ولادت باسعادت امام حسن مجتبی علیہ السلام اور محبت اھلبیت علیھم السلام

ولادت باسعادت امام حسن مجتبی علیہ السلام اور محبت اھلبیت علیھم السلام

تحریر:فداعلی سحر

إنّ حُبَّنا لَيُساقِطُ الذُّنُوبَ مِنْ بَنى آدَم، كَما يُساقِطُ الرّيحُ الْوَرَقَ مِنَ الشَّجَرِ.
امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہے
بے شک ہماری محبت بنی آدم سے گناہوں کو اسی طرح گرادیتی ہے جس طرح ہوا کا جھونکا درخت سے (سوکھے )پتوں کو گرادیتی ہے
بحار الانوار؛ج۴۴، ص۲۳، ح۷۔

شجرہ
اسم مبارک حسن علیہ السلام
والد کا نام علی ابن ابی طالب ع
والدہ کا نام فاطمة الزھرا س
ولادت
امام علی علیہ السلام و فاطمہ الزھرا کا لخت جگر حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت باسعادت پندرہ رمضان المبارک سال تین3ھجری کو مدینہ منورہ مین ہوٸی ۔

یَخۡرُجُ مِنۡہُمَا اللُّؤۡلُؤُ وَ الۡمَرۡجَانُ
ان دونوں سمندروں سے موتی اور مونگا نکلتے ہیں
سورہ رحمن آیت ٢٢
امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت زھرا س کے پہلی پھول اس ایت کا مصداق بن کر متولد ہوتے ہیں تو بیت علی و حضرت زھرا میں خوشیوں کا سماں چھا جاتی ہے
رسوم دنیا کے تحت جب کسی کے ہاِ کوئی فرزند کا متولد ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا نام انتخاب کرتے ہیں تاکہ وہ نام اس نومولود پر اپنا اثر چھوڑے اسی لیے روایات میں ایا ہے کہ بچے کا اچھا نام انتخاب کرنا والدین پر فرض ہے اور بچے کا حق ہے تو امام مجتبی علیہ سلام کیلیے بھی یہ رسم ادا کرتے ہوے نام گزاری کا مرحلہ انجام پایا
نام گزاری فرزند بتول
جناب فاطمہ زھرا س نے اپنی اس نور چشم کے نام کے متعلق حضرت علی ع کی طرف دیکھتے ہوے فرماتی ہے یا علی کیا آپ نے اس بچہ کیلے کوٸی نام انتخاب کیا ہے اس وقت مولا علی ع فرماتے ہے بنت رسول اللہ اس بچہ کا نام رکھنے کیلے میں رسول خدا پر سبقت نہیں لونگا نام گزاری کا کام رسول اللہ پر چھوڑتا ہوں شاید حضرت علی نے بچہ کا نام انتخاب کرنے کیلے رسول خدا کو انتخاب کیا ہو چونکہ یہی وہ فرزند ارجمند ہے کہ جس نے بعد میں رسول خدا کی لائی ہوئی مقدس دین کے زمام کو سمبھالنا تھا اور اس دین کو بچانا تھا لہذا مولا علی نے اپنے نور نظر کو رسول خدا کے خدمت میں لیکر آیا رسول خدا نے اس نولود کے داٸیں کان میں اذان اور باٸیں کان میں اقامت کہی اور مولا علی ع کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا اے علی آیا بچہ کا کوٸی نام رکھا ہے اس وقت حضرت علی فرماتے ہیں یارسول اللہ آپ ہی اس بچہ کے نام گزاری میں سے ھم سب سے زیادہ سزاوار ہیں اس وقت رسول خدا نے بھی یہی فرمایا بچہ کا نام رکھنے کیلے میں خدا پر چھوڑتا ہے چونکہ رسول خدا وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ان ھو الا وحی یوحی (النجم3) کے مالک ہےجو اپنی خواہش سے نہیں بولتا جو کچھ بولتا ہے وحی اللھی سے بولتا ہے ۔
جبرٸیل کی آمد
اتنے میں حکم خدا سے جبرٸیل نازل ہوۓ اور رسول خدا کو سلام و مبارک بادیدینے کے بعد عرض کرنے لگا اے اللہ رسول خدا فرماتا ہے کہ آپ اور علی کی نسبت موسی اور ھارون کی سی ہے لہذا اپنے نواسے کا نام ھارون کے بیٹے کا نام شبر رکھ دیں اور شبر کو جبرٸیل نے عربی میں ترجمہ کرتے ہوے حسن کہا تو رسول خدا نے اپنے نواسے کا نام حسن رکھا۔

مقام و منزلت امام حسن مجتبی علیہ السلام
امام حسن کی منزلت کیلے اتنا کافی ہے کی آپ چادر تطھیر میں موجود پاک و پاکیزہ افراد پنجتن پاک میں شامل ہیں جن کے بارے میں خدا نے آیت تطھیر
انَّما يُريدُ اللَّهُ لِيَذْهَبَ عَنْكُمْ الرَّجْسَ اهْلَ الْبَيْتِ نازل فرما کر ان کی پاکیزگی کا برملا اعلان فرمایا
ساتھ میں انہی کی مودت کو اجر رسالت قرار دے کر قیامت تک آنے والے بنی نوع بشر پر انکی محبت کو واجب قرار دیا ہے
رسول خدا کا امام حسن سے محبت
رسول خدا مخلتف مقامات پر اور مختلف عبارات میں امام حسن سے محبت کا اظہار کرتے ہوے اپنے ماننے والوں کو امام حسن ع سے محبت کرنے حکم دیا ہے جیسے
اَللّهُمَّ إِنِّی قَدْ أَحْبَبْتُهُ فَأُحِبُّهُ وَ أُحِبُّ مَنْ یُحِبُّهُ
خدایا میں اس سے محبت رکھتا ہوں اور جو اس (حسن)سے محبت کرے گا میں اس سے بھی محبت رکھتا ہوں۔
اسی طرح دوسرے جگہ پر فرماتے ہیں کی مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِی وَ مَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِی جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی
اسی طرح فرماتے ہے کہ
مَنْ سَرَّهُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی سَیِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ
جو شخض جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ حسن ابن علی کو دیکھیں
اس طرح کے مخلتف تعبیرات سے رسول خدا امام حسن ع سے محبت کا اظہار فرمایا ہے اور ہمیں بھی محبت رکھنے کا حکم دیا ہے
پس رسول خدا کی یہ منفرد مھبتجو اپنے نواسے حسن مجتبی سے تھے یہ قرابت و رشتہ داری کی بناء پر نہیں تھے بلکہ یہ انداذ محبت واحترام امام حسن مجتبی کی وہ عظمت و مقام جو خدا کے نزدیک تھے اسکی وجہ سے تھے کیونکہ رسول خدا ہماری طرح قرابت داری و تعلقات پر کسی کو محبت واحترام کے قائل نہیں ہوتے بلکہ رسول کی تمام تر افعال و رفتار میں رضا خدا منضور نظر ہوتے ہیں لہذا حسن مجتبی کے ساتھ جو رفتار اپکی تھی اس میں بھی یقینا رضا خدا یہی تھا لہذا اپ ان سے بے پناہ محبت والفت رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی انکی مقام کو درک کرتے ہوے محبت و احترام کرنے کا حکم دیتا تھا
اہلبیت کی محبت گناہوں سے بچاتی ہے

امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہے
إنّ حُبَّنا لَيُساقِطُ الذُّنُوبَ مِنْ بَنى آدَم، كَما يُساقِطُ الرّيحُ الْوَرَقَ مِنَ الشَّجَرِ.
بے شک ہماری محبت بنی آدم سے گناہوں کو اسی طرح گرادیتی ہے جس طرح ہوا کا جھونکا درخت سے (سوکھے )پتوں کو گرادیتا ہے
چونکہ ان سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے کہنے پر چلے انکی رفتار و کردار کو اپنایے دنیا میں بھی آپ دیکھیں جب کوٸی کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنے محبوب کے رضایت کی تلاش میں رہتا ہے کہیں میرا محبوب ناراض نہ ہو لہذا اہلبیت علیھم السلام سے محبت کا تقاضا بھی یہی ہے آپ وہی کام انجام دے جو اھلبیت ع چاہتے ہو پس اھلبیت ع ہمیشہ ہمیں گناہوں سے دور رکھنے کا حکم دیتے ہیں ۔
خداوند ہمیں گناہوں سے بچنے اور حقیقی معنوں میں اھلبیت ع سے محبت رکھنے والوں میں سے قرار دیں ۔آمین

(بازدید 2 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *