑ سے جب سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:” كَمَا يَنْتَفِعُونَ بِالشَّمْسِ إِذَا سَتَرَهَا السَّحَابُ، امام سے اسی طرح استفادہ کیا جائے گا جس طرح سورج جب بادل کے پیچھے غائب ہو تو استفادہ کیا جاتا ہے۔ (ابن محمد بن على بابويه، الأمالي (للصدوق)، 1جلد، كتابچى – تهران، چاپ: ششم، 1376ش، ص86۔)
ایک توقیع میں امام زمان ؑ خود جو اسحاق بن یعقوب کے نام لکھا تھا، لکھتے ہیں:”وَ أَمَّا وَجْهُ الِانْتِفَاعِ بِي فِي غَيْبَتِي فَكَالانْتِفَاعِ بِالشَّمْسِ إِذَا غَيَّبَتْهَا عَنِ الْأَبْصَارِ السَّحَابُ؛ اور میری غیبت کے زمانے میں میں مجھ سے نفع لینے کا طریقہ وہی طریقہ ہے جب سورج بال کے پیچھے غائب ہو تو اس سے نفع لیا جاتا ہے۔”(كمال الدين و تمام النعمة / ج2 / 485 / 45 )
4۔ امام غائب کو سورج کے ساتھ تشبیہ دینے کا فلسفہ
آیۃ اللہ جوادی آملی نے امام کو سورج کے ساتھ تشبیہ دینے کی مختلف وجاہات بیان کی ہے:
1۔ سورج منظومه شمسی کا مرکز ہے ساری سیارے اور کرات اسی کے ارد گرد چکر کاٹتی ہیں۔ اسی طرح امام زمان نظام یستی کا مرکز ہے:” بِبَقَائِهِ بَقِيَتِ الدُّنْيَا وَ بِيُمْنِهِ رُزِقَ الْوَرَى وَ بِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الْأَرْضُ وَ السَّمَاءُ؛ ان کے وجود سے دنیا باقی ہے ان کی مہربانی سے ہی مخلوق رزق سے بہرہ مند ہورہے ہیں اور انہی کے وجود سے ہی زمین اور آسمان برقرار ہیں۔” (محمد باقر بن محمد تقىمجلسى، زاد المعاد، ص343) 
2۔ سورج کے بہت سے منافع ہیں اسی طرح امام کے بھی بہت سے فواید ہیں۔ 
3۔ بادل کبھی سورج کو نہیں چھپاتا ہے بلکہ سورج ہمیں چھپا رہا ہے جس کے نتیجے میں ہم سورج کو نہیں دیکھ سکتے ہیں اسی طرح غیب حضرت کے لئے حائل نہیں ہے بلکہ ہم ان کی نسبت غیب میں ہیں۔
4۔ بادل کا چھپانا ان لوگوں کی نسبت ہے جو زمین پر ہیں اور مادیات میں مگن ہیں۔ اگر کوئی بادل کے اوپر پرواز کرجائے تو اس کی نسبت سورج غائب نہیں ہے اسی طرح امام ان لوگوں کے لئے غائب ہے جو شہوات پرستی میں غرق ہے اما وہ لوگ جو شہوات اور غبار آلود دنیا پر اپنا پیر رکھے اور آسمان عبودیت پر پرواز کرے تو ان کی نسبت امام غائب نہیں ہے۔ 
5۔جس طرح سورج اپنا نور افشانی کرنے سے ایک لحظہ کوتاہی نہیں کرتا ہے جس جس کا سورج سے جتنا ارتباط ہوگا اسی حساب سے بہرہ مند ہوگا۔ اسی طرح امام عصر وسیلہ فیض الهی ہے اس لحاظ سے کسی میں فرق نہیں کرتا لیکن جتنا ان کے ساتھ ارتباط برقرار کرے گا اسی اندازے سے مستفیض ہوگا۔
6۔ اگر سورج بادل کے پیچھے بھی نہ ہوں تو گرمی اور سردی کی شدت سے زمیں سکونت کے قابل نہیں رہے گی اسی طرح امام پس پرده غیبت میں نہ ہو تو دشمنوں کے شر سے شیعہ محفوظ نہیں رہے گا۔ جیساکہ آن حضرت نے اپنے ایک توقیع مبارک مین شیخ مفید(ره) کو لکھا تھا:”ہم تمہارے حالات سے با خبر ہیں ای لحظہ کے سهل انگاری نہیں کرتے ہیں تمہیں ہرگز فراموش نہیں کرتے ہیںو الا بہت سی مچکلات تم لوگوں آپڑتی اور دشمنان تمہیں نابود کرلیتے۔ 
7۔ یہ صحیح ہے کہ امام کے حضور و ظهور سے دشمن نابود ہوگاجس طرح سورج بغیر بادل اور ڈائیرک کسی جگہ پر پڑے تو جراثیم کے نابود ہونے اور فقہی لحاظ سے بعض نجس چیزوں کے پاک ہونے کا سبب ہے۔ لیکن نظام خلقت میں امام کا وجود مغناطیس کی طرح ہے کہ نا مرئی ہونے کے باوجود تمام نظام کی حرکت اور استحکام کا سبب ہےاور ان کی برکت ہی سے لاکھوں اور کڑووں انسان اپنے مسیر کو طے کرلیتے ہیں اور مقصد تک پہنچ سکتے ہیں۔ 
5۔ امام اهل زمین کے لئے باعث آرام 
امام حاضر ہو یا غائب ان کا ایک اہم فایدہ اہل زمین کے لئے باعث آرام اور اطمئنان ہے۔ جیسے کہ امام سجاد کے فرمان میں آیا ہے:” نَحْنُ أَمَانُ أَهْلِ الْأَرْضِ كَمَا أَنَّ النُّجُومَ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ وَ نَحْنُ الَّذِينَ بِنَا يُمْسِكُ اللَّهُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِيدَ بِأَهْلِهَا؛ ہم اہل زمین کے لئے باعث امان ہے جس طرح ستارے آسمانوں کے لئے باعث آرام اور سکون ہے۔” (ابن محمد بن على بابويه، الأمالي (للصدوق)، 1جلد، كتابچى – تهران، چاپ: ششم، 1376ش، ص86۔)
امام عصر میں اسحاق بن یعقوب کے نام جو توقیع لکھا اس میں آیا ہے:”وَ إِنِّي لَأَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ كَمَا أَنَّ النُّجُومَ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ ؛ میں اہل ارض کے لئے اسی طرح باؑث امان ہے جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں۔ (كمال الدين و تمام النعمة / ج2 / 485 / 45 )
6۔ امام باعث نزول برکات الٰہی
روایات میں امام کے وجود کے فواید میں سے ایک فایدہ کو نزول برکات الٰہی شمار کیا ہے۔ 
” بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ بِنَا يَنْشُرُ الرَّحْمَةَ وَ يُخْرِجُ بَرَكَاتِ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِي الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا؛ ہماری وجہ سے بارشیں نازل ہوتی ہے ، رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور زمین کی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ (ایضا)
“وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَ لكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعالَمينَ (بقرہ/251) اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اہل عالم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔” اس آیت کے ذیل میں امام صادقؑ سے نقل ہے کہ خدا وند شیعہ نماز گچاروں کی برکت سے جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ان سے عذاب کو دور رکھا ہوا ہے اگر سارے شیعہ نماچ کو ترک کریں تو عذاب الٰہی سے ہلاک ہوں گے۔ جب بعض مؤمنین کی برکت سے عذاب نازل نہیں ہوتا ہے تو وجود امام زمان بطریق اولیٰ باعث نزول برکات اور عذاب سے بچنے کا سبب ہے۔ 
سورہ اعراف کی یہ آیت بھی اس مطلب کی مؤید ہے:” وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِ وَ لكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْناهُمْ بِما كانُوا يَكْسِبُونَ؛ (اعراف/96) اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔”
7۔ زمین حجت خدا سے خالی نہیں
امام کے وجود کا اہم ترین سبب زمین کا حجت خدا سے خالی نہ ہونا ہے یہ سنت الٰہی ہے زمین پر اپنی ایک حضت کو برقرا رکھتا ہے۔ امام سجاد نے فرمایا:” وَ لَمْ تخلو [تَخْلُ] الْأَرْضُ مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مِنْ حُجَّةِ اللَّهِ فِيهَا ظَاهِرٌ مَشْهُورٌ أَوْ غَائِبٌ مَسْتُورٌ وَ لَا تَخْلُو إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ فِيهَا وَ لَوْ لَا ذَلِكَ لَمْ يُعْبَدِ اللَّهُ؛ جناب آدم سے لیکر اب تک زمین حجت الٰہی سے خالی نہیں ہے یہ حجت یا ظاہر اور مشہور ہے یا غائب اور مخفی ہے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے۔ “(ابن محمد بن على بابويه، الأمالي (للصدوق)، 1جلد، كتابچى – تهران، چاپ: ششم، 1376ش، ص86۔)
8۔ امام کا وجود باعث امید
امام عصر کا اعتقاد رکھنا ہی باعث امید اور سبب نجات ہے۔ کیونکہ اگر کوئی سخت مشکل میں گرفتار ہو یا کوئی سخت بیماری میں مبتلا ہو اور اسے یہ امید ہو کہ مجھے بچانے والا اور نجات دینے والا کوئی ہے تو وہ کبھی اپنی زندگی سے مایوس نہیں ہو اس کے برعکس اسے کسی نجات دہندہ کی امید نہ ہو تو وہ زندگی سے مایوس ہوگا اور نجات کی تمام راہیں اس کے سامنے بند نظر آئے گی۔ جیساکہ کہا جاتا ہے مسیحیوں کا ایک گروہ مختلف ممالک میں تبلیغ سے واپس آنے کے بعد ہر ایک نے اپنے کامیابوں اور ناکامیوں کی داستان اور رویداد سنانے لگے تو ان میں سے ایک نے کہا جس ملک اور شہر میں میں تبلیغ کے لئے گیا وہاں پر میں نے دو چیزیں دیکھی ان دو کاموں کے ہوتے ہوئے مجھے نہیں لگتا کہ مسیحیت وہان پر کامیاب ہوجائے۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ دو چیزیں کیا ہیں تو اس نے کہا کہ وہاں کے رہنے والے سرخ شہادت اور سبز مہدویت پر یقین رکھتے ہیں جب تک یہ دو عقیدے ان لوگوں میں موجود ہوں ہم ہرگز انہیں شکست نہیں دے سکیں گے!
9۔ شیعوں کی نجات اور تحفظ 
امام عصر کا وجود اور اپ کی دعائیں ہمارے لئے باعث نجات اور تحفظ ہے۔ جیساکہ آپ خود اپنے ایک توقیع میں فرماتے ہیں:”إِنَّا غَيْرُ مُهْمَلِينَ لِمُرَاعَاتِكُمْ وَ لَا نَاسِينَ لِذِكْرِكُمْ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ لَنَزَلَ بِكُمُ اللَّأْوَاءُ وَ اصْطَلَمَكُمُ الْأَعْدَاء؛ہم تم لوگوں کی سرپرستی سے غافل نہیں ہیں اور نہ تمہیں بھولادیا ہیں اگر ایسا ہوتا تو تم پر بلائیں نازل ہوتے اور دشمن تمہیں نابود کردیتے۔”(محمد بن الحسنطوسى، تهذيب الأحكام،ج1/ص138)
10۔واسطہ فیض
امام زمان کے وجود مبارک کا ایک اہم فایدہ ،خواہ آپ حاضر ہو یا غایب واسطہ فیض ہونا ہے۔

(بازدید 6 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *