بچوں کی تربیت کا قرآنی فرمولے

بچوں کی تربیت کا قرآنی فرمولے

جس طرح امیرالمومنین علی ؐ اپنے خاص صحابی جناب کمیل سے ارشاد فرماتے ہیں اے کمیل تمیں ہر کام میں ہر قدم پر اس کام کی معرفت اور شناخت کی ضرورت ہے یعنی جب تک کسی چیز کی دروست علم نہ ہو تم اسے بنحو احسن اور بخوبی انجام نہیں دے پاو گے ۔لہذا اولاد کی تربیت جو والدین کی ذمہ ہے اور بچوں کی نسبت سب سے بڑی زمہ داری ہے اس اہم ذمہ داری سے صحیح نبھانے کے لیے باضابطہ تربیت کے طریقہ کار اور راستوں سے آشنائی اور روش کا آنا انتہائی ضروری ہے اور جب تک تربیت کے طریقہ کا سے صحیح واقف نہ اس وقت تک وہ اس ذمہ داری کو انجام نہیں دے پاتا ۔چنانچہ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہے کہ تربیت عربی زبان میں کس سے کہا جاتا ہے ؟ اور اس انسان کی تربیت کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور کسے تربیت کا جاتا ہے ؟
١) تربیت لغت کے اعتبار سے ۔
التربیۃ عربی کا لفظ ہے جسکا معنی ہے (النمو)یعنی پرورش کرنا ؛اندرورنی اور باطنی طاقتوں کور اجاگر کرنا اسے رشد دینا ہے (مفردات راغب اصفہانی /ص/٣٤٠) اور پروردگار عالم کی خاص صفات میں سے ایک صفت بھی ربّ ہے جسے اپنی ذات کے ساتھ مختص کیا گیا ہے چنانچہ ارشاچ باری تعالی ہوتاہے۔ قُلْ أَ غَیْرَ اللَّہِ أَبْغی رَبًّا وَ ہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْء ٍ وَ لا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْہا وَ لا تَزِرُ وازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْری ثُمَّ إِلی رَبِّکُمْ مَرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِما کُنْتُمْ فیہِ تَخْتَلِفُونَ ٭ترجمہ: کہہ دیجئے کہ کیا میں خدا کے علاوہ کوئی اور رب تلاش کروں جب کہ وہی ہر شے کا پالنے والا ہے اور جو نفس جو کچھ کرے گا اس کا وبال اسی کی ذمہ ہوگا اور کوئی نفس دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا -اس کے بعد تم سب کی بازگشت تمہارے پروردگار کی طرف ہے پھر وہ بتائے گا کہ تم کس چیز میں اختلاف کررہے تھے(انعام/١٦٤)اسی طرح کسی اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ذَالِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ خَالِقُ کُلِّ شیَْء ٍ لَّا إِلَاہَ إِلَّا ہُوَ فَأَنیَ تُؤْفَکُون٭ترجمہ: یہی اللہ تمہارا رب ہے جو ہر چیز کا خالق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بھٹک رہے ہو(غافر/٦٤) چنانچہ پرورد۔ار عالم ہے اس مقصد کے خاطر اپنے سب سے زیادہ نزدیک بندوں کو چنا اور ان پر کتب آسمانی نازل کیا ۔

تربیت کی اہمیت۔

تربیت کی اہمیت کے لیے یہی کافی ہے کہ پروردگار عالم نے تربیت کے اس عظیم ذمہ داری کو سوپنھے کے لیے اس روی زمین کے اپر اپنے سب سے افضل اور ہر جھت سے کامل بندے انبیاء کو انتخاب کیا چنانچہ صحف

آسمانی کے نازل ہونے اور انبیاء کے مبعوث ہونے کا ایک اہم راز اور مقصد تربیت کو قرار دیا اور ارشاد ہوا ۔ ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فیِ الْأُمِّیِّنَ رَسُولًا مِّنہُْمْ یَتْلُواْ عَلَیہِْمْ ء َایَاتِہِ وَ یُزَکِّیہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الحِْکْمَۃَ وَ إِن کاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِین * وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ صریح گمراہی میں تھے۔اور سورۃ تحریم میں ایک فیملی ممبرز کی اہم ذمہ داری اپنے بچوں کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنا اور انکوصحیح تربیت کے ذریعے جھنم کی آگ سے نجات دینا قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد باری ہوتا ہے:۔ ایَأَیہَُّا الَّذِینَ ء َامَنُواْ قُواْ أَنفُسَکمُْ وَ أَہْلِیکمُْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَ الحِْجَارَۃ (تحریم/6 ) ترجمہ:۔ اے ایمان الو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔۔۔ لہذا قرآن کریم ہدایت ؛ تربیت کی کتاب ہے اور صحیح تربیت کے مختلف طریقہ کار اور اہم راستوں کی نشاندہی بھی کی ہے ۔
٢) قرآن اور تربیت کے اہم طریقے ۔
قرآن مجید میں بہت سارے طریقے اور سالم تربیت کے مختلف راہیں بیاں ہوئی ہیں تاہم یہاں چند اہم طریقوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کریںگئے ۔
الف) موزوں آیڈئل کا ہمشہ سامنے رکھنا۔
بچوں کی تربیت کا ایک اہم طریقہ جسکی قرآن کریم میں بھی تاکید ہوئی ہو وہ یہ کہ بچوں کے سامنے ایک مناسب اور بہتریں آیڈیل اور نمونے کا سامنے رکھ کر اسکی زندگی کے مختلف پہلو کو کھول کر بیاں کرناہے اور اس آیڈیل کی زندگی کے ہر پہلو کو اسکے رفتار اسکے رہن سہن کے طور طریقوں کو اپنانے پر اگسانا اورتشویق کرنا ہے کیونکہ انسان کی طبیعت کچھ ایسی ہے کہ وہ دوسروں کے گفتار سے زیادہ انکی کردار اور عمل سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اب ممکن ہے وہ آیڈیل کتاب کی شکل میں ہو یا کسی انسان کی شکل میں یا فیلم یا ڈیجست اور کہانی کی شکل میں بہر حال ایک مدت تک اس آیڈیل کے ساتھ زندگی گزارنے سے وہ بچہ یا انسان خود بخود اس آیڈیل کے طرز زندگی اور روش حیات کو انجانے اپناتا ہے ۔چنانچہ قرآن مجید میں کبھی اللہ کے نیک اور صالح بندوں کبھی انبیاء اور اوصیاء کی زندگی کو سر مشق ارو آیڈیل قرار دینے کو کہا گیاہے ؛یہاں تک حضرت موسی کو حکم ہوتا کہ اے موسی جاو اور ایک مدت تک ایک ایسے عالم اور جاننے والے کی چنانچہ سورۃ کہف میں ارشادی باری تعالی ہو تا ہے ۔فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا ء َاتَیْنَاہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَ عَلَّمْنَاہُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا(65) قَالَ لَہُ مُوسیَ ہَلْ أَتَّبِعُکَ عَلیَ أَن تُع ذدَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ٭ ترجمہ :۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔٭٦٦۔ موسیٰ نے اس سے کہا :کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔
ب) دیرے دیرے لے جانا۔
بچوں کی صحیح تربیت کے لیے ایک اور اہم اصول اور طریقہ کار جسکی قرآن کریم نے نشاندہی کی ہے ؛وہ یہ ہے کہ تربیتی مسائل کو تدریجی اور آہستہ آہستہ انھیں یاد دلایا جائے دیرے دیرے انکی فکری تربیت کی جائے انکی رفتار اور گفتار کی ہدایت کی جائے مثال کے طور پر سب سے پہلے انھیں انتہائی سلیس الفاظ میں اصول دین کو مختصر دلیلوں کے ساتھ یاد دلایا جاے پھر اسکے بعد فروع دین کو مختصر صورت میں بیاں کیا جائے اور جزئی مسائل کو چھڑنے سے پہلے انھیں زندگی کے مختلف پہلو سے متعلق بنیادی اصولوں کو مثال کے طور پر فکری مسائل میں توحید؛نبوت؛امامت وغیرہ جبکہ اخلاقی مسائل میں صداقت ؛امانت؛وفاداری ؛حسن خلق ؛اخلاص غیرہ اور فقہی مسائل میں سے حلال وحرام نجاست پاکییزگی وغیرہ پر تاکید کیا جائے ۔چونکہ بہت سارے مسائل کے ایک دم روبرو ہونے بچہ ہچکچاہٹ اور ہٹ دھرمی کا شکار ہوجاتا ہے اور نفسیاتی اعتبار سے ان سارے مسائل کو قبول کرنے ؛سمجھنے اور عمل کرنے کے لحاظ عجز وناتوانی کا شکار ہوتا ہے ۔

لہذا پروردگار عالم نے بھی اسی نکتے کے پیش نظر قرآن مجید جو سراسر ہدایت کی کتاب ہے ٢٣ سال کے دورانیہ میں اتارا اوردینی معارف اور احکامات سے لوگوں کو تعارف کرایا چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ۔قَالَ الَّذِینَ کَفَرُواْ لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْء َانُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَالِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلً)فرقان/٣٢) ترجمہ:۔ اور یہ کافر یہ کہتے ہیں کہ آخر انِ پر یہ قرآن ایک دفعہ کِل کاکِل کیوں نہیں نازل ہوگیا-ہم اسی طرح تدریجا نازل کرتے ہیں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن کر سکے اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے۔
ج) سخت گیری سے پرہیز کرنا ۔
بچوں کی تربیت کا ایک اور اہم اصول اور طریقہ کار یہ کہ تربیتی کاموں میں سخت گیری سے پرہیز کیا جاے اور جتنا بھي ہو سکے آسانی اور نرمی سے کام لیا جاے چونکہ انسان فطری طور پر آذاد منش اور راحت پسند ہے لہذا انسان کی طبعت سختی اور پریشر ایک دم قبول نہیں کرسکتی لہذا قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر اس روش کی تاکید کی گی ہے چنانچہ سورۃ بقرۃ آیت نمبر ٢٣٣ میں ارشاد ہوتا ہے۔َ لَا تُکلََّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَہَا ….(233) ۔۔۔۔کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاسکتی.۔۔۔۔اسی کسی دوسرے آیت میں بھی ارشاد ہوتا ہے ۔ لَا یُکلَِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیہَْا مَا اکْتَسَبَتْ …..(بقرۃ 286 )
اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا ، ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجا م بھی اسی کو بھگتنا ہے۔ایسے ہی نبی پاک ؐ شریعت محمدی کی حقیقت بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں ۔:انی بعثتّ ُ بشریعۃ سہلۃ سمعاء :مجھے وسیع ادر آسان شریعت کے ساتھ بیجھا گیا ہے ۔لھذا تربیت کے دوران ہر فرد پر اسیکی طاقت اور قدرت سے زیادہ پریشر نہ لگایا جائے ۔
د) اعتدال اور میاںروی سے کام لینا۔
قرآن کریم کے تربیتی اصولوں میں سے ایکاور اہم اصل تربیتی امور میں میانہ روی سے کام لینا ہے چنانچہ قرآں مجید ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں افراط اور تفریط سے پرہیز کرنے کا حکم دیتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے : وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فیِ الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّہَ لَا یحُِبُّ کلَُّ مخُْتَالٍ فَخُورٍ وَ اقْصِدْ فیِ مَشْیِکَ وَ اغْضُضْ مِن صَوْتِک ۔۔۔( سورۃ لقمان/١٨/١٩) ترجمہ :اور لوگوں سے (غرور و تکبرسے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔٭ ۔ اور اپنی چال میںاعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ۔۔۔۔
ر) تشویق اور تھدید ۔
قرآن مجید میں نبی پاک ؐ کو بشیر اور نذیر کے القاب سے نوازاہے جبکہ بشیر سے مراد بشارت دینے والا یعنی خداکے رحمتوں اوربرکتوں کی طرف ترغیب دینے والا اچھے اور نیک عمل اور سالم فکر اورکے نیک اثرات سے آگاہ کرنے والا جبکہ نذیر سے مراد برے عمل غلط رفتار کے منفی اور برے نتائج سے ڈرانے والا ہے لہذا بچوں کو اچھے اور نیک کاموں کے انجام دینے پر انکی تشویق کرنا خواہ زبان کے ذریعے ہو یا گفٹ دینے کی شکل میں ہو یا کسی اور طریقے سے ہو اسے انکی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ان میں اس کام کو بار بار انجام دینے کا شوق بڑھ جاتاہے اسی طرح برے رفتار اور غلط کام کے انجام دینے سے روکنے کے ساتھ ساتھ سزا بھی دیا جائے کیونکہ یہ کام انھیں نفسیاتی طور پر اچھائی کی طرفقدم بڑانے اور برائی سے دور ہو جانے میں مدد ملتاہے ۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے۔وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا مُبَشرِِّینَ وَ مُنذِرِینَ فَمَنْ ء َامَنَ وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیہِْمْ وَ لَا ہُمْ یحَْزَنُون : ترجمہ : اور ہم تو رسولوں کو صرف بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے بنا کر بھیجتے ہیں، پھر جو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے تو ایسے لوگوں کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ محزون ہوں گے۔

 

امید ہے پروردگار عالم ہم سب کو اپنے اپنے وظیفہ جان کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمایں آمیں !

بشکریه

ریفرنس

 

 

 

(بازدید 12 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *