عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام درس6

عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام درس6

چھٹاسبق

اہل سنت کی سیاسی  بنیادیں

سبق کے اہداف

1۔اہل سنت کی سیاسی  بنیادوں سے آشنائی

2۔اہل سنت کے طریقہ انتخاب سے آشنائی اور اس کا تنقیدی جائزہ

3۔مفہوم مشروعیت سے آشنائی

 

اہل سنت کی سیاسی  بنیادیں

اہل سنت کی فقہ کے دوسرے دورے  کی  سیاسی  بنیادیں کچھ اس طرح سے ہیں۔

1:  فقدان نص کا اصول  اور اس کی تشکیل میں ابو حنیفہ کا کردار

اہل سنت کے نزدیک سیاسی معاملے میں فقدان  نص  کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام  ایک نامکمل دین  ہے بلکہ اس کا مطلب  یہ ہے کہ پیغمبرخدا  ؐ نے کوئی نص صریح اس معاملے میں بیان نہیں فرمایا ہے۔ اہل سنت اس نظریے کے تناظر میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ نے  دینی رہبری اور   سیاسی رہبری کے لیے کوئی فصل الخطاب  اور  صریح نص  بیان نہیں کیا ہے اور نہ ہی معاشرے کے حکمرانوں کی تعیین کے لیے کوئی خاص طرز و طریقہ بیان فرمایا ہے۔ دوسری طرف اہل سنت اس بات کے دعویدار بھی ہیں کہ کتاب و سنت میں محدود انداز میں شریعت بیان ہوئی ہے جب کہ امتداد زمانہ کے ساتھ  پیدا ہونے والے واقعات اور مسائل لامحدود ہیں۔ اس لیے احکام الہی کے حصول کے لیے کتاب و سنت کے علاوہ ضروری ہے کہ کوئی دوسرا راستہ بھی ہو اور وہ اجتہاد بالرائے ہے جس کے ذریعے احکام الہی کی تشریع  عمل میں لائی جاتی ہے۔

2: اجتہاد

ایک اور چیز جو اہل سنت کی  سیاسی فقہ کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے وہ ان کے ہاں  اجتہاد کا تصور ہے۔ اہل سنت  میں لفظ اجتہاد کا تصور شیعہ مکتب  میں موجود  اجتہاد کے تصور سے مختلف ہے۔ شیعہ مکتب میں اجتہاد سے مراد کچھ ایسے  اصول و قواعد کا استعمال  ہے جس سے  فرعی احکام کا استنباط اور استخراج ہوتا ہے جبکہ اہل سنت کی نظر میں اجتہاد اس معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے۔ ان کے ہاں فقدان نص کے وقت اپنی رائے سے حکم شرعی کی تشریع کو اجتہاد کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ابو حنیفہ ایک مقام پر کہتے ہیں:  میں اپنی رائے کو نص پر مقدم نہیں سمجھتا ہوں، جب مجھے کتاب الٰہی سے کوئی حکم ملتا ہے تو میں اسے وہاں سے لیتا ہوں، جب میں اسے وہاں نہیں پاتا تو رسول خداؐ  کے قول و سنت سے لیتا ہوں کہ یہ ہم تک مستند ذرائع سے پہنچی ہے۔ جب میں حکم الہی کو  کتاب و سنت میں نہیں پاتا ہوں تو صحابہ کرام کے قول و فعل کو مستند سمجھتا ہوں اور قول و فعل صحابہ میں اختلاف پانے کی صورت میں جو رائے مجھے پسند آئے اسے اپناتا ہوں اور  اسے قبول کرتا ہوں اور جو مجھے پسند نہیں آتا اسے رد کرتا ہوں۔ (اسی عمل کو  اجتہاد بہ رائے سے تعبیر کیا جاتا ہے) لیکن دیگر مواقع میں (یعنی صحابہ کرام کے اقوال و افعال کی عدم موجودگی میں ) میں خود چھان بین کرتا ہوں اور ایک نتیجہ اخذ کرتا ہوں جس طرح دوسرے قیاس  اور استحسان و غیرہ کے ذریعے احکام  لیتے ہیں۔ پس ابو حنیفہ کے نزدیک  اجتہاد بہ رائے (یعنی  ذاتی رائے)فقدان نص کا نعم البدل ہے۔

شہید  مطہری کے بقول اہل سنت کے ہاں لفظ اجتہاد سے مراد ہمارے ہاں رائج معنی نہیں ہے بلکہ[1]   اپنی ذاتی رائے کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔یعنی اگر کسی مقام پر حکم شرعی معین نہ ہو یا مکلف پر مخفی رہے تو اس صورت میں انسان  اس حکم کا انتخاب کرے گا جو اپنی عقل ، ذوق،  پسند  اور  دوسرے احکام سے ملتا جلتا ہو اور حق و عدالت سے سازگار ہو۔ لہٰذا ان کے نزدیک  ذاتی رائے پر مبنی اجتہاد فقدان نص کا  ایک بہترین نعم البدل ہے۔

3: صحابہ کرام کے افعال و فہم کی حجیت اور احمد ابن حنبل کا کردار

ایک اور موضوع جو ہمیں اہل سنت کی سیاسی فقہ کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے وہ ہے صحابہ کرام کے اعمال کی حجیت۔ حجیت سنت صحابہ سے مراد رسول اللہؐ کے صحابہ کرام( رضی اللہ عنہم) کے قول و فعل کو مستند سمجھ کر  شناخت احکام الہی کا ایک ذریعہ قرار  دینا ہے۔  اس مطلب کی مزید وضاحت:

اسلامی معاشرہ میں نبی کریم ؐ کی حیات مبارکہ کے دوران احکام الہی اور شرعی فرائض کو جاننے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ لوگ بغیر کسی واسطہ کے نبی خداؐ  کے پاس جاتے اور اپنےانفرادی اور اجتماعی شرعی مسائل پوچھتے اور رسول اللہؐ نیز اکثر اوقات اپنی گفتگو، کردار یا قرآن کی کسی آیت پڑھ کر جواب دیتے تھے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَ يُزَکِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ إِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلاَلٍ مُبِينٍ‌۔[2] ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیٰہ کی تلاوت کرتا ہے انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ پہلے سےبڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔البتہ بعض اوقات رسول اللہؐ نے بعض مسلمانوں کو احکام جاننے اور ان کی دینی  ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بعض احکام الہیہ سے  آشنا صحابہ کی طرف رجوع کرنے  کا حکم فرماتے تھے اور لوگ بھی ان کے جوابات حاصل کرتے تھے۔ بعض اوقات خود آنحضرتؐ اپنے بعض اصحاب کو بعض مسلم آبادی والے علاقوں میں بھی بھیجتے تھے تاکہ ان علاقوں کے لوگ ان سے احکام الٰہی حاصل کریں۔ اس  سلسلے میں پیغمبر اکرم ؐ کا معاذ ابن جبل  کو یمن کی طرف بھیجنا بطور مثال  ذکر کیا جاسکتا۔

مذکورہ  مطالب سے یہ بات ثابت ہوئی کہ رسول اللہؐ کی حیات طیبہ میں احکام الہی کی دست یابی کے سلسلے میں مسلمانوں کے ہاتھ پوری طرح کھلے ہوئے تھے اور اس سلسلے  میں انہیں کبھی کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ تمام احکام الہی کو لوگ یا پیغمبر ؐ سے اخذ کرتے تھے یا ان لوگوں سے جنہیں پیغمبر اسلام نے متعین فرمایا تھا۔پیغمبر خدا کے پاس علمی رہبریت کے علاوہ اجتماعی ،  سیاسی اور قضاوت کے  مکمل اختیارات تھے۔ لیکن رسول اللہؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو  احکام  الہی حاصل کرنے  کے سلسلے میں محرومیت کا سامنا ہوا۔ اب یہاں اہل سنت کے عقیدے کے مطابق چونکہ  نبی مکرم اسلام ؐ  نے اپنے بعد کسی کو متعین طور پر علمی مرجع و رہبر مقرر نہیں فرمایا، اس لیے تمام مسلمان احکام الہی  حاصل کرنے اور اپنی دینی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے صحابہ سے رجوع کرتے تھے۔

شاہ ولی اللہ حنفی المعروف دہلوی کہتےہیں: پہلی اور دوسری صدی میں لوگ کسی خاص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے، وہ اپنے دینی احکام کو اپنے آباء و اجداد سے سیکھتے یا ان علماء سے سیکھتے جن کے پاس تمام یا کچھ مسائل کو استنباط و استخراج کی صلاحیت ہوتی تھی اور جب بھی ان کو کوئی دینی اور شرعی  سوال  درپیش ہوتا تو وہ کسی مخصوص شخص کو ذہن میں رکھے بغیر ہر عالم اور مفتی دین سے احکام طلب کرتے تھے۔وہ بھی  ایک ہی جواب نہیں دیا کرتے تھے  بلکہ مختلف جواب دیا کرتے تھے۔ لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دو اصولوں یعنی فقدان نص اور اجتہاد کے سبب  صحابہ وتابعین دینی احکام اخذ کرنے کے مرجع قرار پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت فقہ میں بطور صراحت یہ بات ملتی ہے کہ صحابہ اور تابعین کے قول و فعل اسی طرح حجیت کے حامل ہیں جس طرح قرآن اور سنت نبوی کی حجیت واضح ہے۔ اہل سنت کے اسی عقیدے کے مطابق ان کا کلامی، فقہی اور سیاسی ساختار بنا اس کے بعد  احمد بن حنبل کی قیادت میں اہل الحدیث کی تحریک کے قیام سے اہل سنت کی سیاسی فقہ میں اس اصول کو مزید تقویت ملی اور اسے ادارہ جاتی شکل دی گئی۔ ایک معروف اہل سنت عالم دین  احمد ابن سالم اس سلسلے میں کہتے ہیں:: مِمَّا یَجِبُ على الْمُکَلَّفِ ایضا اتِّبَاعُ السَّلَفِ الصَّالِحِ وَهُمْ الصحابه رضی اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ فی أَقْوَالِهِمْ وافعالهم وَفِیمَا تَأَوَّلُوهُ وَاسْتَنْبَطُوهُ؛[3] یعنی تمام مسلمان مکلفین  پر واجب ہے کہ وہ سلف صالح یعنی صحابہ کرام کے قول و فعل کے مطابق عمل کریں اور جس چیز میں صحابہ تاویل اور احکام الہی کے سلسلے میں وہ استنباط کرتے ہیں ان کی متابعت اور پیروی کریں ایسا کرنا ان پر واجب ہے۔ احمد ابن سالم مزید کہتا ہے: پیغمبر اسلامؐ نے  دین اور اس کے احکام کے تمام قواعد و اصولوں کو  اپنی امت تک پہنچا کر رحلت فرمائی۔ پھر آپؐ نے اپنی وفات  کے بعد  احکام الہی اخذ کرنے کے سلسلے میں صحابہ کرام کو  دینی مرجع قرار دیااور فرمایا: تم سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ  جب تک میں زندہ ہوں میری سنت پر اسر میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کریں۔پس جو چیز کتاب و سنت، اجماع، قیاس، یا کسی صحابی کے عمل سے ثابت ہو تو وہ خدا کا دین ہے۔[4] اہل سنت کی ایک کلامی کتاب ”الاعتصام” میں یوں آیا ہے: سلف صالح  جن میں صحابہ کرام اعلی مقام پر فائز ہیں، نے  ان تمام شرعی مسائل کا حل اپنے اجماع اور حسن انتخاب سے پیش کیا ہے  جن کا ذکر قرآن اور سنت نبوی میں نہیں ملتا۔ ان کے قول و فعل تمام مسلمانوں پر حجیت رکھتے ہیں کیونکہ صحابہ  کسی گمراہ کن بات  پر اجماع و اتفاق  نہیں کرتے بلکہ ہدایت و بھلائی پر ہی اجماع کرتے ہیں۔[5]

4: اجماع

ایک اور چیز جو ہمیں اہل سنت کی  سیاسی فقہ کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے وہ ہے ان کے ہاں اجماع کا تصور۔ اہل سنت  کے سیاسی نظریے کا  ایک بنیادی عنصر یہ ہے کہ رسول خدا ؐ نے اپنے بعد کسی کو متعین طور پر سیاسی مرجعیت کے لیے منصوب نہیں کیا ہے۔ اسی نظریے کے تناظر میں وہ لوگ صحابہ  کے قول و فعل کو اپنے لیے حجت مانتے ہیں  اور اپنے ہاں موجود سیاسی نظام  کی مشروعیت  کے لیے انہی کے قول و فعل سے استناد کرتے ہیں مخصوصا خلفائے راشدین کی  خلافت کے سلسلے میں اس  بات کو کچھ تاکید سے کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت اپنے ہاں موجود سیاسی نظام کے جواز کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ صحابہ نے رحلت رسول خدا ؐ کے بعد ایک سیاسی نظام کی تشکیل کے اصول پر اتفاق کیا ہے۔ اس اصول پر عمل کرنے کے لیے  تمام صحابہ جمع ہوئے اور نظام خلافت کی بنیاد رکھی۔ چونکہ اس نظام خلافت میں تمام صحابہ کا اتفاق و اجماع شامل ہے اس لیے اس کی مشروعیت  پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ ان کے ہاں نظام خلافت کا ایک  اہم دستاویز اجماع صحابہ ہے۔

سنی  فقہ سیاسی کی تاریخ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ہاں آغاز سے ہی ایک  منظم اور مربوط سیاسی نظام یا نظریہ کا فقدان رہا ہے اس لیے  اہل سنت اس دور میں  سیاسی تنازعات اور فیصلوں میں صحابہ کرام کو ایک نمایاں عنصر کے طور پر ان کو فیصلہ کن مانتے ہیں۔ چنانچہ مندرجہ بالا اصول کی بنا پر اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ رسول  خدا ؐ کے بعد  تمام حکومتی معاملہ جات مکمل طور پر امت کے اختیار میں ہونگے اور ان ہی کی صوابدید پر سیاسی معاملات طے پائیں گے۔  اس  نظریے  کی مشروعیت اور  جواز کے لیے ان کے ہاں کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں ان میں سے اہم اصول یہ ہیں۔ اہل حل و عقد کا اجماع، بیعت، زور زبردستی اور تسلط، پہلے والے خلیفہ کی جانب سے آنے والے خلیفہ کو منصوب کرنا وغیرہ۔ ذیل میں ان تمام مطالب پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔

پہلا اصول:  نصب اور نص

سیاسی معاملات اور حکومتی امور کے سلسلے میں اہل سنت کے  ہاں یہ ایک مسلم اور متفق علیہ رائے ہے کہ اگر  رسول خدا ؐ کسی کو امت کا امام اور رہبر متعین فرمائے تو وہ تمام مسلمانوں کا رہبر اور امام ہوگا۔  لیکن اہل سنت کا خیال یہ ہے کہ عملا  ایسا نصب رسول خدا ؐ کی جانب سے انجام نہیں پایا ہے بلکہ  نبی مکرم اسلامؐ نے حکومتی معاملات کو  خود امت پر چھوڑ دیا ہے۔ ابوالحسن اشعری اس  سلسلے میں  کہتے ہیں: امامت  رسول خدا ؐ کی جانب سے منصوص انداز میں منعقد ہوسکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ  امامت کا مسئلہ لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ [6] نصب و نص کے سلسلے میں اہل سنت کے نظریے کا خلاصہ یہ  ہے لیکن  اس سلسلے میں بات قابل ذکر بات یہ  ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے  بہت سے موقعوں پر حضرت علی بن ابی طالبؑ کو اپنے بعد اپنا  خلیفہ، جانشین اور ولی مقرر کیا ہے۔ سب سے واضح اور روشن مقام غدیرخم ہے اور غدیر خم کی حدیث  سلسلہ سند کے اعتبار سے متواتر حدیث ہے۔ اس کے بارے میں علامہ حلی کی کتاب “الفین”، خواجہ نصیر طوسی کی کتاب “تجرید الاعتقاد” اور علامہ امینی کی کتاب  “الغدیر” میں تفصیلی بحث  آئی ہے۔

دوسرا اصول: غلبہ اور طاقت کا استعمال

اہل سنت کے ہاں طاقت اور تسلط ان عوامل میں سے ایک ہے جسے حکومت کے جواز کا اصول سمجھتے ہیں۔  یعنی جو لوگ طاقتور ہیں وہ اپنے زور و زبردستی کے ذریعے معاشرے پر حکمرانی کا حق حاصل کرسکتے ہیں اور عام مسلمانوں کی طرف سے اس سلسلے میں  بیعت کرنے کی  بھی ضرورت نہیں ہے۔ا س اصول کو  اہل سنت  “الحق لمن غلب”(حق ہمیشہ طاقتور کاہوگا)کا نام دیتے ہیں۔

پانچویں صدی کے مشہور اہل سنت فقیہ اور عالم قاضی ابو یعلی حنبلی زور زبردست  کے ذریعے  حکومت کرنے  کے جواز  کے بارے میں لکھتے  ہیں:امامت دو صورتوں میں منعقد اور  قائم ہوسکتی ہے:

پہلی صورت: اہل حل و عقد کے ذریعے

دوسری صورت: پچھلا خلیفہ اگلے کا انتخاب کرے

ابو یعلی مزید لکھتے ہیں: احمد حنبل سے مروی ہے کہ خلافت و امامت جبر اور تسلط سے بھی قائم ہوتی ہے۔ اس صورت میں عوام کی طرف سے  بیعت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ، خواہ وہ حاکم ظالم و فاجر ہی کیوں نہ ہو ہو۔ [7]  ابو یعلی  نے یہ فتویٰ عبدوس بن مالک عطار  سےنقل کیا ہے۔ احمد حنبل  نے کہا ہے: “اگر کوئی تلوار کے ذریعے لوگوں پر حکومت کرے  اور ان کا امام یا خلیفہ بن جائے تو خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے کے لیے یہ  جائز نہیں ہے کہ  وہ  رات کو صبح  کرے اور صبح کو رات کرے اور  اس کی حکمرانی کو قبول نہ کرے۔ یہ حکمران نیک ہو یا برا ہر صورت اس کو قبول کرنا ہوگا۔ نیز ابن الحرث نے احمدسے یوں نقل کیا ہے: ’’اگر دو فرد حکومت کرنے کے لیے آپس میں لڑیں اور دونوں کے لوگ ایک دوسرے  سے بغاوت کریں  تو جو فاتح ہوگا وہی امام جمعہ میں امامت کرے گا(جمعہ کی نماز کا قیام خلیفہ اور امام کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے)۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے ابن حنبل نے ایک اور دلیل یوں بیان کی ہے: عبداللہ عمر نے مدینہ میں  جنگ حرہ کے دوران باجماعت نماز ادا کی اور کہا کہ ہم اس کے ساتھ ہیں جو غالب آئے۔ [8] پس قاضی ابو یعلی کی نظر میں زور اور تسلط ہی حکومت کرنے  کا جواز پیدا کرتا ہے اور اس میں بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ اس نظریے کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں:

پہلی وجہ:

 ابن عمر کی اس روایت کا اطلاق جس میں کہا گیا ہے کہ “ہم اس کے ساتھ ہیں جو غالب آجائے” اس روایت میں بیعت کی قید موجود نہیں۔

دوسری وجہ:

اگر امامت و خلافت  بھی چیزوں کی  خرید و فروخت کی طرح ہو جس میں  لوگوں کی رضامندی اور قبولیت شرط ہوتی ہے تو  پھر خلافت کو برخاست کرنے اور خلیفہ و امام کو منصب خلافت و امامت سے عزل کرنے کے لیے بھی  لوگوں کا کردار ہونا چاہیے حالانکہ انہیں ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ خلافت و امامت کے انعقاد اور قائم ہونے میں لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے جواز کے لیے صرف زور اور تسلط ہی کافی ہے۔

موفق الدین عبداللہ بن قدامہ حنبلی (620-540ھ) نے حنبلی مذہب کی فقہ استدلالی کی  کتاب ”المغنی” میں بغات کی بحث میں ذکر کیا ہے: “اگر کوئی اپنے زمانے کے امام اور خلیفہ کے خلاف قیام کرے اور اس پر فتحیاب ہو جائے اور  لوگوں کو زبردستی اور تلوار کے ذریعے اپنے ماتحت لائے اور لوگ بھی اس کی اطاعت اور  پیروی کریں تو  وہ معاشرے میں لوگوں  کا امام بن جاتا ہے۔ اب اس  کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔ کیونکہ عبد الملک مروان نے عبداللہ بن زبیر کے خلاف بغاوت کی اور اسے قتل کیا اور اپنی حکمرانی شروع کردی اور لوگوں نے بھی خوشی یا ناخوشی سے اس کی بیعت کی۔ اس صورت میں وہ امام ہے اور اس کے خلاف قیام کرنا حرام ہے۔ [9] تفتازانی بھی اس  سلسلے  میں  لکھتے ہیں: “جب امام فوت ہو جائے اور امامت کی شرائط رکھنے والا بغیر بیعت کے امام ہو جائے اور زبردستی سے لوگوں پر غالب آجائے تو اس کے لیے خلافت ثابت ہو جاتی ہے۔ واضح ہے کہ اگر وہ فاسق ہو یا جاہل تب بھی خلیفہ ہوگا۔اگرچہ وہ اپنے عمل میں گناہ گار ہے لیکن دوسروں پر   اس امام  اور خلیفہ کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ شریعت کے حکم کی مخالفت نہ کرے، خواہ وہ خود عادل ہو یا فاسق”۔[10] بہرحال طاقت اور زور زبردستی کے ذریعے حکومت کرنا اور اسے شرعی طور پر جائز سمجھنا خلافت راشدہ کی حقیقتوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ نظریاتی لحاط سے اس کے بطلان پر کئی دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔

تیسرا اصول :سابق خلیفہ کی جانشینی یا تقرری

اہل سنت کے نزدیک استخلاف یا سابق خلیفہ کی تقرری امامت اور خلافت کے انعقاد اور اس کے قائم ہونے کا ایک اور طریقہ ہے اور یہی طریقہ حکومت کرنے کا شرعی جواز  پیدا کرتاہے۔ اس طریقے  کا استناد اور دلیل عمل حضرت ابو بکر ہے جنہوں نے  حضرت عمر کو اپنے بعد  مسلمانوں کا  دوسرا خلیفہ اور  اپنا جانشین مقرر کیا۔ درحقیقت  یہ تقرری رسمی طور پر  حضرت ابو بکر کے ایک خط میں لکھی گئی تھی جب وہ ایک بیماری میں مبتلا تھے۔  اس داستان کا  خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر  اپنے بعد خلیفہ کے رسمی تقررنامہ املا کراتے دوران بے ہوش ہوئے۔ حضرت عثمان  اس تقررنامے کی کتابت کررہے تھے۔  جب حضرت ابوبکر بے ہوش ہوگئے تو انہوں نے تقررنامے میں حضرت عمر کا نام لکھا ۔ جب حضرت ابوبکر ہوش میں آگئے تو انہوں نے حضرت عثمان سے پوچھا: کیا آپ اس بات سے ڈر گئے کہ میں اسی بے ہوشی کے عالم میں وفات پاؤں گا اور مسلمان خلافت کے سلسلے میں اختلاف کا شکار ہوجائیں گے![11]  اس کے بعد  حضرت ابوبکر نے حکم دیا کہ عہد نامہ کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سناؤ۔ خود حضرت ابوبکر لوگوں سے مخاطب ہوئے اور کہا  کہ سب حضرت عمر کی اطاعت کریں۔

یہ طریقہ یعنی ابوبکر کی طرف سےدوسرے خلیفہ کے طور پر حضرت  عمر کا انتخاب، سابقہ خلیفہ کی جانب سے اگلے خلیفہ کے انتخاب کا  اہم سرمشق اور خلافت کے حق انتخاب کی سب سے بڑی دلیل تھا، اسی بنیاد پر  ابوالحسن ماوردی لکھتے ہیں:امامت کا انعقاد اور قیام دو طریقوں سے ہوتا ہے:

 الف: اہل حل و عقد کس کو امام یا خلیفہ انتخاب کریں

ب: سابق امام یا خلیفہ  اگلے  کو  منصوب کرے۔[12] ماوردی  کے نزدیک سابقہ ​​امام کا اگلے کو منصوب کرنا لوگوں کے انتخاب سے بھی  بہتر اور مقدم ہے۔ کیونکہ  یہ  اس طرح  کے طرز انتخاب میں منصوب کرنے والا اور منصوب ہونے والے دونوں  غیر معمولی شخصیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور خلیفہ لائق شخص کو بہتر پہچانتا ہے اور اس کا فیصلہ زیادہ یقینی اور مصلحت کے قریب ہے اس لیے خلیفہ اپنا اگلا خلیفہ خود  منصوب کرتا  ہے۔

فضل اللہ روزبہان خنجی حکومت کو مشروعیت حاصل ہونے والےطریقوں کے بارے میں لکھتے ہیں: دوسرا طریقہ استخلاف ہے۔  یعنی سابق امام اپنی زندگی میں کسی ایسے شخص کا انتخاب کرے جو امامت کی شرائط پر پورا اترتا تھا۔ حضرت  عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کی امامت اور خلافت اس طرح سے ثابت ہے کہ حضرت صدیق نے انہیں اپنی زندگی میں خلیفہ بنایا اور  ایک خط لکھا اسے سر بہ مہر  کے ساتھ باہر بھیج دیا تاکہ اس حضرت عمر کی بیعت کی جائے جس کا نام اس خط  میں درج ہے اور تمام صحابہ نے بیعت کی۔[13]

موفق الدین عبد اللہ بن قدامہ حنبلی (620-541ھ) اس سلسلے میں لکھتے ہیں: “خلاصہ یہ کہ جس کی امامت پر مسلمان متفق ہو جائیں، اس کی امامت قائم ہو جائے گی اور اس کا تصرف جائز اور  اس کی اطاعت سب پر واجب ہے… اسی طرح ہے وہ جس کی امامت کے بارے میں رسول اللہؐ یا سابق امام تصریح کی ہو۔  لہٰذا ابوبکر کی امامت  اور خلافت صحابہ کے اجماع اور بیعت سے  منعقد ہوئی ہے جبکہ حضرت عمر کی خلافت ابوبکر کی طرف سے منصوب ہونے  اور اسی پر صحابہ کا اتفاق ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔[14]

جیسا کہ ذکر ہوا  کہ یہ طریقہ (یعنی استخلاف) حضرت عمر کو  حضرت ابوبکر کے خلافت کے لیے مقرر کرنے کے بعد مشہور ہوا اور یہ اموی اور عباسی خلفاء میں خلیفہ کے انتخاب کا سب سے عام اور رائج  طریقہ رہا۔ اگرچہ بعد میں جانشینی اور ولایت عہدی کا یہ طریقہ مخصوص خاندانوں تک محدود ہونے اور مجموعی طور پر ایرانیوں کی سیاسی روایات سے متاثر ہو کر موروثی ہو گیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عباسی خلفاء نے حکومت موروثی قرار دینے اور عباسیوں میں اس کی اجارہ داری کو جائز قرار دینے کے لیے بعد میں رسول خداؐ کی احادیث کا حوالہ بھی دیا کہ یہ ان کے لیے رسول اللہؐ کی چھوڑی ہوئی میراث ہے۔ خلافت ایک وراثت تھی کہ اس نے انہیں خلافت پر فائز ہونے کے لائق ظاہر کیا۔

عباسیوں کی طرف سے نقل کی گئی سب سے اہم روایت وہ روایت ہے جو رسول اللہؐ نے اپنے چچا عباس کے بارے میں فرمائی جس کا مضمون یہ ہے کہ خلافت عباس اور ان کی نسل میں جاری رہے گی۔

چوتھا اصول: اہل حل  و عقد  کا انتخاب اور اجماع

امامت اور خلافت کے منعقد ہونے کے  سلسلے میں اہل سنت کے سیاسی افکار میں سے ایک  اور حکومت کے  شرعی جواز کا ایک اور ذریعہ لوگوں کا انتخاب ہے۔اہل سنت علماء اور فقہاء کا عقیدہ ہے کہ امامت اور حکومت اہل حل و عقد کی اجتماعی بیعت سے ثابت ہوتی  ہے جو امت کے ایک بڑے حصے کی مرضی کی نمائندگی کرتے ہیں یا براہ راست بیعت کے ذریعے  بھی امامت و خلافت ثابت ہوتی ہے۔

ابوالحسن ماوردی اس سلسلے میں  لکھتے ہیں: امامت دو طرح سے قائم ہوتی ہے: پہلا طریقہ یہ کہ اہل حل اور عقد (ماہرین) کے انتخاب سے،  اور دوسرا طریقہ سابقہ ​​امام کے ذریعہ۔

اہل حل و عقد کے ذریعے امامت و خلافت قائم ہونے  کے نظریے کو ماننے والوں میں اختلاف ہے کہ ان لوگوں (ماہرین) کی تعداد کتنی ہونی چاہیے؟ ایک گروہ  کہتا ہے: امامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تمام لوگ اور مختلف شہروں سے اہل حل و عقد ایک فرد کی  امامت پر جمع نہ ہوں اور یہ اس لیے ہے کہ اس کی قیادت ہمہ گیر اور وسیع ہو اور پوری امت  اس کی  خلافت پر رضامند اور متفق ہو۔ لیکن اس نظریےپر حضرت ابو بکر کی  خلافت ثابت ہونے کے سلسلے میں سوالیہ نشان لگتا  ہے کیونکہ سقیفہ یا مدینہ میں موجود لوگ غائب لوگوں کا انتظار نہیں کرتے تھے۔

ایک اور گروہ کہتا ہے:  اہل حل و عقد کم از کم پانچ افراد ہونا چاہیے اور پانچوں افراد امامت کے تقرر میں شریک ہوں۔ یا ان میں سے ایک دوسرے چاروں کی رضامندی اور رائے سے امامت کے سلسلے میں اپنی رائے پیش کرے۔ اس نظریہ کی درستی اور صحت  کے لیے انہوں نے دو باتوں سے  استدلال کیا ہے:

1:  حضرت ابوبکر کی خلافت جو پانچ لوگوں کی بیعت سے قائم ہوئی۔ پھر  باقی لوگوں نے ان پانچ لوگوں کی پیروی کی۔  وہ پانچ افراد حضرت عمر بن خطاب، ابو عبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، بشیر بن سعد اور سالم ابو حذیفہ تھے۔

2: حضرت  عمرؓ کا عمل ہے جس نے خلافت کی مجلس کو چھ افراد کے درمیان رکھا تاکہ باقی پانچ افراد کی رضامندی سے ان میں سے ایک کے لیے خلافت قائم ہو۔  اکثر فقہاء  اور متکلمین بصرہ  کا یہی نظریہ ہے۔

لیکن اہل کوفہ کے بعض دوسرے علماء کہتے ہیں: اہل حل و عقد میں سے تین افراد کی موجودگی سے بھی امامت  اور خلافت قائم ہوتی ہے، جن میں سے ایک دوسرے دو افراد کی رضامندی سے خلافت سنبھالتا ہے، اس صورت میں ان میں سے ایک امام  حاکم ہوگا اور باقی اس پر دو گواہ ہونگے جیسا کہ نکاح کے موقع پر ایک ولی اور دو گواہ  سے نکاح منعقد ہوتاہے۔

ایک اور گروہ کا کہنا ہے: امامت ایک شخص کے ذریعے سے بھی قائم ہوتی ہے، کیونکہ عباس نےکہا: مجھے اپنا ہاتھ دو میں تمہاری بیعت کروں گا تاکہ لوگ کہیں کہ رسول خدا کے چچانے  آپؐ کے چچا زاد بھائی سے بیعت کی۔ اس صورت میں آپ کی امامت میں دو لوگ بھی اختلاف نہیں کریں گے اور کیونکہ بیعت ایک قسم کا فیصلہ ہے اور ایک شخص کا فیصلہ بھی درست اور قابل قبول ہوتاہے۔[15]

ابو عبداللہ قرطبی (متوفی 671ھ) کہتے ہیں: امامت و خلافت ثابت ہونے کا تیسرا طریقہ اہل حل و عقد کا اجماع ہے اور یہ اس صورت حال کی مانند ہے جب کسی مسلمان شہر میں امام جماعت فوت ہو جائے اور پچھلے امام نے کسی کو اپنا جانشین  بھی مقرر نہ کیا ہو تو اس شہر کے لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور اپنی  مکمل رضامندی کے ساتھ کسی کو امام جماعت مقرر کرتے ہیں۔اس صورت میں باقی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس امام کی اطاعت کریں اگر اس کا فسق و گناہ عام نہ ہو۔ کسی کو اختلاف کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ دو آئمہ کا وجود اختلاف اور فساد کا سبب بنتا ہے۔ قرطبی مزید کہتے ہیں: اگر اہل حل و عقد میں سے کوئی ایک امامت کرے تو  اس کی امامت ثابت ہو جاتی ہے اور باقیوں کے لیے بیعت کرنا ضروری ہے۔ البتہ بعض دوسرے اس رائے کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ امامت اہل حل و عقد کی اجتماعی بیعت سے ہوتی ہے ۔

 امام ابوالمعالی کہتے ہیں: جس کی امامت ایک شخص کی بیعت سے قائم ہوجائے وہ لازم الاطاعہ ہے۔بغیر کسی سبب کے  اسے معزول کرنا جائز نہیں اور یہ ایک  اجماعی بات ہے۔[16]

 

اہل سنت کے ہاں رائج امامت و  خلافت کے طریقہ انتخاب کا تنقیدی جائزہ

یہ بات قابل ذکر ہے کہ  امامت و خلافت کے سلسلے میں  اہل سنت فقہ اور ان کے نظام سیاسی میں رائج  نظریہ انتخاب عقلی و نقلی معیارات کے مطابق نہیں اور نہ ہی قرآن کی کوئی صریح آیت اس پر دلالت کرتی ہے  اور  نہ ہی سنت نبوی میں ایسی مستند چیز موجود  ہے۔ قرآن اور سنت صحیحہ نبوی میں ہمیں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی کہ  اگر  افراد اہل حل و عقد کے درمیان سے پانچ یا تین یا ایک نفر   نے کسی کو امامت کے عہدے پر فائز کیا تو شریعت نے بھی اس کی تائید کی ہو اور  تمام مسلمانوں پر اس کی اطاعت لازم اور ضروری ہو!! یہی وجہ ہے کہ اہل سنت علماء اور فقہاء اس سلسلے میں عام طور  پر  خلفائے راشدیندیگر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے قول و فعل کو خلافت و امامت کے  قائم ہونے کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔  قرآن، سنت یا کسی دوسری دلیل سے اس کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ کسی عمل  یا فعل کی مشروعیت اور اس کے جواز کے لیے خلفائے راشدین کی سیریت یا ان کے اقوال و افعال معیار نہیں کیونکہ ان کے اقوال و افعال کی  مشروعیت ثابت کرنے کے لیے کتاب و سنت ، عقل یا اجماع سے دلیل درکارہے۔خصوصا   جب  ہم خلفائے راشدین اور باقی صحابہ کرام کو  معصوم عن الخطا نہیں سجھتے جبکہ  خطا و اشتباہ کا امکان ان کی نسبت ہمیشہ موجود ہے۔

اہل سنت کے نظام سیاسی میں جو بنیادی نکتہ  ہمیشہ نظر آتا ہے اور اس پر توجہ دی جانی چاہیے  ۔یہ ہے کہ وہ  حاکمیت کی شرعی دلیل ثابت کرنے  اور اس میں بحث و تمحیص کرنے کی بجائے  ہمیشہ حاکم کے عمل اور اس کی کارکردگی کی توجیہ بیان کرتے ہیں۔ لہذا اسلامی نظام سیاست کے سلسلے میں بیان شدہ اہل سنت کے تمام نظریات میدان سیاست میں کسی فعل کے انجام پذیر ہونے  اور معاشرے میں  ان پر عمل پیرا ہونے کے بعد  ان افعال کی توجیہ کے سلسلے میں ہیں۔پس اہل سنت کے سیاست سے متعلق نظریات واقعہ کے بعد کے نظریات ہیں اور معاشرے میں نافذ ہونے کے بعد انہیں ترتیب دیےگئے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں خلافت کی یکساں نوعیت کی شکل نظر نہیں آتی اور  پہلے سے علم بھی نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں خلافت اور اس کا نظریہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور خلافت کا نظام ماضی کے حالات و واقعات کا شرعی جواز تھا، باقاعدہ اور ایک نظریاتی مرحلے میں اس پر بحث نہیں کی گئی بلکہ  معاشرتی ضرورت نے خلافت و امامت کےقیام  کےیہ چار اصول اور طریقے ایجاد کیے پھر اسے لفظی شکل دی گئی ہے۔

ابوالحسن اشعری کے نظریات کو ملاحظہ کرنے کے بعد ہم اہل سنت کی سیاسی فقہ کو مزید بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اشعری نے فقہی احکام کے دائرہ اختیار کے بارے میں اہم  نظریات پیش کئے ہیں۔ انہوں نے صحابہ کے متضاد اور متقابل کردار کے بارے میں لکھا ہے کہ تمام صحابہ اہل اجتہاد ہیں اور پیغمبر اکرمﷺ کی جانب سے دس اصحاب کو جنت کی بشارت دینا دلیل ہے کہ تما م اصحاب اپنے اجتہاد میں حق پر ہیں۔ وکل الصحابه ائمهء مامونون غیر متهمین فی الدین وقد اثنی الله ورسوله علی جمیعهم وتعبدنا بتوقیرهم وتعظیمهم وموالاتهم والتبری من کل من ینقص احدا منهم

اشعری کا دوسرا نظریہ فقہاء کا اجتہادی نظریہ صحیح اور برحق ہونا ہے۔ انہوں نے اس نظریے کو پیش کرکے اہل سنت مذاہب کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے مطابق ہر مجتہد برحق ہے اور تمام مجتہدین حق کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان کے درمیان اصولی احکام میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ فروعی احکام میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان دو نظریات کی وجہ سے اہل سنت مذاہب کے درمیان سیاسی اور اجتماعی اتحاد کی راہ ہموار ہوئی لیکن اس نظریے کی شدت سے مخالفت بھی کی گئی۔ ابو منصور ماتریدی کے پیروکاروں نے مکتب اشعری کی اس کوشش کو ناکام قرار دیا اور عوام کے عقائد پر توجہ کرنے اور ان کی حفاظت کے سلسلے میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ البتہ اس کے باوجود مکتب اشعری کو وسعت ملی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے بڑے حصے میں اہل سنت کا قابل قبول مذہب بن گیا۔ مکتب اشعری کی اہمیت اس لحاظ سے بھی قابل ملاحظہ ہے کہ یہ مذہب اور اس کا موسس ابوالحسن اشعری اہل سنت کے تاریخی تجربات اور نظریاتی افکار کو منظم مجموعے کی شکل میں فقہی اور کلامی نظریات کے اندر جذب کرنے میں کامیاب ہوئےاس طرح اہل سنت کے فقہی سنن  اور تجربوں کو کلام کے لئے مورد استفادہ قرار دیا۔ اشعری نظریے کی بنیاد اس طرح ہے کہ فقہی استنباط میں عقل کے مقام و مرتبے کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اہل رائے مذہب سے زیادہ اہل حدیث کی جانب رجحان رکھتا ہے۔ اس طرح کا مبنا اختیار کرنے کے نتیجے میں صحابہ اور تابعین کے تاریخی تجربے بھی احکام پر قائم ہونے والے دلائل کا حصہ بن گئے اور ان کے درمیان موجود تضاد اور تعارض فقہی استنباط میں تعارض کا باعث بن گیا لیکن چونکہ عبادات کے احکام میں پیش آنے والا تعارض برطرف کرنا ممکن تھا جس کے لئے صحیح نظریے سے تمسک کیا جاتا تھا البتہ یہ امر سیاسی امور میں تعارضات اور تضادات کو حل کرنے کا مناسب طریقہ نہیں ہے۔ فقہ مذاہب میں قدرت اور اہل سنت فقہ الخلافہ کا رابطہ زیادہ تھا جوکہ لازمی امر تھا لیکن فقہی تکثر گرائی کے نظریے کے برخلاف اہل سنت فقہ نے عملی میدان میں ایسا تجربہ کرلیا جس کا مقدمہ خلافت کی قوی طاقت نے پہلے آمادہ کرلیا تھا۔ فقہ الخلافہ کے مفہوم کی ساختار میں سیاسی قدرت کی تاثیر دوسرے فقہی میدانوں سے زیادہ تھی۔ حکمرانوں اور فقہی مکاتب کی طاقت کے درمیان رابطے کے بارے میں تحقیقات انجام دی گئی ہیں ان میں سے ایک وہ مختصر کتابچہ ہے جو  تاریخیه فی حدوث المذاهب الاربعه کے نام سے معروف ہے۔

فقہ الخلافہ کی تاسیس میں تاخیر

فقہ الخلافہ کی تاسیس کے سلسلے میں ان حالات اور شرائط کے بارے میں تحقیق کرنا چاہئے  فقہی مذاہب کا دارومدار سیاسی قدرت سے وابستگی پر تھا بنابراین فقہی تاملات کو ایک سمت اور جہت مل گئی۔ قدرت اور طاقت پر مبتنی ہونے کی وجہ سے اہل سنت مذاہب حکومت کے بارے میں احکام صادر کرنے سے عاجز تھے۔ سیاسی قدرت اور مطلق العنان حکومت کی وجہ سے فقہی فتوای اور امر و نہی قبول کرنے کا تصور بھی نہیں تھا۔ فقہ الخلافہ کی تشکیل و تاسیس میں تاخیر کی بنیادی وجہ یہی تھی اور اس لحاظ سے، شاید خلافت کے فقہ کے شعبے میں، ہم ایک قسم کی تاریخ اور سلبی بنیادوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں جو اہل سنت  مکاتب میں حکومتی فقہ کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہیں، یا کم از کم  قیام میں تاخیر کا سبب بنی ہیں۔ خلافت کے فقہ کی سلبی بنیادوں پر بحث ایک اور محل  کی متقاضی ہے، لیکن ا س نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ خلافت کی فقہ اپنی خاص خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ اقتدار کی تاریخ سے جڑی رہی ہے۔ اسی دلیل کی بناپر اس کا سنی فقہ کے دیگر شعبوں سے اہم اختلاف ہے۔

فقہ کے غیر حکومتی میدان ایک واضح موضوع رکھتے ہیں اور فرضی مکلف کی بنیاد پر اور مختلف حالات میں مکلف کے احکام کا جائزہ لیتے ہیں اور اس لحاظ سے وہ اصولی طور پر غیر تاریخی ہیں، دوسرے لفظوں میں ان کے اصول اور فروع  ہیں۔ – اصول، اور فقیہ کا کام استدلال اور تطبیق سازی ہے البتہ فقہ الخلافہ میں حالات کسی حد تک مختلف ہیں۔ اگرچہ اہل سنت کوشش کرتے ہیں کہ فقہ الخلافہ کو صحابہ کی خلافت کے محور پر تعمیر نو کریں اور خلیفہ سے مختص شرائط و خصوصیات کی توضیح کے لئے اس دور کو دلیل کے طور پر پیش کریں اور کلی طور پر تاریخ خلافت کو ان اصولوں کے مبنا پر حاکم قرار دیں۔ عملی طور پر خلافت کے امور میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہمیشہ فقہ الخلافہ پر مقدم رہی ہیں اور ان حالات میں مخصوصا مخالف افکار کے بارے میں خلافت کی مشینری کے غیض و غضب کو مدنظر رکھتے ہوئے فقہ الخلافہ میں علمی ترقی اور تفقہ کے بجائے زیادہ تر موجودہ حالات کی تائید پر توجہ مرکوز رہی ہے۔

عباسی دور حکومت میں فقہ الخلافہ کے باب میں تحریر شدہ کتابوں میں سے دو کتابیں اہم ہیں؛ الاحکام السلطانیۃ یہ کتاب ابن  فراء حنبلی اور ابوالحسن ماوردی شافعی نے تحریر کی ہے جو کہ اہل سنت کے درمیان کافی مشہور ہے۔ ان کتابوں میں خلافت اور امامت کی تشکیل میں دو امور کو مورد توجہ قرار دیا گیا ہے

1۔ اہل حل و عقد کے اختیار سے خلافت کی تشکیل

2۔ سابق خلیفہ کی جانب سے تقرری

دو طریقوں میں امامت کی تشکیل کو صحابہ کے عمل سے استناد کیا گیا ہے۔ ماوردی اور ابن فراء نے وزارتوں کی ساختار اور ڈھانچے کے بارے میں بحث کی ہے جو ایران میں اسلامی حکومت کی تشکیل  کے بعد خلافت میں خاص مقام کا حامل ہوا۔ ان دو حنبلی اور شافعی فقہاء نے خلیفہ اور سلطان کے درمیان روابط کی برقراری کے لئے وزارت تفویض کا نظریہ پیش کیا۔

ابوالحسن ماوردی لکھتے ہیں: فاما وزاره التفویض فهو ان یستوزر الامام من یفوض الیه تدبیر الامور برایه وامضاءها علی اجتهاده… وهو یکون من اهل الکفایه فیما وکل الیه من امر الحرب والخراج, خبره بهما ومعرفه بتفصیلهما وعلی هذا الشرط مدار الوزاره وبه تنتظم السیاسه

جیسا کہ ابن فراء اور ماوردی کے استدلال سے واضح ہورہا ہے کہ اہل سنت سیاسی فقہ وزارت تفویض کا نظریہ صرف اہل سنت سیاسی نظام میں سلطان کے عہدے کی توجیہ اور استحکام کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ واضح ہے کہ اہل سنت سیاست میں سلطان کی موجودگی مطلق العنان حیثیت سے ہےاور وزارت تفویض بھی متعارف کرانے کا مقصد صرف اس کی مطلق العنانیت کی تکمیل ہے۔ کوئی بھی امیر فوجی اور عسکری طاقت کے بل بوتے پر خلیفہ کی سرزمین پر حکومت اور علاقے کی سیاست کو اپنے کنٹرول میں لے سکتا ہے۔

3۔ سنی سیاسی فقہ کا تیسرا دور یا نئے نظریات کا دور، پرانی  فقہ الخلافہ کے برعکس جس میں اختیار اور اطاعت کے دو عناصر پر زور دیا گیا تھا، سنیوں کے نئے نظریات میں عام طور پر جمہوری رجحانات ہوتے ہیں۔ اور اس لیے روایتی خلافت فقہ سے تضاد اور ٹکراؤ قابل فہم ہے۔ درج ذیل سطور میں ہم ان نظریات کی تاریخی اور مذہبی بنیادوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

الف۔ تاریخی پس منظر جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، پرانی سنی خلافت کی فقہ اس دور کی پیداوار ہے جو اسلام کی ابتدائی حکومتوں سے متاثر تھی، لیکن سنیوں کے نئے نظریات عام طور پر اس تاریخی دور سے جنم لیتے ہیں جب اسلامی معاشرہ تبدیلی کی راہ پر گامزن ہوا ۔ یہ ارتقاء جس کا بتدریج عمل بہت عرصہ قبل حکومت عثمانیہ میں شروع ہو چکا تھا، پہلی جنگ عظیم کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت نے خلافت اور فطری طور پر روایتی خلافت فقہ کے خلاف شکوک و شبہات کی لہر کو جنم دیا۔

ان تبدیلیوں کے نتیجے میں، جو مغربی تہذیب اور سیاسی افکار کے غلبے اور جمال الدین اسدآبادی کے افکار کے اثرات پر مبنی تھیں، نئے سنی افکار تین اہم رجحانات کے تحت مرتکز اور پھیل گئے۔ ان رجحانات کو تین نظریات کے عنوان سے درجہ بندی کیا جا سکتا ہے: سیکولرازم کا نظریہ، اسلامی حکومت کا نیا نظریہ، اور وہ نظریہ جو اسلام میں کچھ سیاسی اصولوں کے وجود کو تسلیم کرتا ہے، مذہب اور سیاست کے دو شعبوں کی نسبتا آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔ اس مرحلے میں ہم ان نظریات کی مذہبی بنیادوں اور عمومی خصوصیات کی طرف اشارہ کریں گے۔

ب۔ نئے نظریات کی مذہبی بنیادیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، سنیوں کے نئے افکار بنیادی طور پر ان مسائل اور مشکلات  کی عکاسی کرتے ہیں جن کا سامنا سلطنت عثمانیہ کو 1917-1924 میں ہوا اور آخر کار خلافت کی علیحدگی اور خاتمے کا باعث بنی۔ خلافت عثمانیہ کے گذشتہ کردار سے بیزاری، ریاست اور جدید اقوام کی عالمگیریت کی لہر اور ڈاکٹر حامد عنایت کے مطابق مغرب کی فاتح تہذیب کی نظریاتی بنیادوں کی طرف عربوں کا نفسیاتی اور علمی جھکاؤ تین بنیادی عوامل تھے۔ جس کی وجہ سے خلافت کے فقہ کے نظریات پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آئی۔ سیاسی فکر کے میدان میں اس عبوری عمل میں رفتہ رفتہ ان نظریات کے مطابق نئی مذہبی بنیادیں قائم ہوئیں۔ ان بحثوں کا بنیادی محور حکومت کے بارے میں ایک نظریہ پر زور دینا ہے، جسے اسلامی خلافت کے طویل عرصے میں ہمیشہ مستند خلافت کے غالب نظریہ کے آگے بڑھوتری سمجھا جاتا رہا ہے۔

علی عبدالرزاق اس حوالے سے رقمطراز ہیں: وهناک مذهب ثان قد نزع الیه بعض العلماء وتحدثوا به ذلک هو ان الخلیفه انما یستمد سلطانه من الامه, فهی مصدر قوته, وهی التی تختاره لهذا المقام.

عبدالرزاق مزید اشارہ کرتے  ہیں کہ اہل سنت حیات کے نئے دور میں قوم کی خودمختاری کے نظریہ کا دفاع کرنے والا سب سے اہم مقالہ خلافت اور قوم کی بالادستی کا معاہدہ ہے جسے ترکی کی قومی اسمبلی نے قوم کے دفاع میں شائع کیا تھا۔اس مقالےکے علاوہ دو مزید مقالے بھی ہیں جن کا عنوان ” الاسلام واصول الحکم و الخلافه او الامه العظمی” ہے۔ان رسالوں میں تین جدید نظریات کی اصلی اور اساسی متن تشکیل پائی ہے۔

1۔ اسلامی حکومت کے مقررہ اصول اور وقتی شکل

خلافت کے بحران کے بعد جو اہم ترین نظریات تجویز کیے گئے تھے اور اسلامی ریاست کا جائزہ لینے کی ضرورت تھی ان میں وہ نظریہ بھی تھا جو پہلی بار 1922 میں کتاب خلافت اور بالادستی میں شائع ہوا تھا۔ یہ رسالہ خلافت اور بادشاہت کے درمیان  علیحدگی کے بارے میں ترکوں کے فیصلے کا دفاع کرنے اور نئی ترک قومی اسمبلی کے ذریعے خلافت کے خاتمے کی تیاریوں کے لیے مرتب اور تقسیم کیا گیا تھا۔ اس مقالے کا عربی ترجمہ عبدالغنی سنی بکر نے 1924 میں قاہرہ سے شائع کیا۔ رسالہ “الخلافه و سلطه الامه”  میں درج ذیل نکات پر زور دیا گیا ہے۔

الف) اسلام میں مذہب اور سیاست کے درمیان تعلق کے باوجود، ان دونوں شعبوں کو نسبتا آزادی حاصل ہے۔

ب) خلافت ایک مذہبی مسئلہ سے زیادہ دنیوی اور سیاسی معاملہ ہے۔

ج) دین اسلام نے صرف چند سیاسی اصول پیش کیے ہیں جو متعین اور غیر قابل تبدیل ہوں۔

د) سیاسی نظام کی حکومت اور انتظامیہ کی شکل غیر مذہبی، سیاسی اور اس لیے تاریخی اور تبدیلی کی زد میں ہوتی ہے۔

ہ) حکومت کی شکلوں کی تبدیلی مقررہ مذہبی اصولوں سے شروع ہوتی ہے االبتہ ان اصولوں کے ماتحت اور ان کا لحاظ بھی کیا جاتا ہے۔

و) اس طرح اسلامی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جس  کے دینی اصول ثابت اور شکلیں تاریخی اعتبار سے متغیر ہیں

مندرجہ بالا نکات رسالہ “الخلافه و سلطه الامه ” میں مذکوردلائل پر مشتمل ہیں۔ اس مقالے میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خلافت ایک ثانوی فقہی مسئلہ ہے اور اس کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے، مزید کہا گیا ہے کہ خلافت مذہبی سے زیادہ دنیوی اور سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق مصلحت سے ہے۔ اور بعینہ یہی ہے کہ شرعی نصوص میں خلافت کے بارے میں کوئی تفصیلی بحث نہیں ہے اور نہ ہی خلافت و خلافت کے مفصل معیار و شرائط قرآن کریم اور احادیث نبوی میں مذکور ہیں۔ اگر مسئلہ خلافت، جیسا کہ بعض کا خیال ہے، دین کے بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہوتا اور مذہب پوری طرح سیاست کے بارے میں اظہار نظر کرتا  تو رسول اللہ ﷺ اس حوالے سے صراحت کے ساتھ بیان کرتے حالانکہ انہوں نے خاموشی اختیار کی ہے۔

یہ مقالہ فوری طور پر اس وہم کو دور کرتا ہے کہ اس میں خلافت کے حوالے سے کسی شرعی متن کی موجودگی کا انکار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں بعض احادیث نبوی منقول ہیں، لیکن خلافت کے مسائل (بشمول خلافت کی کیفیت ، خلیفہ کی تقرری ، خلیفہ اور خلافت کی عمومی شرائط اور امت کی ذمہ داری) کے بارے میں کوئی حدیث یا آیت نہیں آئی: ہم شیعوں کے جوابات اور ان کے  سیاسی افکار کے بنیادوں پر ایک اور جگہ بات کریں گے۔ یہاں ہماری کوشش صرف اہل السنۃ کے نئے نظریات اور ان میں موجود اہم اصولوں کی درجہ بندی کرنا ہے۔بہرحال رسالہ” الخلافه و سلطه الامه ” میں اسلامی حکومت کے مذہبی اور مقررہ اصولوں کے طور پر درج ذیل اصولوں کا ذکر کیا گیا ہے:

الف۔ ترکی کی قومی اسمبلی کی حکومت کے قیام کی ضرورت کا اصول مندرجہ بالا مقالے میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام مذہب اور سیاست کا ایک جامع مذہب ہے۔اس اجتماع کا ایک پہلو حکومت کے قیام یا تنصیب کی ضرورت پر زور دینا ہے یا قدیم اصطلاح میں امام کو متعین کرنا۔اہل سنت کے مطابق حکومت تشکیل دینا واجب ہونے پر اجماع ہے اس اجماع کی قوی ترین دلیل اور مستند وہ شرعی قاعدہ ہے جس کو “قاعدہ لا ضرر” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اسلام میں خلافت یا حکومت کا قیام ذاتی طور پر مقصود اور واجب نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے واجب کے لئے مقدمہ کے طور پر واجب ہے یعنی عدالت کی ترویج اور تکلیف کو ختم کرنے کے لئے واجب ہے۔ اس طرح  مندرجہ بالا ہدف حاصل کرنے کے بعد شریعت اسلامیہ کو حکومت کی شکلوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں، قطعی طور پر اس معنی میں کہ حکومت کی شکل شریعت کا داخلی مقصد نہیں ہے، حاکم شریعت اور رسول معظم ﷺ نے اس حوالے سے سکوت اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اس معاملے پر اور کوئی خاص ہدایت نہیں دی ہے۔ حکومت کی شکل ایک تکنیکی مسئلہ ہے اور وقت کے تقاضوں سے مشروط ہے جس کا تعین امت اسلامیہ شوریٰ کے اصول کے مطابق کرتی ہے۔

ب۔ اصول شورا

رسالہ” الخلافه و سلطه الامه ”  کے مصنفین کونسل کی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں اصول کونسل پر عمل کرنا  ایک اصولی قانون ہے۔خلیفہ کو ہر حالت میں امت کے ساتھ مشورہ کرنا چاہئے۔ اسلامی خلافت کو حقیقی خلافت (راشدین) یا رسمی خلافت (بقیہ خلافت کے ادوار) میں تقسیم کرتے ہوئے، مقالے کا خیال ہے کہ شوریٰ کے اصول کو زیادہ اہم مقام حاصل ہے، خاص طور پر دوسری قسم کی حکومت جس میں  انصاف اور ضروری شرائط نہیں ہیں۔ رسالے میں شورا ضروری ہونے پر دلیل بیان کرنے کے بعد اس کی مکینزم کے بارے میں تحریر ہے: علی انه لم یبین طرز المشوره وشکلها لا فی القرآن الکریم ولا فی الاحادیث الشریفه بل ابقیت علی اطلاقها, ای انها ترکت الی مقتضیات الازمان

سیاسی نظم، حکومت کی انتظامی تنظیم، اور اس کے نتیجے میں مشاورت کا طریقہ کار، فطرتاً قابل تغیر قوانین ہیں جو حالات اور وقت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ اس قسم کے احکام جو وقت کے تقاضوں اور لوگوں کے رسوم و عادات کے مطابق بدل جاتے ہیں، اہل السنۃ فقہ کی زبان میں زمانی احکام کہلاتے ہیں۔ اہل سنت کے خیال میں وقتی احکام کو ہر دور کے حل و عقد کے لوگوں کے مفادات اور رائے پر چھوڑ دینا یقیناً حکمت اور صحیح اور اسلامی شریعت کی روح کے مطابق ہے۔

ج۔ اصل وکالت

ترک مجلس کی تشریح کے مطابق خلافت معاہدہ کی ایک قسم ہے اور اہل سنت کی اکثریت کا خیال ہے کہ خلافت کو تشکیل دینے میں سب سے اہم چیز مشاورت ہے، یعنی مشاورت سے انتخاب اور بیعت کرنا۔ مذکورہ بالا مقالہ خلیفہ کے بدلنے کے طریقہ کار اور ولی عہد کے مسئلہ کو جو کہ قدیمی  فقہ میں بہت اہمیت رکھتا تھا، کو پس پشت ڈالتا ہے اور اسے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ والحاصل انه یوجد طریقان للخلافه, احدهما بیعه اهل الحل والعقد, والثانیه استخلاف الخلیفه بذاته من یخلفه. الاولی هی الاصل والعمده, والاخری هی فرع لها.

اسلامی حکومت میں وکالت کے قائل ہونے  کے اہم تقاضے ہیں:

 اول: وکالت کے قاعدے کے مطابق حکومت میں وراثت  ممکن نہیں،

دوم: چونکہ خلیفہ امت کا نمائندہ ہوتا ہے، اس لیے عوام اسلامی حکمران کے اختیارات اور فرائض  اوراس کی حدود کا تعین کر سکتے ہیں۔ لان الوکاله کما یجوز ان تکون مطلقه, یجوز ان تکون مقیده بشروط حسب القاعده الفقهیه, ویکون الوکیل فیها ملزما برعایه قیود موکله وشروطه .

 رسالہ” الخلافه و سلطه الامه ” کے مصنفین مزید کہتے ہیں کہ وکالت کے اصول کے مطابق، لوگ خلیفہ کا انتخاب کرتے وقت قیود  اور شرائط عائد کر سکتے ہیں اور خلیفہ کا انتخاب اس شرط پر کر سکتے ہیں کہ وہ شرائط پوری ہوں۔ اس سلسلے میں اس مقالے میں عبدالرحمٰن بن عوف کی عثمان کی بیعت کا واقعہ دلیل کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ مذکورہ مقالہ اسلامی شریعت میں اہم سیاسی اصولوں کے طور پر مندرجہ بالا تینوں اصولوں کے بارے میں تفصیلی بحث کے بعد ان اصولوں کے اطلاق کے طریقہ کار اور شکلوں کو، جو مختلف طرز حکومت کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، زمانے  پر چھوڑتا ہے۔ ومسئله شکل الحکومه هی من المسائل التابعه لمقتضیات الزمان. وتتعین احکام مثل هذه المسائل بحسب مقتضی الزمان والمصلحه العامه واحوال الناس الاجتماعیه وتتبدل احکامها حسب تطورات هذه الاحوال والبواعث

2۔ ترکی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اسلامی خلافت کے احیاء کا خیال، عرب ممالک جو عموماً مغرب کے زیر اثر تھے، نے قومی حکومت اور اس کے انتظامی اور پارلیمانی معاملات میں داخل ہونے کا تجربہ کیا۔ ایسے حالات میں خلافت کی سرنوشت اور عرب معاشروں میں مذہب اور ریاست کے تعلق کی ایک نئی وضاحت کی ضرورت پر بحث شروع ہوئی۔ ان موضوعات میں سب سے مشہور موضوع ان مضامین کا سلسلہ ہے جو محمد رشیدرضا نے 1922 میں المنار میگزین میں شائع کیا تھا ۔ یہ مقالے 1926 میں “الخلافہ یا الامامۃ العظمی” کے نام سے دوبارہ جمع کرکے نشر کئے گئے۔ سنی مکتب فکر میں، امامت عظمی کی اصطلاح سے مراد سیاسی قیادت کا وہ مقام ہے، جو الامامۃ الصغری یا جماعت کی نمازوں کی امامت کا متقابل معنی ہے۔ تاہم رشید رضا قومی حکومت کی توسیع اور اسلامی معاشروں میں قوم پرستی کے نتائج کے بارے میں فکر مند تھے۔ اور ان تحریروں کا بنیادی مقصد اسلامی حکومت یا خلافت کی طرف لوٹنا تھا۔ اس نظریاتی واپسی میں انہیں دو اہم نکات پر غور کرنا ضروری تھا: الف) تاریخی خلافت پر تبصرہ اور خلافت کو دو طرح کی خلفائے راشدین کی خلافت اور طاقت کے زور پر ملنے والی خلافت میں تقسیم کرنا۔

رشید رضا خلافت راشدین کو صحیح خلافت کا ایک مثالی نمونہ قرار دیتے تھےاور اپنی نظریاتی (فقہی) کوششوں میں اس قسم کی خلافت کو زندہ کرنے اور اس کے ستونوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف وہ اس تاریخی خلافت پر تنقید کرتے تھے جو معاویہ سے شروع ہوئی اور خلافت کے خاتمے تک جاری رہی۔ 

ب۔ علاوہ براین رشید رضا اپنی مورد نظر خلافت یعنی خلافت راشدہ کو اپنے زمانے میں بڑھنے والی قوم پرستی سے ہم آہنگ کرنے پر مجبور تھے۔ یہاں اسے نئے مسائل کا سامنا ہے جو رشید رضا کی سیاسی سوچ کو پرانے خیالات سے ممتاز کرتے ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے۔

رشید رضا کے سیاسی نظریات کے ارکان

1۔  سیاست دین کا جزء ہے اور اسلام کامل ترین دین ہے جس میں دنیا و آخرت اور دین و سیاست سب جمع ہیں۔

2۔ حکومت اسلامی کے مخصوص عناصر اور خصوصیات ہیں جو حکومت کی دوسری انواع کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہیں۔ دین اسلام نے جس حکومت کی طرف اشارہ کیا وہ اس زمانے کی جمہوریتوں کی مانند ہے البتہ دونوں میں کچھ فرق بھی ہے۔

3۔ اسلامی حکومت کی ایک مقررہ اور ثابت  شکل ہے جو مخصوص خصوصیات اور شرائط کے ساتھ ایک امام کے ذریعے مسلمانوں کی قیادت پر نگرانی کرتی ہے۔

4۔ امامت اور حکومت کے اتحاد کا اصول یعنی  مسلمان اس اصول پر متفق ہوں بنابراین اگر ایک سے زیادہ خلافت موجود ہیں تو اس کی وجہ ان کا مورد احتیاج ہونا ہے جو کہ وقتی ہے۔

5۔  چونکہ مسلمان مذہب اور نسل کے لحاظ سے بے شمار ہیں، ہر قوم کا ایک عارضی خلیفہ ہو سکتا ہے۔

6۔ رشیدرضا مسلم اتحاد کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، لہذا وہ منقسم مسلم کمیونٹی کو ایک متحد اسلامی حکومت میں تبدیل کرنے کے اقدامات کا مشورہ دیتے  ہیں۔

رشید رضا کے نظریات کے اصول اور بنیادیں

رشید رضا اپنے نظریاتی اور کلامی مبادی میں اہل سنت فقہ الخلافہ سے نزدیک ہیں لہذا بیشتر مباحث میں ابوالحسن ماوردی کے نظریات سے استفادہ کرنے کے علاوہ “الخلافہ او الامامہ العظمی” سے استناد کرتے ہیں۔ ماوردی کے استدلال کی بنیادوں اور اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے، وہ نئی سیاسی فکر کی کچھ آراء اور عناصر کی وضاحت اور ان سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی زندگی میں مقبول تھے۔ عوام کی خودمختاری، سیاسی جماعتوں کی پوزیشن اور آخر میں اسلامی معاشروں میں تکثیری ریاست جیسے مسائل ان نئے سوالات میں سے ہیں جن کا جواب راشد رضا نے فقہ خلافت کی روایتی بنیادوں کی بنیاد پر تلاش کیا ہے۔ رشیدرضا کی سیاسی فکری حالت ان کے عہد کے غیر متوازن حالات کی عکاس ہے۔ وہ ماوردی خلافت کی فقہ میں لازمی طور پر عناصر اور سوالات کو متعارف کراتے ہیں، جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے نئے سوالات ہیں۔ اور اس لحاظ سے رشید رضا کی سیاسی فکر ایک قابل قدر کاوش ہے۔وہ ایک طرف اقوام اور قبائل کی تعداد کے مطابق متعدد خلافت کو جائز سمجھتے ہیں اور دوسری طرف خلیفہ کے قریشی ہونے پر بھی تاکید کرتے ہیں۔ وحدت اسلامی کی بحث کےساتھ ساتھ عربی زبان کی ترویج پر بھی زور دیتے ہیں اسی طرح سیاسی جماعتوں کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی سیاسی فکر میں ان جماعتوں کے کردار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دیتے ہیں۔

مندرجہ بالا نظریاتی تضادات کے باوجود”الخلافہ او الامامہ العظمی”  کا ایک اور مطالعہ پیش کیا جا سکتا ہے، جس کے مطابق رشیدرضا کے افکار اور روایتی فقہ الخلافہ کے درمیان بنیادی تعلق پر زور دیتے ہوئے اختلافات اور ان کے کام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بخوبی ملاحظہ جا سکتا ہے کہ رشید رضا پرانی خلافت فقہ کی کلامی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے اس کے ایک ایسے پہلو پر زور دیتے ہیں جسے خلافت کی طویل تاریخ میں نظر انداز کیا گیا تھا۔وہ خلیفہ بننے کی اصلیت کے بجائے خلیفہ کے انتخاب میں اہل حل و عقد کے کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ ایسا نکتہ ہے جو” الخلافہ و سلطہ الامہ ” میں بھی مشاہدے میں آتا ہے۔ ذیل میں ہم اس نظریے کے اصول کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛

الف۔ خلافت کے لازمی ہونے پر اجماع

خلافت اور اس کی ذمہ داری کی بحث میں حکومت کے اصول کے علاوہ رشیدرضا حکومت کی قسم یا شکل کے بارے میں بھی رائے رکھتے ہیں اور محمد العمارہ نظریے کے برخلاف وہ مسلمانوں کے اجماع کو کبھی حکومت کی تشکیل کے اندر محدود نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ عقل کے بجائے شرع کو اس اجماع کی دلیل اور بنیاد قرار دیتے ہیں اسی بناپر خلافت ذاتی طور پر واجب ہے چنانچہ خلیفہ کی بیعت کے بغیر موت کو جاہلیت کی موت قرار دیا گیا ہے: ومن مات ولیس فی عنقه بیعه مات میته جاهلیه۔ اہل امامت اور اہل اختیار کی شرائط اور معیار کے بارے میں رشید رضا وہی رائے رکھتے ہیں جو قدیم “فقہ الخلافہ” میں پیش کیا گیا ہے۔

ب۔ شورا ضروری ہونے کا اصول

شوری کے فقہی حکم کے بارے میں اہل سنت میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیں  جبکہ بعض شوری کو واجب سمجھتے ہیں۔ واجب سمجھنے والے بھی تفصیلات میں اختلاف رکھتے ہیں۔ اس کے بارے میں کسی اور موقع پر تفصیل سے بحث کریں گے ۔ اس مرحلے پر ہم فقط اس نکتے کی طرف اشارہ کریں گے کہ رشید رضا شورا کے واجب ہونےاور امامت تشکیل پانے  کے لئے مشورہ لازمی ہونے  پر تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ ماوردی اور کلی طور پر قدیمی “فقہ الخلافہ” سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح رشید رضا ولی عہد کی تعیین میں خلیفہ کی مطلق العنانیت کو بنیاد سے ہی ختم کرتے ہیں اور اس کے برعکس خلیفہ کے بجائے اہل شورا کو تقرری اور معزولی کے لئے ذمہ دار سمجھتے ہیں: اقول, واهم مایجب علی الامام المشاوره فی کل ما لانص فیه ولااجماع صحیحا یحتج به, او ما فیه نص اجتهادی غیرقطعی, ولاسیما امور السیاسه والحرب, علی اساس المصلحه العامه وسبب هذا الامر للرسول(ص) بالمشاوره فی امر الامه جعله قاعده شرعیه لمصالحها العامه, فان هذه المسائل کثیره الشعب والفروع لایمکن تحدیدها وتختلف باختلاف الزمان والمکان

رشید رضا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہاں تک کہ رسول اکرم ﷺ نے بھی وحی کے علاوہ دوسرے امور کے بارے میں مشورے سے کام لیا ہے اور یہ آئندہ نسلوں کے لیے سنت بنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کی علت یوں بیان کرتے تھے: انتم اعلم بامر دنیاکم

یعنی دنیوی امور میں خود کو مشورے کی طرف محتاج سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام اکثر پوچھتے تھے کہ آیا رسول اللہ ﷺکی رائے وحی کا نتیجہ ہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے، اور دوسری صورت میں صحابہ کرام نے اپنے مشورے سے خیالات پیش کرتے تھے۔ رشید رضا نے اپنی بات پر دلیل کے طور پر حباب ابن منذر کے واقعے سے استناد کیا ہے۔ آیت وامرهم شوری بینهم کی تفسیر میں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شوری ضروری ہونےکے لحاظ سے پیغمبر اسلامﷺاکیلے کبھی بھی امت کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تھےکیونکہ یہ امر مختلف اوقات اور زمانوں میں عمومی مصالح کی تبدیلی کے ساتھ سازگار نہیں تھا: وبیننا الحکمه فی ترک الرسول(ص) نظام الشوری للامه وعدم وضع احکام لها, وملخصه ان النظام یختلف باختلاف احوال الامه فی کثرتها وقلتها وشئونها الاجتماعیه ومصالحها العامه فی الازمنه المختلفه, فلایمکن ان تکون له احکام معینه توافق جمیع الاحوال فی کل زمان ومکان. ولو وضع لها احکاما موقته لخشی ان یتخذ الناس مایضعه لذلک العصر وحده دینا متبعا فی کل حال و زمان وان خالف المصلحه, کما فعلوا فی الاخذ بظواهر مبایعه ابی بکر وعثمان واستخلاف عمر

ج۔ اہل حل و عقد کی ولایت

رشید رضا اہل حل و عقد کے لئے بہت اہمیت کے قائل ہیں اسی وجہ سے ان کو اہل شورا اور اولی الامر کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق امامت اہل حق و عقد کی بیعت سے ہی وجود میں آتی ہے۔ خلیفہ کی جانشینی کو بھی اسی صورت میں شرعی سمجھتے ہیں جب اہل حل و عقد کی رضایت موجود ہو۔ اُمت کی حاکمیت کی بحث میں اُن اقوال کا تذکرہ کرنے کے بعد کہ عمومی حکمرانی امت کو حاصل  ہے اور خلیفہ کو نصب کرنا اور ہٹانا امت کی ذمہ داری ہے،رشید رضا کہتے ہیں کہ امت سے مراد اہل حل و عقد ہی ہیں اور ان کے اثرونفوذ اور دوسروں پر برتری کی وجہ سے ان کو امت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

رشید رضا اہل حل و عقد کے بارے میں اپنے نظریے کی تقویت کے لئے فخر رازی کی تفسیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فخر رازی نے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اولی الامر سے مراد اہل حل و عقد ہی ہیں جو امت کی طاقت اور قدرت کی علامت ہیں۔ رشید رضا “رسالہ الخلافہ و الامامہ العظمی” میں امت کی حاکمیت اور اہل حل و عقد کی ولایت کے بارے میں رقمطراز ہیں: فعلم مما تقدم ان اهل الحل والعقد هم الروساء الذین تتبعهم الامه فی امورها العامه, واهمها نصب الامام الاعظم وکذا عزله اذا ثبت عندهم وجوب ذلک ومن یملک التولیه یملک العزل

د۔ اصل بیعت

بیعت نظام خلافت کے اصول میں سے ہے مخصوصا اس تفسیر کے مطابق جس میں اہل حل و عقد کی اہمیت پر زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ بیعت ایک معاہدہ ہے جو مشورہ کے بعد طرفین کے درمیان انجام پاتا ہے جس میں ایک طرف اہل حل و عقد اور دوسری  طرف منتخب امام ہوتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق منتخب امام پر لازم ہے کہ حق اور عدالت کے مطابق شریعت کے احکام پر عمل کرے اور اس کے عوض اہل حل و عقد بھی امام کے شرعی فیصلوں میں اس کی اطاعت پر مجبور ہیں۔ پس بیعت ایک دو طرفہ معاہدہ ہے جس میں اہل حل و عقد کچھ شرائط معین کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اہل حل و عقد اور عوام امام کے شرعی اوامر کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم اور فرض سمجھتے ہیں۔

رشید رضا بیعت میں دو اہم نکات کو مورد توجہ سمجھتے  ہیں ؛ پہلا یہ کہ معاشرے میں اتحاد کا فقدان ہوتو ہر علاقے کے اہل حل و عقد اپنے لئے حاکم منتخب کرکے اس کی بیعت کرسکتے ہیں البتہ ایسی صورت میں حد الامکان خلیفہ کی شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ اہل حل و عقد کی حیثیت کو مضبوط بناکر اس گروہ کی تربیت اور اصلاح کو امت اور حاکم کی اصلاح کی جائے۔ وہ اس بزرگ وظیفے کو نئی جماعت کے قالب میں تحلیل کرتے ہیں البتہ ان مسائل اور نظریات کو قدیمی  فقہ الخلافہ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں متعدد نظریاتی مشکلات کا شکار بھی ہیں۔

3۔ سیکولرازم کا نظریہ

عربی میں سیکولرازم کا مطلب سیکولرازم اور خاص طور پر سیاست کی سیکولرائزیشن ہے۔ سیاسیات کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ تحریکیں اور نظریات ہیں جو مذہب اور سیاست کی علیحدگی کا نظریہ پیش کرتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں سیاست اور حکمرانوں کے احترام کو ختم  کرتے ہیں۔ تاریخی بنیادوں کے لحاظ سے سیکولر تحریکیں اور افکار (سیکولرازم) سب سے پہلے عیسائی معاشرے میں شروع ہوئے اور اسلامی معاشروں میں مغربی تہذیب کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ان معاشروں میں بھی داخل ہوکر پھیل گئے۔اہل سنت میں سب سے پہلے علی عبدالرزاق نے  خلافت عثمانیہ کے انحلال اور بحرانی سالوں میں سیکولرزم کا نظریہ پیش کیا۔ عبدالرزاق کے نظریات کی تدوین کے حوالے سے تحقیقات ہوئی ہیں جو کہ توجہ کی قابل ہیں البتہ جس اہم نکتے نے مختصر رسالہ “الاسلام و اصول الحکم” کو اہمیت عطا کی ہے  وہ اس رسالے کی زبان اور فقہی سیاق اور فقہ الخلافہ کے بنیادی مفروضات کے ساتھ تعارض ہے۔

عبدالرزاق نے اس نظریاتی بحث میں بھی بھرپور حصہ لیا  جو اس دور میں مذہب اور سیاست کے درمیان تعلقات اور حکومت کی شکلوں کے سلسلے میں اسلامی ممالک کی پوزیشن کے حوالے سے جاری تھی۔

عبدالرزاق کے نظریے کے ارکان

1۔ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا اور مستقل ہیں۔

پیغمبراکرمﷺ  سیاست اور حکومت کے لئے نہیں بلکہ صرف رسالت اور وحی و دین پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے

3۔ کتاب و سنت سمیت کوئی بھی اسلامی منابع میں خلافت کے مسئلے پر واضح طور پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔

4۔ مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں “فقہ الخلافہ” کی تاسیس ناممکن بلکہ اس کے لئے کوئی موضوع اور محل ہی موجود نہیں ہے یعنی دین اور سیاست جدا ہونے کی وجہ سے فقہ خلافت ایک متضاد اور ناممکن تصور ہے۔

5۔ چونکہ سیاست اور حکومت ایک انسانی امر ہے لہذا انسانی علوم کی طرف محتاج ہیں۔

عبدالرزاق دین اور سیاست کے درمیان رابطے کے بارے میں نفی میں جواب دیتے ہیں۔ وہ فقہ کی ایک تاریخی تحلیل پر اعتماد کرتے ہوئے ان دونوں کے درمیان رابطے کو منقطع کرتے ہیں اور دین کو سیاست سے جدا کرتے ہوئے سفارش کرتے ہیں کہ سیاسی مسائل کو دینی علوم کے بجائے سیاسی علوم میں مورد بحث قرار دینا چاہئے۔ روز نتال اس نظریے کے آثار و نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: علی عبدالرزاق کی جانب سے مسلمانوں کو سیکولر حکومت کی تشکیل کی جانب دعوت کے نتیجے میں خلافت کے بارے میں  رشید رضا جیسے لوگوں کے نظریات کو ختم کردیا گیا اور وہ تنازع عرب دنیا میں منتقل ہوگیا جس کی وجہ سے ترکی میں اسلام نے نقصان اٹھایا تھا۔ انہوں نے اسلامی معاشرے کو حکومتی فکر سے جدا کردیا اور اس سیاسی شعور کے لئے راہ ہموار کی جو شریعت سے عاری ہوکر حکومت کے بارے میں غور و فکر کرے۔ اس مرحلے پر عبدالرزاق کے نظریات کے بارے میں تفصیل سے بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے لہذا بعض نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو انہوں نے “الاسلام و اصول الحکم” کے آخر میں ذکر کئے ہیں۔ عبدالرزاق لکھتے ہی: حقیقت یہ ہے کہ جس خلافت کو مسلمان پیش کرتے ہیں اسلام اس خلافت اور اس کے نتائج سے بری ہے۔ خلافت کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے  اسی طرح قضاوت اور دوسرے مسائل صرف اور صرف سیاسی ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دین ان موارد کو نہ قبول کرتا ہے اور نہ مسترد کرتا ہے بلکہ انسان کو ان مسائل کے حل کا ذمہ دار قرار دیتا ہے تاکہ عقل اور امتوں کے تجربے اور سیاسی قوانین کے مطابق خود حل کرے۔

عبدالرزاق کی کتاب ان جملوں پر ختم ہوتی ہے: دین میں کوئی ایسی بات موجود نہیں جو مسلمانوں اور دوسری اقوام کے درمیان اجتماعی اور سیاسی علوم میں رقابت سے مانع بن جائے یا گمراہی کا شکار خلافت کے قدیمی نظام کے انہدام سے روکے یا عقل انسانی اور اقوام کے تجربات کی روشنی میں حکومت کے بہترین سیاسی اصول کی تدوین و ترتیب سے منع کرے۔

خلاصہ

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، سنی سیاسی فکر نے تین تاریخی ادوار کا تجربہ کیا ہے اور ہر دور کے مطابق اس نے خاص فکری بنیادیں پیدا کی ہیں۔ یہ تین ادوار صحابہ کی نص گرائی، فقہ الخلافہ کی تاسیس اور جدید دور پر مشتمل ہیں۔

1۔ پہلا دور

پہلے دور کی دو اہم خصوصیات تھیں: تاریخی طور پر یہ دور جزیرہ نما عرب کی مقامی روایات پر انحصار کرتا ہے۔ اس روایت کے مطابق اسلامی معاشرے کی اکثریت بااثر لوگوں کے سیاسی عہدوں کی تابع تھی جن میں اصحاب رسول (ص) بھی شامل تھے۔ وہ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور روایات کا حوالہ دیتے تھے۔

اس دور کی دوسری خصوصیت ایک تدوین شدہ  اور مخصوص فکری نظام کا فقدان تھا۔ لہٰذا نظریہ پر عمل کو فوقیت حاصل ہوئی اور یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام کے اختلاف کی وجہ سے متعدد احادیث اور تشریحات وجود میں آئیں اس کے نتیجے میں مختلف اور متضاد کلامی و فقہی عقائد رکھنے والے گروہ پیدا ہوئے۔ ان اختلافات کی توسیع کے ساتھ ساتھ صحابہ کی نص گرائی کا دور تدریجا انتہا کو پہنچ گیا۔

2۔ دوسرا دور

دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب سیاسی مذہبی تھیوری تیار کرنے کی  کوششیں کی گئیں۔ سنیوں (شیعوں اور خوارج کے برعکس جو دائرہ اقتدار سے باہر تھے) کے لیے ضروری تھا کہ وہ معاشرے کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی طاقت کی موجودگی کو اپنے نظریات کی پرچار کے لئے استعمال کریں ۔ اسی وجہ سے اہل سنت کی روایتی فقہ الخلافہ اور حکومت  اور اقتدار پر طاقت کے زور پر قبضے  کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔

3۔ تیسرا دور

اہل سنت قدیمی فقہ الخلافہ کے برخلاف جس کا مبنا اقتداری تھا، ایک تاریخی اور پیچیدہ فکری مرحلے میں ہیں جس میں ایک جانب  مغربی افکار اور تمدن سے متاثر ہیں اور دوسری جانب بعض دلائل کی بناپر تاحال سیاسی میراث اور روایات سے جدائی بھی نہیں ہوئی ہے اس کے  نتیجے میں چنانچہ عرب دنیا میں سترسالہ نظریاتی تنازعات بخوبی نشاندہی کرتے ہیں کہ اہل سنت اپنی سیاسی فکر کے لئے ایک مبنا اور منبع کے طور پر ان تینوں متضاد نظریات میں سے کسی ایک کو اختیار   کرنے میں ناکام ہیں۔

حکومت کی مشروعیت کے بارے میں اہل سنت کے نظریات کا تنقیدی جائزہ

اسلام کی نظر میں حکومت ایک عقلی ضرورت اور لازمی امر ہے اور خوارج کے علاوہ کسی مسلمان فرقے یا دانشور نے اس کے بارے میں شک و تردید کا اظہار نہیں کیا ہے۔ «لا حکم الا لله» کے نعرے کی گونج میں حکومت کا انکار کرنے والے خوارج کو جواب دیتے ہوئے امیرالمؤمنین حضرت علی ؑ نے فرمایا: «انه لابد للناس من امیر بر او فاجر» یعنی لوگوں کے لئے کوئی امیر اور حکمران ہونا چاہئے خواہ نیک ہو خواہ بد۔ پیغمبراکرمﷺ کی رحلت کے بعد انصار اور مہاجر سمیت تمام مسلمانوں کا سقیفہ میں جمع ہوکر مسلمان معاشرے کے لئے حاکم کے انتخاب کے لئے اقدام کرنا دلیل ہے کہ تمام مسلمانوں کے نزدیک حکومت کی تشکیل واجب ہے۔ حکومت کی ضرورت پر مسلمانوں کے درمیان اجماع کے باوجود اس کی مشروعیت اور منابع کے بارے میں اتفاق نظر موجود نہیں ہے۔ پیغمبراکرمﷺ کی رحلت کے بعد یہ بحث وجود میں آئی اور دو بڑے مکاتب فکر اہل تشیع اور اہل سنت کے نظریات کی بنیاد میں بحث ہونے لگی۔  اس تحریر میں حکومت کی مشروعیت کے بارے میں  مکتب اہل سنت کے نظریات اور بعض سنی علماء و فقہاء کے فتاوی پر اجمالی طور پر تنقیداور تبصرہ کیا جائے گا۔

مفہوم مشروعیت

حکومت کی شرعی حیثیت اور اس کی بنیادوں کی بحث نے ایک طویل عرصے سے فلسفیوں، سیاسیات کے ماہرین اور ماہرین عمرانیات کی توجہ مبذول کرائی ہے اور سیاسی فلسفے کے سب سے بنیادی موضوعات میں سے ایک کے طور پر یہ ہمیشہ کلاسیکی تحقیقات کا مرکز رہا ہے۔بنیادی طور پر تحقیق کا محور اس بنیاد پر رہا ہے کہ حکمران کو کس بنیاد پر حکومت کرنے اور سیاسی طاقت کے استعمال کا حق ملا اور عوام نے کس جواز کی بنیاد پر اس حق کو قبول کیا اور دوسرے لفظوں میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ حکمران کس ذریعہ سے آیا ہے اور اس کے جواز کا ذریعہ حاصل کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ اس لیے اہم ہے کہ بنیادی طور پر کسی بھی حکومت یا سیاسی نظام کی بقا اور پائیداری کا انحصار اس نظام کے معیار اور جواز پر ہوتا ہے بنابراین تمام حکومتیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنیادوں پر قائم رہنے کے لئے اپنے سیاسی نظام کی حیثیت کے بارے میں دوبارہ شناخت پیدا کرنے کی طرف محتاج ہیں تاکہ حکمرانی کے حق کو اپنے لئے ثابت کرتے ہوئے طاقت کے استعمال کی شرح کو کم سے کم کیا جائےاسی طرح ہر طرح کے بحرانوں کی روک تھام کے ذریعے معاشرے میں خود کو عوام کے لئے مقبول بنائیں۔ پس مشروعیت کا مطلب یہ ہے کہ طاقت استعمال کرنے کے لئے حاکم کے پاس کیا جواز ہے اور اس کی اطاعت اور پیروی کے سلسلے میں عوام کے پاس کونسی شرعی اور عقلی توجیہ موجود ہے؟

معروف فرانسیسی دانشور میٹی دوگن کہتے ہیں: مشروعیت اس امر پر یقین کرنے کو کہتے ہیں کہ کسی ملک پر حکمران کا اقتدار اور اس کی طرف سے حکم کا صدور جائز ہے اور اس ملک کے باسیوں کی ذمہ داری ہے کہ حکمران کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ تاریخ کے تمام ادوار میں جواز اور شرعی حیثیت کا مسئلہ اہم رہا ہے۔ اس طرح کہ غاصب اور ناجائز حکومتوں نے ہمیشہ ایک قسم کے جھوٹے جواز اور جھوٹوں  لوگوں کے ساتھ اپنی حاکمیت لانے کی کوشش کی ہے۔قدیم یونان کے عالم اور مورخ گزنفون کا ماننا ہے کہ ظلم و جبر پر مبنی نیرانی حکومتوں میں بھی تمام چیزیں مادی طاقت پر مبنی نہیں تھیں ۔ روسو کہتے ہیں کہ طاقت ور ترین حکمران بھی کبھی اس قدر طاقتور نہیں بنا کہ ہمیشہ کے لئے حکمرانی کرے مگر یہ کہ طاقت کو حق سے بدل دیا۔

اسلام میں مشروعیت اور اس کے منابع

مشروعیت کا لفظ شرع سے ماخوذ ہے اور اکثر موارد میں شرع یا شارع سے وابستہ معانی میں استعمال ہوتا ہے اور قانون اور قانونیت جیسے کلمات سے نزدیک ہے۔۔ اسلامی سیاست کے نظریے میں مشروعیت کا مطلب حقانیت اور حکومت کرنے کا حق ہے یعنی حاکم کن بنیادوں اور کس جواز کے ساتھ عوام کے معاملات میں مداخلت کرنے اور ان کی ہدایت کا حق رکھتا ہے؟ لہذا شرعی لحاظ سے جائز حکومت وہ ہے جس کے پاس حاکمیت اور لوگوں پر حکمرانی کا جواز موجود ہو اور ہمیشہ غاصب حکومت کے مدمقابل کھڑی ہوجائے۔ یہاں تک کہ جواز کا مسئلہ اور خاص طور پر اس کی باطل قسم یعنی باطل اور حق کو ملانا اور باطل حکومت کو حق کی زینت سے آراستہ کرنا بھی اسلام میں زیر بحث آیا ہے اور نہج البلاغہ میں اس کی طرف اشارہ  کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر باطل حق کے ساتھ مخلوط نہ ہوجائے تو حق تلاش کرنے والا اسے جانتا ہے اور اگر حق کو باطل کے ساتھ نہ ملایا جائے تو دشمنوں کے پاس طعنے دینے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ لیکن وہ اس میں سے تھوڑا اور اس میں سے تھوڑا سا لیتے ہیں اور اسے آپس میں ملا دیتے ہیں اور یہیں سے شیطان اپنے لوگوں پر غلبہ پانے کے مواقع پیدا کرتا ہے۔اسی بنیاد پر تاریخ میں ہر مطلق العنان حکمران نے اپنی حکومت کو خدائی رنگ دیا۔ مسلم حکمرانوں نے بھی درباری علماء کی خدمات حاصل کرکے اپنی حکومتوں کو جائز ظاہر کرنے کی وسیع عقیدتی  اور نظریاتی کوششیں کی ہیں اسی لئے ہم اہل سنت علماء و فقہاء کی تاریخی اور فقہی کتابوں میں بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ وہ  اکثر موارد میں حق اور حقیقت کو بیان کرنے کے بجائے غاصب حکمرانوں کی حکمرانی کے استحکام اور اس کو جواز عطا کرنے کے لئے  طاقت اور جبر کے زور پرزمانے کے معروضی حالات کی توجیہ کرتے ہیں۔

بہر حال، اسلام میں شرعی حیثیت کا مسئلہ، یعنی “حکمرانوں کی حاکمیت” کا سوال بعض اوقات دوگنا اہمیت اختیار کر جاتا ہے اور سیاسیات کے مباحثوں میں اپنی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے، جو کہ انسانوں کی برابری کی بناپر اصل اولیہ کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو دوسرے پر تسلط اور ولایت نہیں ہونا چاہئے اور اسی طرح اجتماعی اور سیاسی امور میں مداخلت کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اس قانون کو عقل کے علاوہ شرع کی بھی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا، حکمرانوں  کو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ دوسروں پر حکومت کرنے اور سیاسی طاقت کے استعمال کے حقدار ہیں، ان کے پاس عوام کے لیے ایک عقلی اور الہامی جواز ہونا چاہیے، اور اسے شریعت اسلامی کی طرف سے اجازت اور تائید ہونا چاہئے۔

واضح رہے کہ تمام مسلم فرقوں میں شرعی حیثیت کے موضوع پر اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے برتر ہے اور انسانوں سمیت تمام کائنات پر اس کی مکمل حاکمیت ہے اور اللہ ہی مشروعیت  کا بنیادی ماخذ اور منبع ہے۔ چونکہ خدا انسانوں پر براہ راست حکمرانی نہیں کرتا، اس لیےاس نے اپنے انبیاء کے ذریعے انسانوں کو اپنے اختیار کا ایک درجہ تفویض کیا ہے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس سلسلے میں فرماتے ہیں: عقل کے اعتبار سے حکمرانی اللہ تعالی کی ذات سے مخصوص ہے، صرف وہی ہے جس کے پاس ذاتا  حاکمیت ہےالبتہ اللہ کی طرف سے کسی کو ولایت کے لئے منصوب کیا جاسکتا ہے ۔اس کے باوجود اس  امر میں اختلاف ہے کہ خداوند متعال کی جانب سے براہ راست کسی کو مشروعیت عطا ہوئی ہے یا نہیں اور کیا حکومت کا حق کسی مخصوص فرد یا گروہ کو تفویض کیا گیا ہے یا اس معاملے کو عوام کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا ہے؟

اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں حکومت اور ولایت کا حق اللہ کی جانب سے آنحضرتﷺ کو عطا کیا گیا تھا لیکن اصل بحث اور تنازع رسول اکرمﷺ کے بعد کے بارے میں ہے اسی سوال کی بنیاد پر اسلام میں دو بڑے فرقے شیعہ اور سنی وجود میں آئے۔ شیعوں کی غالب اکثریت پیغمبر اکرم ﷺکے بعد سنہ 260 ہجری تک کے دور میں خداوندمتعال کی طرف سے عصمت اور علم لدنی کی دو خصوصیات کی بنیاد پر  بارہ اماموں کے منصوب ہونے  پر یقین رکھتی ہے۔ اور اس لیے ان کی امامت اور حکومت براہ راست مشروعیت الہی  پر مبنی ہے۔ معصوم امام کی غیبت  کے دوران شیعہ مفکرین اور فقہاء کی اکثریت، یہ مانتے ہوئے کہ حکومت معصوم امام کا حق ہے، مخصوص شرائط کے حامل فقہاء کواللہ کی جانب سے  معصوم کے نائب کے طور پر مانتے ہیں اور دوسرے حکمرانوں کو غاصب قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران فقہاء کی ایک جماعت کا یہ نظریہ رہا ہے کہ مسلمان معاشرے کے لئے ایک حاکم اور امام منتخب ہونا چاہئے اس نظریے کو عوامی مقبولیت کے نام سے شہرت حاصل ہے اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ عوام کے ذریعے انتخابی عمل وجو دمیں لاکر فقہاء کا ایک عمومی انتخاب ہونا چاہئے اس نظریے کو الہی اور عوامی مقبولیت کا عنوان دیا جاتا ہے جبکہ  دوسری طرف اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکے بعد حکومت کا معاملہ مکمل طور پر امت کی صوابدید اور انتخاب پر چھوڑ دیا گیا اور انہوں نے مختلف ذرائع مثلاً اہل حل وعقد کا اجماع، بیعت ، طاقت کے بل بوتے پر مسلح قیام کے ذریعے کوشش اور سابق امام کی طرف سے کسی کو منصوب کرنے کو حکومت کے جواز کا ذریعہ قرار دیا چنانچہ آئندہ اسباق میں اس کے بارے میں بحث کی جائے گی۔

پہلا مبنا: نصب اور نص

پیغمبراکرمﷺ کی جانب سے نصب کرنا اور صریح نص آنا اہل سنت کے مطابق حکومت کی مشروعیت کا ایک منبع ہے یعنی اگر رسول خداﷺ کسی کو مسلمانوں کے رہبر اور امام کی حیثیت سے منصوب کرکے اعلان کریں تو وہ شخص مسلمانوں کے رہبر اور امام کی حیثیت سے معین ہوجائے گا لیکن اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس طریقے سے کسی کو منصوب اور متعین نہیں کیا ہے بلکہ اس کام کو امت کی صوابدید پر چھوڑدیا ہے۔ ابوالحسن اشعری کہتے ہیں: امامت نص کے ذریعے سے ثابت ہوسکتی ہے لیکن چونکہ کسی کے بارے میں نص نہیں آیا ہے لہذا اس امر کو امت کے اختیار پر چھوڑدیا گیا ہے۔  یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول اکرمﷺ نے مختلف اور متعدد مواقع پر حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کو اپنے بعد اپنے جانشین کی حیثیت سے منصوب کیا تھا جس کی واضح ترین اور صریح ترین دلیل غدیر خم میں منقول حدیث ہے۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب “الفین” خواجہ نصیرالدین طوسی نے “تجرید الاعتقاد” اور علامہ امینی نے “الغدیر” میں اس موضوع پر سیرحاصل بحث کی ہے۔

دوسرا مبنا: طاقت اور  جبر سے غلبہ پانا

طاقت کے مراکز پر کنٹرول اور تسلط ان عوامل میں سے ایک ہے جسے اہل سنت حکومت کے جواز کی دلیل اور منشا سمجھتے ہیں۔ یعنی جس کی جسمانی قوت اور جسمانی اور ذہنی طاقت زیادہ ہو اسے معاشرے پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہو گا اور اس کے لیے عام مسلمانوں  یا اہلِ حل و عقد کی طرف سے بیعت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور “الحق لمن غالب” کا قاعدہ  اسی روش کی بنیاد پر وجود میں آیا۔پانچویں صدی ہجری کے بزرگ حنبلی عالم قاضی ابوعلی حکومت کی مشروعیت کے بارے میں کہتے ہیں: امامت دو طریقوں سے تشکیل پاتی ہے؛

1۔ اہل حل و عقدکا انتخاب

2۔ سابق امام کی جانب سے جانشین بنانا

اس کے بعد امام حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ  امامت زور اور جبر کے ذریعے بھی مل سکتی ہے اس صورت میں بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگرچہ حاکم فاجر و فاسق کیوں نہ ہو۔

وہ اس فتوا کو عبدوس بن مالک عطار سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ احمد بن حنبل نے کہا: اگر کوئی تلوار کے زور پر عوام پر تسلط پائے اور خلیفہ اور امیرالمؤمنین کا لقب ملےخواہ نیک ہو خواہ بد، تو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے جائز نہیں ہے  کہ صبح ہونے تک انتظار اور اس کو امام کے طور پر نہ پہچانے۔  اسی طرح ابن الحرث احمد بن حنبل کا قول بیان کرتے ہیں: اگر کوئی شخص حکومت کے حصول کے لئے شورش برپا کرے اور کچھ لوگ اما م کے ساتھ ہوں اور کچھ شورشیوں کے ساتھ  تو نماز جمعہ (جو کہ امام کے وظائف میں سے ہے) کو اس کے ساتھ پڑھنا چاہئے جس کو فتح ملے۔ ابن حنبل نے اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے دلیل پیش کیا کہ عبداللہ بن عمر نے جنگ حرہ کے دوران مدینہ میں نماز جمعہ قائم کی اور کہا کہ ہم اس کے ساتھ ہیں جو فاتح ہو۔ بنابراین قاضی ابویعلی کی نظر میں فتح اور غلبہ حکومت کی مشروعیت کا باعث ہیں اور عقد و بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے دو دلائل پیش کئے ہیں؛

1۔ عبداللہ بن عمر کی روایت مطلق ہے جس میں کہا گیا  کہ ہم فاتح کے ساتھ ہیں اور اس کو عوام کی بیعت کے ساتھ مشروط نہیں کیا گیا۔

2۔ اگر دیگر عقود کی طرح امامت اور خلافت بھی عوام کی جانب سے ایجاد و قبول سے مشروط ہو تو خلافت کو فسخ اور معزول کرنا بھی عوام یا خلیفہ کے ہاتھوں  میں ہونا چاہئے لیکن چونکہ ان کو ایسا کوئی حق نہیں ہے پس خلافت اور امامت بھی عقد اور بیعت کی طرف محتاج نہیں ہے بلکہ اس کی مشروعیت کے لئے تسلط اور غلبہ ہی کافی ہے۔

موفق الدین عبداللہ بن قدامہ حنبلی نے فقہ حنبلی کی استدلالی کتاب المغنی میں کہا ہے کہ اگر کوئی امامت کے خلاف قیام کرے اور اس کو سرنگون کرنے میں کامیاب ہوجائے اور لوگوں کو اسلحے اور طاقت کے زور پر اپنا مطیع بنائے، لوگ بھی اس کی اطاعت کے لئے سرجھکائیں اور پیروی کریں تو وہی معاشرے کا امام ہے اور اس کے خلاف قیام اور جنگ حرام ہے کیونکہ عبدالملک مروان نے عبداللہ بن زبیر کے خلاف شورش برپا کیا اور اس کو قتل کرنے کے بعد عوام کو اپنا پیرو بنایا اور عوام نے بیعت کی  لہذا اس صورت میں وہی امام ہوگا اور اس کے خلاف قیام حرام ہے۔

تفتازانی کہتے ہیں: جب امام انتقال کرے اور امامت کی شرائط کے حامل کوئی شخص بیعت کے بغیر خلافت پر قبضہ کرے اور جبر و زور سے لوگوں پر تسلط حاصل کرے تو اس کو خلافت مل جائے گی اور ظاہر ہے کہ اگر ایسا شخص فاسق اور جاہل ہو تو بھی یہی حکم ہے اور وہ فقط اپنے عمل میں گناہ گار ہوگا اور امام کی اطاعت واجب ہے جب وہ شرعی حکم کی مخالفت نہ کرے خواہ عادل ہو خواہ جائر۔بہرحال  یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ خلافت راشدین کے بعد مختلف مواقع پر جبر اور طاقت کے زور پر مبنی حکومتیں وجود میں آئیں۔ چوتھی صدی ہجری کے معروف شاعر ابوالعلا معری نے اس تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ

الدهر و کالدهر و الایام واحدة           والناس کالناس و الدنیا لمن غالباً

تجزیہ و تبصرہ

اس نظریے پر کئی اشکالات اور اعتراضات کئے جاسکتے ہیں جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جائے گا۔

1۔ طاقت اور مسلح جدوجہد کے ذریعے حکومت اور اقتدار حاصل کرنا عقل اور انسانی فطرت کے ساتھ ساتھ دین اور شریعت کے بھی خلاف ہے۔ عقل کی نگاہ میں اسی طرح عقلاء اور دانشوروں کے مطابق معاشرے میں بسنے والوں کی رائے کے برخلاف عمومی امور میں تصرف کرنا اور ان کو اپنے اختیار میں لینا ظلم ہے اور فطری طور پر طاقت اور جبر سے حکومت حاصل کرنا بھی عقلاء اور فطرت انسانی کے نزدیک مذموم اور ناپسند امر ہے لہذا چونکہ احکام عقلی میں حکم حسن و قبح اور مصلحت و مفسدہ پر مبنی ہوتا ہے بنابراین عقل یا عقلاء کا کسی عمل کے قبیح ہونے کا حکم لگانا ہی کافی ہے۔ طاقت اور جبر پر مبنی حکومت میں عوام اور لوگوں کی رائے کے لئے کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے  اور عقل بھی حکومت کے بارے میں عوام کی رضایت اور نفرت کو ملاحظہ کرتی ہے پس جبر و طاقت سے حاصل ہونے والی حکومت کو بھی لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے باطل اور غیر قابل قبول تصور کیا جائے گا۔

علاوہ ازین دین اسلام میں عقل کو شرعی احکام کا منبع اور ایک دلیل قرار دیا جاتا ہے جو ایک طرف  تکلیف و سختی اور فتنہ و آشوب اور خونریزی کو قبیح قرار دیتی ہے  اور دوسری طرف بعض اہداف مثلا معاشرے کا نظم و ضبط اور امن و امان برقرار رکھنا، فلاح و بہبود ایجاد کرنا، اجتماعی عدالت کی توسیع، سرحدوں کی حفاظت اور ملک و معاشرے کا دفاع اور معنوی اہداف اور انسانی سعادت کی فراہمی جیسے اہداف کے لئے کسی مقتدر اور عادل حکومت کے قیام کو ضروری سمجھتی ہے۔ یہ کام عوام کے تعاون اور ان کی جانب سے حکومتی احکامات کی اطاعت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ایک کامیاب اور کارآمد حکومت ہی عوام الناس کا اطمینان اور اطاعت حاصل کر سکے گی اور حکومت اور عوام کے درمیان ایک خاص قسم کی سوچ، ہمدردی اور تعاون کا جذبہ پیدا ہو گا۔ظاہر ہے کہ کوئی  بھی فردطاقت، جبراور تشدد کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں پا سکتا اور ان کی تسکین، خوشنودی اور تعاون حاصل نہیں کر سکتا۔ اور عقل ایسی حکومت کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم نہیں دیتی۔ اور عوام کے  تعاون کے فقدان کی وجہ سے طاقت اور جبر کے ذریعے حاصل ہونے والی حکومت کو عملی میدان میں  مذکورہ اہداف کی فراہمی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شرعی لحاظ سے بھی یہ بات یقینی ہے کہ شریعت عقل اور عقلاء کے حکم کو قبول کرتی ہے اور اگر دینی کتابوں میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ دین کو بھی اختیار اور انتخاب کی بنیاد پر قبول کیا جاتا ہے اور دین میں کسی بھی قسم کا جبر و اکراہ نہیں ہے۔ بعض موارد میں پیغمبراکرمﷺ نے لوگوں پر رحم  اور ترس کی وجہ سے ان کو مجبور کرنے کا قصد کیا تو اللہ نے فرمایا: «و لو شاء ربک لآمن من فی الارض کلهم جمیعاً، افانت تکره الناس حتی یکونوا مومنین.»[17] اگر تیرا خدا چاہتا تو روئے زمین پر بسنے والے سب ایمان لاتے کیا تو چاہتا ہے کہ جبر و اکراہ سے لوگوں کو مومن بنائے۔ سیاسی طاقت استعمال کرنے میں لوگوں کی رضایت ضروری ہونے اور جبر و اکراہ کی نفی پر احادیث و روایات بھی موجود ہیں۔  حضرت علیؑ لوگوں پر ولایت کا حق رکھتے تھے  چنانچہ آپؑ رسول اکرمﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے میرے ساتھ عہد باندھا اور فرمایا کہ اے ابوطالبؑ کے بیٹے میری امت  کی زمام اقتدار تمہارے ہاتھ میں ہے پس اگر لوگ اپنی پسند اور رضایت کے ساتھ تم کو اپنا حاکم قرار دیں تو حکومت کو قبول کرنا اور اگر تیری خلافت میں اختلاف کریں تو ان کو اپنی حالت پر چھوڑدینا اللہ تیرے لئے گنجائش نکالے گا کہ تو بری الذمہ ہوجاوگے۔

منقول ہے کہ پیغمبراکرمﷺ نے کسی قوم کے اوپر اس کی اجازت اور رضایت کے بغیر حکومت کرنے سے منع کیا ہے۔  یہ روایت اگرچہ جماعت میں امامت کے بارے میں نقل ہوئی ہے لیکن معاشرے کی قیادت اور رہبری کو بھی بطریق اولی شامل کرتی ہے۔

واقعہ سقیفہ اور ابوبکر کے منتخب ہونے کے بعد جب ابو سفیان نے حضرت علی (ع) کی بیعت کرنا چاہی تو اس نے قسم کھائی کہ اگر وہ چاہیں تو شہر کو ابوبکر کے خلاف گھڑ سواروں اورپیادہ دستوں سے بھر دیں گےتاکہ حکومت کو حضرت علیؑ کے حوالے کریں لیکن امام علی (ع) نے اس کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور اس کی سرزنش کی۔ حضرت امام رضا علیہ السلام بھی پیغمبر اکرم ﷺکے قول کو نقل کرتے ہوئے  فرماتے ہیں: “جو شخص آپ کے پاس آئے اور آپ کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے اور امت کے معاملات کو غصب کرنے اور لوگوں سے مشورہ کیے بغیر لوگوں پر حکومت کرنے کا ارادہ کرے تو اسے قتل کردو۔”

پس مذکورہ بالا مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ طاقت اور جبر کے ذریعے حکومت حاصل کرنا شرعی اور عقلی  لحاظ سے حکومت اور خلافت کا جائز طریقہ نہیں ہے۔

2۔  اہل سنت علماء اور فقہاء کی اکثریت نے اقتدار پر  غاصبانہ قبضے اور حکمرانی کے جواز کے بارے میں اپنی آراء اور فتویٰ پیش کرتے ہوئے کتاب و سنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کی ہےبلکہ اس حوالے سے صرف اصحاب مثلا عبدالملک جیسوں کے عمل سے استناد کیا ہے جس کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اس لیے خود صحابی کا عمل بھی عقل و شرعی  لحاظ سے کسی صحیح دلیل کا محتاج ہےپس ایسی دلیل کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔

3۔ چونکہ اموی اور عباسی خلفاء اور سلاطین قیادت اور امامت کی شرائط نہ رکھنے کے علاوہ حکومت کے غاصب رہے ہیں۔ اور شیعوں نے ہمیشہ اس معاملے پر اعتراض کیا ہے اور اہل بیت علیہم السلام کو مسلمانوں پر ولایت اور حکومت کا حقدار اور خدا کی طرف سے مقرر اور مشروع خیال کیا ہے۔ اس لیے سنی مسلک کے مصنفین، فقہاء اور محدثین اکثر موجودہ صورت حال اور اس وقت کی حکومتوں کے جواز کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور نظریہ الہی کے برعکس، انہوں نے “طاقت کے ذریعے تسلط ” جیسے طریقے پیش کیے ہیں۔ “یا “ولی عہدی” یا “محدود افراد کی بیعت” کا نظریہ پیش کرکے معاشرے کی امامت کے لئے اس کو  کافی سمجھا ہے اس سلسلے میں انہوں نے جعلی اور من گھڑت احادیث و روایات پر قائم رہ کر اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کر کے اپنے قول کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

صحیح مسلم میں منقول ہے کہ حذیفہ سے رسول اکرمﷺ نے فرمایا: میرے بعد کچھ خلفاء آئیں گے جو میرے راستے پر نہیں ہوں گے اور اور نہ میرا طرز عمل اپنائیں گے اور لوگوں کے درمیان سے کچھ افراد قیام کریں گے جن کا دل شیطان کی طرح ہوگا اور بدن انسانوں جیسا۔ حذیفہ نے پوچھا : اگر میں اس زمانے میں زندہ رہوں تو کیا کروں؟ پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا: امیر کی بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمہاری پشت پر کوڑے مارے اور اموال پر قبضہ کرے پس اس کی بات مانو اور اطاعت کرو۔[18]  قابل ذکر بات یہ ہے کہ اہل سنت محدثین کے اس گروہ نے غاصب خلفاء کے دفاع میں ایسی روایات اور احادیث نقل کی ہیں۔ دانشوروں کا دوسرا طبقہ دولت اور جاہ و منزلت کے لالچ میں آکر طاقت اور جبر سے حاصل ہونے والی حکومت کو شرعی اور جائز قرار دیتے ہیں اور ان حکمرانوں کی اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں۔دانشوروں  کا یہ گروہ، ایسی حالت میں کہ جب وہ اس وقت کے ظالم اور جابر حکمرانوں سے بہت زیادہ متاثر تھے، یہ واضح ہے کہ انہوں نے حکومت کے بارے میں کوئی مثالی تصور پیش نہیں کیا اور شریعت کے صحیح احکام کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ ان کی بحث کا بنیادی محور غاصب حکمرانوں کو جائز قرار دینا اور سیاسی طاقت کو محفوظ کرنے پر ان کی توجہ مرکوز رہی ہے۔

ڈاکٹر سید جواد طباطبائی علماء کے اس گروہ کے بارے میں لکھتے ہیں: سیاست دانوں نے عام طور پر سیاسی اقتدار کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے طریقوں پر بحث کی ہے اور “خوارج کے خروج” کو روکنے اور رعایا  کو زیر کرنے کے طریقوں پر بحث کی ہے۔ سیاسی افکار سے متعلق ایک اور قسم کی تحریریں، جنہیں  سے “شریعت نامہ” کہا جا سکتا ہے، وہ سیاست نامہ  کی طرح خلافت کے نظریاتی جواز سے تو تعلق رکھتی ہیں، لیکن اپنے نظریہ کو قائم کرنے میں وہ اپنے آپ کو اس سلطنتی نظریے سے دور رکھتی ہیں اور اپنی تفسیری محور میں شریعت کو لاتی ہیں۔

ڈاکٹر حسین بشیریہ بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں: سیاسی علماء عموماً بادشاہوں کے لیے نصیحت کرنے والے ہوتے تھے اور ان کا سیاسی تصور ایک اصولی تصور تھا، دوسرے لفظوں میں سیاست سے ان کا مطلب یہ تھا کہ حکومت کو کیسے مستحکم رکھا جائے۔ اپنی حکومت کو گرنے کے خطرے سے بچانے کے لیے حکمرانوں کو کیا مشورہ دیا جائے؟

4۔ اگر جبر اور طاقت کی بنیاد پر حاصل ہونے والی  حکومت کو جائز قرار دیا جائے جیسا کہ سنی کہتے ہیں تو اسلام میں حکومت انتشار کا شکار ہو جائے گی اور مسلم معاشرے پر جنگل کا قانون راج کرے گا یعنی جس کے پاس طاقت زیادہ ہے اور طاقت، جبر، اور لوگوں کو قتل کرنے کے میدان میں زیادہ مہارت اور برتری رکھتا ہے، اسے ایک جائز اسلامی حکمران اور رہنما کے طور پر متعارف کرایا گیا، یہ بالکل وہی منطق ہے جو فرعون نے کہی تھی وَ قَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلی[19] جو آج کے دن غالب آجائے گا وہی کامیاب کہا جائے گا۔ وہ طریقہ ہے جس سے خدا اور رسول خداﷺ بالکل راضی نہیں اور خدا نے قرآن کریم میں کئی بار فرعون کے غرور اور تکبر کی مذمت کی ہے اور موسیٰ کو بھی اس کے غرور و تکبر کی وجہ سے فرعون سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے ثُمَّ أَرْسَلْنا مُوسى‏ وَ أَخاهُ هارُونَ بِآياتِنا وَ سُلْطانٍ مُبِينٍ (45) إِلى‏ فِرْعَوْنَ وَ مَلائِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَ كانُوا قَوْماً عالِينَ (46) فَقالُوا أَ نُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنا وَ قَوْمُهُما لَنا عابِدُونَ [20] پھر ہم نے موسٰی اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا  ۔  فرعون اور اس کے زعمائ مملکت کی طرف تو ان لوگوں نے بھی استکبار کیا اور وہ تو تھے ہی اونچے قسم کے لوگ ۔ تو ان لوگوں نے کہہ دیا کہ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم خود ہماری پرستش کررہی ہے۔

5۔  پیغمبراکرمﷺ کا فرمان ہے: “لاضرر و لا ضرار فی الاسلام” یعنی اسلام میں نقصان اٹھانے اور نقصان پہنچانے کا کسی حق نہیں ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت رسول اکرمﷺ کے  “لاضرر” کے اس قاعدے سے استناد کرتے ہوئے  کہتے ہیں: اگر حکومتی نظام کے خلاف قیام اور مخالفت کی وجہ سے مومنوں کو نقصان ہوجائے تو اس قاعدے کی روشنی میں ظالم حکمران پر اعتماد کرنا حرام ہونا اور اس کے خلاف قیام واجب ہونا ساقط ہوتا ہے کیونکہ اس کے خلاف اور مبارزہ کرنے سے مومنین نقصان سے دوچار ہوتے ہیں پس “لاضرر” کا قاعدہ قرآنی آیات کے اطلاق کو ختم کرتا ہے جن میں ظالموں پر اعتماد کرنے  اور ان کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے یعنی یہ قاعدہ ان آیات میں مذکور اطلاق پر حاکم ہے اور ان آیات کو ان موارد میں منحصر کرتا ہے جہاں کوئی ضرر اور نقصان نہ ہو پس اگر قیام اور مخالفت سے ضرر اور نقصان پہنچ سکتا ہو تو اس قاعدے کے وجہ سے قرآنی آیات کا حکم ساقط ہے  جس طرح نماز ، وضو اور روزہ واجب ہونے کا حکم ضرر ہونے کی صورت میں اس قاعدے کی وجہ سے ساقط ہوتا ہے اسی وجہ سے فقہاء کہتے ہیں کہ قاعدہ “لاضرر” کوئی جدید حکم جعل نہیں کرتا بلکہ پہلے سے موجود حکم کو رفع کرتا ہے ۔

قاعدہ “لاضرر” سے فقط اتنا استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ستمگر اور غاصب حکمران کی مخالفت  اور ظالم جماعت کے خلافت قیام واجب ہونے کا حکم رفع ہوتا ہے لیکن اس دلیل سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا ہے کہ غیر شرعی اور ناجائز طریقے سے وجود میں آنے والی حکومت کے لئے شرعی جواز مل جاتا ہے اور اسی طرح یہ دلیل طاقت اور کودیتا سے حکومت حاصل کرنے والے کی امامت کو شرعی حیثیت عطا نہیں کرتی ہے بنابراین قاعدہ “لاضرر” فقط اتنا فائدہ دیتا ہے کہ ملت کمزور ہوتو ظالم اور جابر حکمران کے خلاف قیام کا وجوب ان سے ساقط ہے اس قاعدے سے ظالم حکمران کی حکومت کو مشرعیت اور شرعی حیثیت نہیں ملتی ہے۔

6۔ باوجود اس کے کہ اہل سنت فقہاء اور علماء نے  غاصب حکمران کے لیے حکومت اور امامت کے صحیح ہونے پر زور دیا ہے، خواہ وہ فاسق اور فاجر ہی کیوں نہ ہو، اور اس کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بنیادی طور پر دین اسلام میں ستمگر گروہ اور حکومت کو غصب کرنے والے کا کردار کسی بھی لحاظ سے قابل قبول اور تسلیم شدہ نہیں  بلکہ قرآن کریم اور صحیح سنت نے ظالم اور فاسق حکمرانوں کی اطاعت اور ان پر بھروسہ کرنے کو حرام قرار دیا  ہے۔ اور یہاں تک کہ فاسق حکمران کی نفی اور انکار اور ایسی حکومت کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد پر زور دیتا ہے۔ ذیل میں اس سلسلے میں چند آیات و احادیث کوذکر کیا گیا ہے۔

وَ لَا تَرْكَنُواْ إِلىَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّار[21] اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہّنم کی آگ تمہیں چھولے گی۔ مذکورہ بالا آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے  کہ ظالموں اور جابروں کی حکومت اور خلافت کاکارندہ ہونا جائز نہیں ہے اور لوگوں کو چاہئے کہ ان پر بھروسہ اور ان کی اطاعت نہ کریں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کی قدیمی ترین تفاسیر میں سے ایک تفسیر میں علی ابن ابراہیم نے رکون سے مطلب ظالموں سے محبت اور پیروی اور اطاعت کو سمجھا ہے۔[22]

فَاتَّقُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُونِ ۔ وَ لَا تُطِيعُواْ أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ[23]  اور زیادتی کرنے والوں کی بات نہ مانو ۔  جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ہیں۔  حضرت علیؑ فرماتے ہیں: «لاتترکوا الامر بالمعروف و النهی عن المنکر فیولی علیکم اشرارکم فی تدعون فلایستجاب»[24] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرو ورنہ اشرار تم پر مسلط ہوجائیں گے اور تم دعاکروگے لیکن قبول نہیں ہوگی۔

اسی طرح کی ایک حدیث کو ابوالدرداء نے رسول اکرمﷺ سے نقل کیا ہے: :«لتأمرنّ بالمعروف و لتنهّن عن المنکر او لیسلطان الله علیکم سلطاناً ظالماً لایحل کبیرکم و لایرحکم صغیرکم»[25] تمہیں چاہئے کہ ہر حال میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں ورنہ ظالم حکمران تم پر اللہ مسلط کرے گا جو نہ بڑوں کا احترام کرے گا اور نہ بچوں پر رحم کرے گا۔ اس حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے کو عوام پر ظالم اور جابر حکمران مسلط ہونے کی وجہ سے قرار دیا گیا ہے اسی کے ساتھ ساتھ ظالم اور جابر حکمران کے سامنے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے بارے میں عوام کی ذمہ داری کو بیان کیا گیا ہے جس آخری نتیجہ ستمگر حکمران کے ساتھ جنگ اور اس کے خلاف قیام کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ حاکم نیشابوری نے ایک حدیث نقل کی ہے جو اسی مطلب پر دلالت کرتی ہے: «قال ابوعبدی بن حراج رضی الله عنه قلت: یا رسول الله ای اشهداء اکرم علی الله عز و جل قال: رجل قام الی وال جائر فامره بالمعروف و نهاﺀ عن المنکر فقتله علی ذلک فذلک الشهید منزلته فی الجنه بین حمزه و جعفر»[26]ابوعبدی بن حراج نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ کونسے شہدا اللہ کے نزدیک مقام رکھتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: وہ وہ شخص جو جائر حاکم کے سامنے قیام کرے اور اس کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے جس کے نتیجے میں اس کو قتل کرے تو اس شہید کا درجہ جنت میں حمزہ اور جعفر کے درمیان ہوگا۔

مندرجہ بالا حدیث نہ صرف ظالم اور جابر سلطان کے سامنے “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر”  کی حساسیت اور اہمیت پر زور دیتی ہے، بلکہ جان و مال اور یہاں تک کہ قتل و خون ریزی کے خطرات سے بھی خبردار کرتی ہے، جسے ہر حال میں برداشت کرنا چاہیے۔ اور جو لوگ اس طرح مرتے ہیں وہ شہادت کا مرتبہ حاصل کرتے ہیں جو کہ بہترین فضیلت ہے۔ لہٰذا ظالم اور جابر حکمران کا طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرنا نہ صرف اس کی حکومت کی شرعی حیثیت کا منشاء نہیں بلکہ اس کے خلاف مبارزہ اور اس کو حکومت سے معزول کرنا واجب ہونے کا باعث ہے۔

تیسرا مبنا: ولایت عہدی یا سابق امام کی جانب سے متعین کرنا

اہل سنت کی نگاہ میں ولایت عہدی یا سابق خلیفہ کی جانب سے کسی کو خلیفہ متعین کرنا امامت حاصل ہونے اور حکومت کو شرعی جواز ملنے کے طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس طریقے سے ملنے والی حکومت کے جواز پر دلیل خلیفہ اول ابوبکر کی جانب سے خلیفہ دوم کو متعین کرنا ہے جب ابوبکر نے عمر کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کردیا۔ یہ تعییناتی ایک خط کے ذریعے عمل میں آئی جو خلیفہ اول نے اس بیماری کے دوران لکھا تھا جس میں ان کی موت واقع ہوئی ۔ واقعہ یوں ہے کہ جب یہ حکم لکھاجارہا تھا ، ابوبکر بے ہوش ہوئے اس دوران خط کے کاتب عثمان نے ابوبکر کی جانب سے خلیفہ کے طور پر  عمر کا نام لکھ دیا۔ جب ابوبکر کو ہوش آیا اور عثمان کا یہ عمل دیکھا تو اس کے مخاطب ہوکر کہا کہ کیا تمہیں خوف تھا کہ میں بے ہوشی کے عالم میں مرجاوں گا اور مسلمانوں کے درمیان اس معاملے میں پھوٹ پڑے گا۔ [27] اس کے بعد ابوبکر نے حکم دیا کہ اس عہدنامے کو لوگوں کے سامنے پڑھا جائے اور لوگوں کو یاددہانی کرائی کہ اس نے اپنے خاندان میں سے کسی کو لوگوں پر خلیفہ متعین نہیں کیا ہے اور لوگوں سے تقاضا کیا کہ عمر کی اطاعت کریں۔

خلیفہ اول کی جانب سے خلیفہ دوم کے طور پر عمر کے انتخاب کی یہ روش اس مبنا کے لئے نمونہ بنا گیا کہ سابق خلیفہ کے ذریعے بھی خلیفہ کی تقرری ممکن ہے۔ اسی بنیاد پر ابوالحسن ماوردی کہتے ہیں: امامت دو طریقوں سے ثابت ہوتی ہے؛ 1۔ اہل حل و عقد کا انتخاب 2۔ سابق امام کی جانب سے تقرری [28]

ماوردی کی نگاہ میں عوام کے انتخاب پر بھی سابق خلیفہ کا انتخاب مقدم  اور مرجح ہے کیونکہ ولایت عہدی میں انتخاب کرنے والا اور انتخاب ہونے والا دونوں استثنائی شخصیات میں سے ہیں اور خلیفہ سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کس کو منتخب کرنا چاہئے اور اس کا فیصلہ زیادہ قابل اطمینان اور مصلحت کے نزدیک ہے بنابراین ایک خلیفہ اپنے بعد والے خلیفہ کو متعین کرسکتا ہے۔

فضل اللہ روزبہان خنجی حکومت کی شرعی حیثیت کے حوالے سے لکھتے ہیں: دوسرا طریقہ ولایت عہدی یا خلیفہ متعین کرنا ہے یعنی سابق امام اپنی حیات میں ہی کسی کو جس میں امامت کی شرائط موجود ہوں، امام کے طور پر متعین کرے عمر فاروق کی خلافت اسی طریقے سے ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے اپنی حیات میں ہی ان کو خلیفہ کے طور پر متعین کردیا تھا اور ان کی خلافت  کے بارے میں لکھ کر باہر بھیج دیا تاکہ لوگ اس کی بیعت کریں جس کا نام اس مکتوب میں تحریر ہے اس طرح تمام اصحاب نےبیعت کی۔[29]

موفق الدین عبداللہ بن قدامہ حنبلی اس حوالے سے لکھتے ہیں: مختصر کلام یہ کہ اگر مسلمانوں کی جانب سے کسی کی امامت بر اتفاق اور اجماع کیا جائے تو اس کے کےلئے امامت اور تصرف کا حق مل جائے گا اسی طرح اگر پیغمبراکرمﷺ یا سابق امام کسی کو امامت کے عہدے پر منصوب کرے تو بھی یہی حکم ہے پس ابوبکر کی امامت اجماع اور اصحاب کی بیعت کے ذریعے اور عمر کی امامت ابوبکر کی جانب سے تعیین اور اصحاب کے اجماع کی بنا پر ثابت ہے۔[30]

چنانچہ کہا گیا کہ یہ خلافت ملنے کا طریقہ ابوبکر کی جانب سے عمر کو تقرر کرنے کے بعد مشہور ہوا اور بنوامیہ اور بنوعباس کے خلفاء  کے درمیان سب سے زیادہ رائج طریقہ یہی تھا اگرچہ اس کے بعد ایرانی سیاست میں اسی طریقے سے متاثر ہوکر حکومت اور بادشاہت کی منتقلی کا یہ طریقہ رائج رہا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عباسی خلفاء نے حکومت کی وراثت اور عباسیوں میں اس کی اجارہ داری کو جائز قرار دینے کے لیے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا حوالہ دیا کہ یہ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی چھوڑی ہوئی میراث ہے۔ اس لیے یہ وراثت تھی کہ اس نے انہیں خلافت پر فائز ہونے کے لائق ظاہر کیا۔ عباسیوں کی طرف سے نقل کی گئی سب سے اہم روایت وہ روایت ہے جس میں رسول اکرمﷺ نے اپنےچچا عباس کو وعدہ کیا تھا کہ خلافت ان کی اولاد تک پہنچے گی۔

تجزیہ و تبصرہ

1۔ جیسا کہ بحث کےآغاز میں کہا گیا تھا کہ اس نظریہ کے حامی اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کتاب، روایت یا دلیل سے کوئی ثبوت پیش  نہیں کرتے ہیں، بلکہ جو چیز معیار اور ثبوت کے طور پر بیان کی گئی ہے وہ پہلے اور دوسرےخلیفہ کا عمل اور طرز عمل ہے ۔

2۔ حاکم کے جائر ہونے کی صورت میں اسے معاشرے کو چلانے کے لیےشرعا اور قانونا جائز نہیں ہےاور اسے ایسا حق نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنے بعد کسی دوسرے شخص کو نامزد کرے، اور اس کی تنصیب کی کوئی حیثیت  نہیں جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے نص نہ آجائے کہ یعنی اگر اس کو خلافت لوگوں کی مرضی اور انتخاب سے مل گئی ہو تو لوگوں نے قیادت اور امامت کا منصب قبول کیااور انہوں نے اسے ووٹ دیا۔اور عوام نے اس کے بعد حکومت اور امامت کو کبھی ووٹ نہیں دیا اور نہ ہی اس کو ایسا اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے بعد لوگوں کے لیے جانشین مقرر کرے۔ بلکہ جس طرح انہوں نے اسے ووٹ دیا ہے اور اس کی حکمرانی کو جائز قرار دیا ہے، وہ اپنے ووٹ سے اگلے حکمران کا انتخاب اور تعین بھی کریں گے۔ اور اگر اس شخص کی خلافت اور حکومت جبر اور تسلط سے تھی جو کہ بنیادی طور پر خود ناجائز ہے اور اسے خلیفہ کے انتخاب کا حق حاصل نہیں ہوگا، تو حاکم کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے بعد خلیفہ مقرر کرے، خاص طور پر ان حالات میں کہ مقرر کردہ شخص نااہل ہو اور اس میں قیادت کی خاص خصوصیات نہ ہوں۔جن آیات اور روایات میں اولی الامر کی اطاعت واجب ہونے پر دلالت ہے وہ بھی حاکم کے تمام فیصلوں جن میں خلیفہ کی تقرری بھی شامل ہے، میں اس کو واجب الاطاعہ ہونے پر کوئی دلالت نہیں بلکہ آیت میں واجب الاطاعت سے مراد اس شخص کی اطاعت ہے جس کو حق ولایت حاصل ہے اور وہ بھی ان امور میں جن میں امر اور فیصلے کو اس پر واگزار کیا گیا ہے۔

3۔ اس موقع پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ شیعہ مذہب میں بھی ہر امام اپنے بعد والے امام کو متعین کرکے لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے؟

اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کے نزدیک ولایت عہدی کے مسئلے میں نظریات  اور معیار مختلف ہے۔ ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے؛

الف۔  شیعہ مذہب میں سابق امام اللہ کے حکم کے مطابق اپنے بعد والے امام کی نشاندہی کرتا ہے یعنی امام کا تعین اللہ کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق رسول اللہﷺ نے بارہ اماموں کو نام لے کر بیان کردیا ہے چنانچہ شیعہ اور اہل سنت کے نزدیک اس حوالے سے روایات موجود ہیں۔ ہر امام نے اسی کے مطابق اپنے بعد والے کی نشاندہی کی ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم میں ہر کوئی اپنی مرضی سے جس کو امامت کی وصیت کرتا ہے؟ خدا کی قسم ایسا نہیں بلکہ اس امر اور عہدے کو اللہ اور اس کے رسول نے ایک کے بعد ایک شخص کو عطا کیا ہے یہاں تک کہ اس کے صاحب تک پہنچ جائے۔[31]  اہل سنت امامت کو ولی عہدی قرار دیتے ہیں لیکن اس کے برخلاف شیعہ روایات کی مقدس کتابوں کے مطابق یہ اللہ کی جانب سے عطا کردہ ایک عہدہ ہے اور شیعہ مذہب کی ضروریات میں شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ امامت ایک عہد و پیمان ہے جو اللہ کی طرف سے نامزد افراد کو عطا کیا گیا ہے۔ امام کو حق نہیں کہ اپنے بعد والے امام کو خود سے دور کرے۔[32] اس نظریے کے مطابق اللہ کی جانب سے متعین اور منصوب ہونے کی وجہ سے امامت کو شرعی جوا ز حاصل ہے۔  ابوبصیر روایت نقل کرتے ہیں: حضرت امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں آپ کے جانشین کے بارے میں گفتگو ہوئی تو میں نے آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل کا نام لیا۔ آپؑ نے فرمایا: اے ابومحمد! امام کو متعین کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے یہ کام فقط اللہ کے ہاتھ میں ہے جو ہر امام کے بعد دوسرے کو یہ عہدہ عطا کرتا ہے۔[33] اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اماموں کی جانب سے کسی کے بارے میں وصیت کرنا جعل نہیں بلکہ اللہ کے حکم کو کشف کرتا ہے یعنی امام وصیت کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے حکم سے آگاہ کرتا ہے۔ بنابراین شیعہ نظرئے کے مطابق ولی عہدی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ اس دعوی کے لئے شیعہ قرآن سے دلیل لاتے ہیں۔ شیعہ مذہب میں امامت کی مشروعیت کا منشا فقط اللہ کی جانب سے نامزد ہونا ہے۔ وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِين‏ [34] ور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔ اس آیت میں امامت کو اللہ کا عہدہ اور پیمان قرار دیا گیا ہے جسے اللہ بندوں کو عطا کرتا ہے۔

ب۔ چونکہ اہلبیت طاہرینؑ ،معصوم اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہیں لہذا اس کے عمل سے بھی استناد کرسکتے ہیں اور ان کے عمل کو اپنے لئے شرعی حجت قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن خلیفہ اول اور بنو امیہ و بنوعباس کے خلفاء چونکہ معصوم نہیں تھے اور ان سے خطا اور غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لہذا اس کے عمل کو کسی بھی لحاظ سے حجت قرار دینا درست نہیں ہے۔

4۔ اگر کوئی ولی عہدی اور ایک سے دوسرے کو خلافت کی منتقلی کو میراث قرار دے تو اس صورت میں بھی شرعی حکم واضح ہے کیونکہ خلافت اور امامت انسان کی ملکیت نہیں جس کو میراث کے طور پر منتقل کیا جائے بلکہ یہ ایک طرح کی مسئولیت اور ذمہ داری ہے جو شرائط کے حامل افراد کے سپرد کی جاتی ہےاس کی قبولیت میں دونوں جانب سے ہوتی ہے جس میں ایک طرف عوام اور دوسری طرف حاکم اور والی ہوتے ہیں اور حاکم میں شرائط برقرار ہوں تو اس کی وفات تک یہ عہدہ اس کے پاس ہوتا ہے اور اس کی موت کے بعد یہ عہدہ خوبخود ختم ہوجاتا ہے۔

چوتھا مبنا: انتخاب اور اہل حل و عقد کا اجماع (بیعت)

اہل سنت سیاسی نظریے کے مطابق امامت اور حکومت کی مشروعیت کا ایک منبع عوام کا انتخاب کرنا ہے۔ اہل سنت دانشوروں اور فقہاء کا عقیدہ ہے کہ اہل حل و عقد میں سے بعض افراد اجو عوام کی کثیر تعداد کی نمائندگی کرتے ہوں، اگر کسی حاکم کی بیعت کریں یا عوام کی کثیر تعداد براہ راست بیعت کرے  جس کو حاکم شرع عوام کے عمومی ارادے سے تعبیر کرے تو امامت اور حکومت ثابت ہوجاتی ہے۔ ابوالحسن ماوردی لکھتے ہیں: امامت دو طریقوں سے ثابت ہوتی ہے؛ الف اہل حل و عقد کے توسط سے انتخاب ۔ب۔ سابق امام کے توسط سے انتخاب۔

البتہ اہل حل و عقد کے ذریعے امامت ثابت ہونے کے قائلین کے درمیان اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ اہل حل و عقد کی تعداد کتنی ہونی چاہئے؟ بعض کے مطابق تمام اہل حل و عقد جو مختلف شہروں سے تعلق رکھتے ہوں کسی شخص پر اتفاق کرنا چاہئے۔ اس صورت اس شخص کی امامت اور رہبری ہمہ گیر ہوگی اور سب پر اس کی اطاعت لازمی قرار پائے گی لیکن یہ نظریہ ابوبکر کی بیعت کے بارے میں پیش آنے والی صورتحال کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ مدینہ یا سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کرتے وقت تمام لوگوں کا انتظار نہیں کیا گیا تھا۔

دوسرا گروہ قائل ہے کہ اہل حل و عقد میں کم از کم پانچ افراد ہونا ضروری ہے جو امامت ثابت ہونے میں اپنا کردار ادا کریں یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں دوسرے چار افراد اتفاق کریں۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے ابوبکر کی بیعت کے واقعے سے استناد کیاجاتا ہے جس میں پانچ افراد نے ان کی بیعت کی تھی جن میں عمر بن خطاب، ابوعبیدہ ابن جراح، اسید بن حضیر ، بشیر بن سعد اور سالم شامل تھے۔ اس حوالے سے دوسری دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ عمر نے اپنے بعد خلیفہ بنانے کے لئے چھ نفر کی شورا تشکیل دی تھی تاکہ پانچ نفر کی رضایت سے کسی ایک کو خلیفہ تعیینات کریں ۔ یہ نظریہ بصرہ سے تعلق رکھنے والے اکثر فقہاء اور متکلمین کا ہے۔

کوفہ سے تعلق رکھنے والے علماء کہتے ہیں کہ اہل حل و عقد میں سے تین افراد بھی جمع ہوکر کسی ایک پر اتفاق کرکے بیعت کریں تو امامت ثابت ہوتی ہے اس صورت میں ان میں سے ایک حاکم ہوگا اور دوسرے دو افراد اس کی حکومت پر گواہ ہوں گے چنانچہ نکاح میں ایسا ہوتا ہے۔

ایک جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ امامت ایک شخص کی بیعت کے ساتھ بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ عباس بن عبدالمطلب نے فرمایا: مجھے اپنا ہاتھ دو میں تمہاری بیعت کروں گا تاکہ لوگ کہیں کہ رسول خدا کے چچا! آپ نے اپنے بھتیجے کی بیعت کی اور اس صورت میں آپ کی امامت میں دو لوگ بھی اختلاف نہیں کریں گے اور چونکہ بیعت بذات خود ایک قسم کا فیصلہ ہے اور ایک شخص کا فیصلہ بھی صحیح اور قبول ہے۔[35]

ابوعبداللہ قرطبی کہتے ہیں:  امامت کے اثبات کا تیسرا طریقہ اہل حل و عقد کا اجماع ہے۔ جب کسی شہر کا امام رحلت کرجائے اور سابق امام نے کسی کو اپنا جانشین قرار نہیں دیا ہو تو شہر والے کسی کی امامت پر اجماع کرکے اپنی رضایت کے ساتھ امام منتخب کرسکتے ہیں اس صورت میں باقی مسلمانوں پر لازم ہے کہ اگر وہ امام علی الاعلان فسق و فجور میں مبتلا نہ ہوتا ہو تو اس کی اطاعت کریں اس معاملے میں کسی مخالفت کا حق نہیں ہے کیونکہ دو اماموں کا وجود معاشرے میں فساد اور فتنے کا باعث بنتا ہے۔ قرطبی مزید لکھتے ہیں کہ اگر اہل حل و عقد  میں سے کوئی ایک شخص اپنی امامت قائم کرے تو اس کی امامت ثابت ہوجائے گی اور دوسروں پر اس کی بیعت کرنا لازم ہے البتہ بعض اس نظریے پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امامت اہل حل و عقد میں ایک شخص کی نہیں بلکہ گروہ کی بیعت کے بعد ثابت ہوتی ہے ۔ امام ابوالمعالی کہتے ہیں کہ اگرایک شخص کسی کی بیعت کرے اور اس کی امامت ثابت ہوجائے تواس کی اطاعت واجب ہوتی ہے اور بغیر کسی جواز کے اس کو معزول کرنا جائز نہیں یہ ایسا امر ہے جس پر اجماع قائم ہے۔[36]

تجزیہ و تبصرہ

جیسا کہ سنی فقہاء کے الفاظ سے واضح ہے کہ وہ اعتراضات اور اشکالات کے سامنے بے بس ہیں اور بس یہی چاہتے ہیں کہ خلیفہ اول کی خلافت جو اس طرح سے قائم ہوئی تھی کو شرعی ثابت کریں حالانکہ

1۔ ان کا دعوی اور اس کے ثبوت کے لئے پیش کی جانے والی دلیل ایک ہی ہے۔ اصل بحث یہ ہے کہ کسی بھی شخص  حتی کہ خلفاء راشدین کی امامت اور خلافت اس کے معیار کے مطابق ثابت ہوتی ہے ؟

اہل سنت خلفاء کی خلافت کو ایک تسلیم شدہ امر سمجھتے ہیں اس دوسرے خلفاء کی خلافت  کو ثابت کرنے خلفاء راشدین کی خلافت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ بحث کی بنیاد اور ریشہ ان خلفاء راشدین کی خلافت ہے لیکن اس کے برعکس اہل سنت استدلال کرتے ہوئے ان خلفاء کی خلافت کو ہی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[37] اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ انہیں معصوم اور انہیں غلطیوں سے محفوظ نہیں سمجھتے۔ جب نہ انتخاب ہونے والا اور نہ ہی انتخاب کرنے والا معصوم تھا تو سنی فقہاء ان کے اس عمل کو کیسے دلیل مان کر  ہر جگہ اس کا حوالہ اور اس سے استدلال کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سنی علماء کے دلائل میں یہ چیز عموماً اور کثرت سے مشاہدے میں آتی ہے وہ اپنے دعوی کو ہی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کو منطقی  اصطلاح میں اثبات شیئ بنفسہ کہاجاتا ہے یعنی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے اسی چیز کا سہارا لینا۔اہل سنت اہل حل و عقد کے اجماع کی حجیت اور شرعی حیثیت کو ثابت  کرنے کے لئے ابوبکر کی بیعت کا حوالہ دیتے ہیں  دوسری طرف ابوبکر کی بیعت کی شرعی حیثیت کو اہل حل و عقد کے اجماع کے ذریعے ثابت کرتے ہیں اس کے علاوہ فقہی منابع سے کوئی اور دلیل موجود نہیں ہے ۔ اس طرح کے استدلال کو منطقی اصطلاح میں “دور” کہاجاتا ہے جو کہ غلط اور باطل ہے۔

2۔  اہل سنت ابوبکر کی بیعت کے بارے میں جو استدلال کرتے ہیں وہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ خلیفہ دوم حضرت عمر کے اعتراف کے مطابق ابوبکر کی خلافت بغیر کسی مشورے اور غور وفکر کے انجام پائی تھی چنانچہ انہوں نے ممبر پر جاکر کہا کہ ابوبکر کا انتخاب اچانک ہوا ۔ اچانک سارا معاملہ ہونے کی وجہ سے اللہ نے امت کو شر سے بچایا۔[38] اس بیان سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس قسم کی بیعت جس کے ذریعے خدا نے شر کو روکا تھا، اس کی نظر میں کسی قاعدے پر مبنی نہیں تھی، اور وہ خود نہیں چاہتے تھے کہ اس قسم کی بیعت ایک قبول شدہ اصول اور روایت کے طور پر قائم رہے حتی کہ خلیفہ دوم نہیں چاہتے تھے کہ آئندہ کسی خلیفہ کے انتخاب میں یہ طریقہ استعمال نہیں ہونا چاہئے۔

اسی طرح حضرت علیؑ بھی اس طرح کی بیعت کو قابل قبول نہیں سمجھتے تھے لہذا اپنے اصحاب کےسامنے آپ نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھ سے اچانک اور اتفاقی طور پر بیعت نہیں کی تھی بلکہ سب نے اجماع اور اتفاق کیا تھا اور غور وفکر  کے بعد اس کام کا اقدام کیا تھا پس تم میں سے کسی کو بھی بیعت توڑنے اور یا پشیمان ہونے کا حق نہیں ہے۔ یہ ابوبکر کی بیعت کی طرح نہیں ہے جس کو اچانک اور اتفاقی طور پر انجام دیا گیا تھا۔[39]

3۔ اس مسئلے پر شیعوں کے علاوہ اہل سنت علماء نے اعتراض کیا ہے اور اس طریقے کو جمہوریت کی خلاف ورزی اور ڈکٹیٹرشپ قرار دیا ہے چنانچہ علی عبدالرزاق کہتے ہیں: اگر ابوبکر کی بیعت اور حکومت کےقیام کا طریقہ ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ بیعت ایک طرح کی سیاسی بادشاہت تھی  جس پر نئی حکومت کی بنیاد ڈالی گئی اس طرح کی حکومتیں تلوار اور طاقت کے زور پر قائم ہوتی ہیں۔[40]

عبدالکریم خطیب اپنی کتاب “الخلافہ و الامامہ” میں لکھتے ہیں:  اس میں کوئی شک نہیں کہ جن مسلمانوں نے ابوبکر کی بیعت کی تھی وہ اہل مدینہ ہی تھے شاید اہل مکہ میں سے بعض افراد بھی شامل تھے۔ پورے جزیرہ عرب کے لوگ اس بیعت میں شامل نہیں تھے بلکہ انہوں نے اس منظر کا مشاہدہ بھی نہیں کیا تھا۔ ان لوگوں کو ابوبکر کی خلافت کےساتھ ہی رسول اکرمﷺ کی رحلت کی خبر پہنچی تھی ۔ کیا اس طرح کی بیعت عوام کی رائے اور انتخاب پر مبنی ہوسکتی ہے؟[41]

4۔ بعض افراد کی جانب سے انتخاب ہونے کا نتیجہ یہ نہیں کہ عوام پر اس منتخب ہونے والے شخص کی اطاعت واجب ہوجائے ۔ اس پر نہ شرع دلالت کرتی ہے اور نہ عقل کیونکہ اس قسم کی بیعت عوام کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی ہے اور ایسی حکومت کی کوئی شرعی حیثیت بھی نہیں ہوتی ہے۔حضرت علی ؑ نے ابوبکر کی بیعت پر یہی اعتراض کیا تھا کہ اس میں سب مہاجرین و انصار کی رائے شامل نہیں تھی ۔ :«فان کنت بالشوری ملکت امورهم فکیـف بهـذا و المشیـرون غیـب»

یعنی اگر تم (ابوبکر) نے شورا اور امت کے اجماع کی بنیاد پر حکومتی امور کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے تو یہ عجیب معاملہ ہے جس میں مہاجر اور انصار کے اہل رائے و فکر شامل ہی نہیں ہیں۔

5۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اہل سنت عمائدین میں سے کسی نے بھی انتخاب کے اس طریقے کی جواز پر عقل اور قرآن و سنت پر مبنی دلیل پیش نہیں کیا ہے ۔ قرآن و سنت میں اہل حل و عقد میں سے پانچ یا تین افراد کی بیعت کے ذریعے کسی کو ولایت اور حکومت ملنے پر کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے بنابراین اہل سنت علماء و فقہاء خلیفہ اور حاکم کے انتخاب کے اس طریقے کو ثابت کرنے کے لئے خلفاء راشدین اور صحابہ کے اسی عمل کو ہی دلیل قرار دیتے ہیں حالانکہ صحابہ کا کوئی بھی عمل یا ان کی سیرت جب تک قرآن و سنت سے مستند نہ ہو حجت  اور دلیل نہیں ہے یعنی اصحاب کا قول اور فعل حجت بننے کے لئے قرآن و سنت کی طرف محتاج ہے مخصوصا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اصحاب پیامبر میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔ محسن کدیور اس حوالے سے لکھتے ہیں: اہل سنت کے نظریات میں اس اساسی نکتے کو مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اہل سنت حاکم کی حکومت پر قرآن و سنت سے دلیل لانے کے بجائے اس کی توجیہ پر زیادہ تاکید  کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت نظریات ہمیشہ کسی واقعے کے رونما ہونے کے بعد لکھے گئے ہیں اور معاشرے میں نافذ کیا گیا ہے۔[42]

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت مکتب فکر میں خلافت ہمیشہ ایک شکل میں نہیں رہی اور نہ ہی مستقبل کے خلیفہ اور خلافت کے بارے میں کوئی واضح تصور پایا جاتا تھا۔ اہل سنت مکتب فکر میں خلافت اور اس کا نظریہ واقعات کے مطابق وجود میں آیا اور اس نظام کے تحت حال اور ماضی میں پیش آنے والےان واقعات کی توجیہ کی جاتی تھی جس کے بارے میں ماضی میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اجتماعی ضرورت کی بناپر خلافت کی انواع وجود میں آئی ہیں پھران کے وجود میں آنے کے بعد ان کے لئے اصطلاحات جعل کی گی ہیں۔

6۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ عوام کو اس صورت میں امام اور حاکم چننے کا حق ہے جب قرآن و سنت میں اس حق کی صریح مخالفت نہ کی گئی ہو اس کے علاوہ کسی بھی صورت میں (اہل حل و عقد کا اجماع ہو یا شورا یا امت کی اکثریت) قرآن کی نص کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے ہیں بنابراین اگر اللہ نے لوگوں کے لئے امام معین کیا ہو تو اس کے باوجود ہماری طرف سے کسی کو امام اور حاکم بنانا اللہ اور اس کے رسول پر سبقت لینے کے زمرے میں آتا ہے جس سے قرآن میں منع کیا گیا ہے۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ[43] ایمان والو خبردار خدا او ر رسول کے سامنے اپنی بات کو آگے نہ بڑھاؤ اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے

7۔ اجماع اور اہل حل و عقد کا اتفاق

اہل سنت اجماع کے جواز پر اس روایت سے استناد کرتے ہیں : لاتجتمع امتی علی خطاء یعنی میری امت کسی مسئلے میں خطا پر اجماع نہیں کرتی ہے۔  اس سلسلے میں کئی امور قابل ملاحظہ ہیں؛

الف۔ اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیں تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ  اہل حل و عقد نہیں بلکہ  امت کسی بات میں خطا پر اجماع نہیں کرتی ہے ۔ کس آیت یا روایت میں امت سے مراد اہل حل وعقد کو لیا گیا ہے؟

ب۔ اس روایت میں امت کے اجماع سے خطا کو نفی نہیں کیاگيا ہے بلکہ  امت خطا پر اجتماع نہیں کرے گی ہے ۔ یعنی دوسرے فرض کی بناپر  جس امر میں خطا ہو اس پر امت اجماع نہیں کرسکتی ہے۔ اس حقیقت کو شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ہر زمانے میں امام معصوم ہوتا ہے ۔ پہلے فرض کی بناپر روایت کا معنی یہ ہوگا کہ امت کےا جتماع میں کبھی خطا نہیں ہوسکتا ہے یہ معنی درست نہیں ہے۔ [44]

ج۔ وہ اجماع معتبر ہے جس سے معصوم کا قول اور رائے انکشاف ہوجائے۔ شیخ محمد رضا مظفر فرماتے ہیں: اجماع کی اجماع ہونے کی حیثیت سے کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ علماء امامیہ کے نزدیک اجماع اس صورت میں معتبر ہے جب اس سے معصوم کا قول کشف ہوجائے پس اگر قطعی طور پر اجماع سے معصوم کا قول اور رائے کشف ہوجائے تو حجت ہے البتہ درحقیقت معصوم کا وہ قول حجت ہے جو اجماع سے کشف ہورہا ہے اور اس بناپر اجماع سنت کے مقابلے میں کوئی مستقل دلیل نہیں بلکہ اس میں داخل ہے ۔

د۔ رسول اکرمﷺ کی جانشینی اور امامت کے بارے میں حدیث غدیر سمیت متعدد روایات موجود ہیں جن میں حضرت علیؑ کی خلافت بلافصل پر صریح دلالت موجود ہے بنابراین اس حوالے سے اجماع سے تمسک کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔

ھ۔ اہل سنت کے مطابق اجماع کی تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اجماع کے لئے ایک زمانے کے تمام علماء و فقہاء یا پوری امت کا اتفاق ہونا ضروری ہے جس کے بعد ہی اجماع کو حجیت اور دلیل کی حیثیت مل جاتی ہے۔ چنانچہ امام غزالی کہتے ہیں: اجماع کا مطلب کسی دینی امر پر پوری امت محمدی کا اتفا ق کرنا ہے۔ [45] ڈاکٹر صبحی صالح اجماع کی تعریف میں کہتے ہیں: اجماع کسی شرعی حکم پر ایک زمانے کے تمام مسلمان دانشور کے اتفاق نظر کو کہتے ہیں۔ دوسری تعریف میں کہا جاتا ہے کہ  اجماع یعنی امت اسلامی کے تمام مجتہدین رسول اللہﷺ کے بعد کسی قابل اجتہاد مسئلے پر اتفاق کریں۔ ان تعریفوں سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اگر امت کا ایک فرد بھی اس اتفاق سے خارج ہوجائے تو اجماع ثابت نہیں ہوتا ہے پس اجماع ثابت ہونا تقریبا محال ہے ۔ چونکہ اجماع ایک محال امر ہے لہذا خلافت جیسے معاملے میں اس کو مستقل دلیل قرار دینا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اگر امت کے بعض افراد کسی مسئلے پر اتفاق کریں تو اس کو اجماع نہیں کہا جاسکتا ہے۔

و۔ اگر اجماع کی تاریخ پر نظر کریں تو اس کی خامی مزید کھل کر سامنے آتی ہے چنانچہ شیخ محمد رضا مظفر لکھتے ہیں کہ اہل سنت علماء کی جانب سے اجماع کو ایک فقہی منبع کے طور پر جعل کرنے کی علت اور تاریخ کی ریشہ یابی  کے لئے ضروری ہے کہ اس ابتدائی مسئلے پر غور کریں جہاں سے اجماع دلیل کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ وہ مسئلہ ابوبکر کی خلافت کا مسئلہ ہے۔ ابوبکر کو خلافت ملنے کے بعد اہل سنت کو قرآن وسنت سے اس کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ملی  اس وجہ سے وہ اجماع کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے اور اجماع کو قرآن وسنت کے ساتھ ایک مستقل دلیل قرار دیا ۔[46]

ز۔ اجماع کے بارے میں اہل سنت کے نظریے میں کئی طرح کے ابہامات پائے جاتے ہیں مثلا اہل حل و عقد سے مراد کون ہیں؟ علماء دین اور فقہی ماہرین ہیں یا معاشرے کے بزرگ شہری؟ پورے مسلمان عوام مراد ہیں یا مرکز میں موجود لوگ؟   اہل سنت کے پاس ان سوالات کا کوئی متفقہ جواب موجود نہیں ہے۔ چونکہ اجماع کی بنیاد دینی دلیل اور منبع پر استوار نہیں ہے لہذا ہر کسی نے اپنے طور پر جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

ح۔ رسول اکرمﷺ کے بعد حضرت علی ؑ کے علاوہ کسی بھی خلیفہ کی بیعت میں عوام کا اجماع نہیں تھا۔ ان کی بیعت میں لوگوں کی رضایت اور مرضی شامل نہیں تھی اور لوگ بعض مہاجر اور انصار کی طرف سے متخب شخص کی بیعت کرنے پر مجبور تھے۔ یہاں تک کہ شورای سقیفہ میں بھی بیعت پر لوگوں کو مجبور کیا گیا تھا۔ تاریخ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ سعد بن عبادہ ابوبکر کی خلافت پر راضی نہیں تھے لہذا ان کو لوگوں کے ہجوم میں ہی اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ حضرت عمر نے اپنے خطبے میں کہا کہ سعد پر ٹوٹ پڑو اور کہا کہ اس کو مارڈالو۔ سقیفہ کے بعد جب حضرت علیؑ اور ان کے پیروکار جب آپؑ کے گھر پر جمع تھے تو ابوبکر کی بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ [47]پس تاریخ اسلام میں ہونے والی بیعتوں میں عوام کی رضایت شامل نہیں تھی اسی وجہ سے معروف اہل سنت فقیہ ماوردی نے اپنی کتاب الاحکام السلطانیہ میں بیعت کے لئے عوام کی رضایت کی شرط ہی ختم کردی ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ صحیح قول یہ ہے کہ بیعت میں رضایت شرط نہیں ہے اور اہل حل و عقد اگر امام کی بیعت کریں تو  بھی بیعت ہوجاتی ہے اس کے لئے انہوں نے حضرت عمر کی بیعت کا حوالہ دیا ہے۔

خلفاء راشدین کے بعد اہل حل وعقد کا اجماع اور بیعت بھی مکمل طور پر اہمیت سے خالی ہوگیا یہاں تک کہ حضرت امام حسین بن علیؑ جیسی شخصیت کو بھی تلوار اور اسلحے کے زور پر بادشاہ کی بیعت پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ عبدالرحمن خلیفہ لکھتے ہیں: بیعت کی دو قسمیں ہیں؛ بیعت انعقاد یعنی وہ بیعت جو اہل حل و عقد کے ذریعے انجام پاتا ہے اور دوسری بیعت اطاعت ہے جو عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور وہ اس بیعت کے ذریعے اپنی اطاعت کا اعادہ کرتے ہیں بنابراین لوگ اس بیعت کی فقط تائید کرتے ہیں تعیین نہیں کرتے ۔

تاریخ میں فقط حضرت علیؑ کی بیعت ایسی تھی جس میں پورے عالم اسلام سے نمائندے جمع ہوکر آپ کی بیعت کی تھی اور مسلمانوں کی قیادت اور امامت کا عہدہ آپ کو سونپا تھا۔

ط۔ اسلام میں در اصل حاکمیت اور ولایت اللہ تعالی کی ذات میں منحصر ہے جس میں کوئی بھی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ تمام موجودات کی ہدایت اس کے ہاتھ میں ہے اور وہی ذات ہے جو مخلوقات کے تمام امور میں تصرف اور قانون گزاری کرسکتی ہے۔ اس خالق  بے نیاز اور اس کے عادلانہ و حکیمانہ دستور کے سامنے سر تسلیم خم کرنا انسان پر واجب ہے۔ عقل اور فطرت انسانی بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔[48]

اس لیے وہ نظریات جو انسانوں کو یہ حق دیتے ہیں وہ توحیدی منطق کے خلاف ہیں اور بنیادی طور پر انسانوں کے پاس حکمرانی کا کوئی موروثی حق نہیں ہے جسے وہ کسی سماجی معاہدے یا بیعت کے ذریعے دوسروں کے حوالے کر سکیں۔ اگر ان کا حق ہے تو وہ حق ہے جو اللہ نے انہیں دیا ہے۔

علامہ طباطبائی اللہ کی حاکمیت کے بارے میں لکھتے ہیں: مستقل طور پر حکم کا حق اللہ سے مختص ہے خواہ تکوینی امور اور حقائق میں ہو خواہ شرعی امور میں یا وضعی اور اعتباری احکام میں، البتہ قرآن میں اللہ تعالی نے تشریعی احکام کو اپنے علاوہ دوسروں سے نسبت بھی دی ہے مثلا سورہ ص کی آیت 26 میں فرماتا ہے : يا داوُدُ إِنَّا جَعَلْناكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعِ الْهَوى‏ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّه‏ اے داؤد علیہ السّلام ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راسِ خدا سے منحرف کردیں۔  جن آیات میں اللہ کے علاوہ دوسروں کی طرف نسبت دی گئی ہے، حکم وضعی اور اعتباری سے مختص ہیں کیونکہ تکوینی احکام میں اللہ کے علاوہ دوسروں سے نسبت دینے کا کوئی مورد وجود نہیں رکھتا ہے[49]

سید ابوالاعلی مودودی رقمطراز ہیں: اسلامی سیاست کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان انفرادی اور اجتماعی صورت میں ایک دوسرے کے امور میں مداخلت کرنے سے باز رہے۔ کسی بھی شخص کو اپنے طور پر قانون بناکر دوسروں پر لاگو کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس صورت میں دوسروں کو بھی اس کو قبول کرنے سے انکار کرنا چاہئے۔ احکام اور قانون بنانے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔[50] پس حاکمیت اور ولایت مطلق (تکوینی ہو یا تشریعی ) اللہ سے مخصوص ہے۔ انسان دوسروں پر ولایت اور حاکمیت کا حق نہیں رکھتا ہےا لبتہ قرآن میں بعض موارد کا استثناء کیا گیا ہے (جوکہ اللہ کے حکم سے ہی ہے) بنابراین اللہ کی اجازت اور حکم کے بغیر ہر قسم کی ولایت حرام اور ممنوع ہے چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصِير[51] اور اس کے علاوہ کوئی سرپرست ہے نہ مددگار ۔ اسی طرح سورہ یوسف کی آیت 40 میں ارشاد ہوتا ہے: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّه‏ اقتدار تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ پس ان آیات کے مطابق اللہ کے علاوہ کسی کو دوسرے پر ولایت اور حاکمیت کا حق نہیں ہے لہذا یہ حق اسی کی ذات میں منحصر ہونے کی وجہ سے وہ ذات دوسروں کے لئے قانون بناکر لاگو کرسکتی ہے اور اپنے اس حق میں سے کچھ حصہ دوسروں کو عطا بھی کرسکتی ہے۔ لو گوں کو کوئی حق نہیں کہ ولایت کا حق کسی کو عطا کریں اور اگر ایسا کریں تو اس کے نتیجے میں ملنے والی ولایت حرام اور غیر شرعی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت ہے کہ ولایت کا ایک مرتبہ انبیاء اور ائمہ معصومین ؑ کو عطا کیا گیا ہے چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت 55 میں ارشاد ہوتا ہے:إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُون‏ تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ اسی طرح سورہ احزاب کی آیت 6 میں واضح طور پر ولایت اور حکومت کو رسول اکرمﷺ کو دیا گیا ہے: النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِم‏ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔ اس آیت میں اولی ہونے کا معنی یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ کا ارادہ مومنین کے ارادے پر مقدم ہے اور اس تقدم کو افعل تفضیل کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے لہذا یہ تقدم اس صورت میں بامعنی ہوجاتا ہے جب دونوں میں تزاحم اور ٹکراو کا موقع پیش آئے پس اس موقع پر رسول اکرمﷺ کا ارادہ مؤمنین کے ارادے پر غالب اور مقدم ہوگا  بنابراین یہ اولویت وہی ولایت ہے جس کو اللہ کی جانب سے لوگوں کے اوپر رسول اکرم ﷺ کو عطا کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اولویت سے مراد ولایت ہونے میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے۔[52]

یہ اولویت اسی حاکمیت کا حقیقی چہرہ اور پہلو ہے۔ کسی کو دوسروں پر حاکمیت حاصل ہونے کا مطلب یہی ہے کہ جب دونوں کے ارادوں میں تزاحم اور تعارض پیش آئے تو حاکم کا ارادہ محکوم کے ارادے پر غالب اور مقدم ہوگا۔ صریح اور واضح روایت کی روشنی میں رسول اکرمﷺ کے بعد یہ ولایت اور حاکمیت ائمہ معصومینؑ کو بھی حاصل ہے چنانچہ حدیث غدیر میں اس حقیقت کو واضح بیان کیا گیا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرتﷺ نے مسلمانوں سے پوچھا: الست اولی بکم من انفسکم؟ قالو: بلی قال: من کنت مولاه فهذا علی مولاه. کیا میں تم سے زیادہ تمہارے نفس پر حق نہیں رکھتا ہوں؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، اس کے بعد فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبراکرمﷺ نے اپنے بعد حضرت علیؑ کو جو حق دیا ہے وہ وہی ولایت ہے جس کو اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں رسول اکرمﷺ کو بخشا ہے۔  پس اگر کسی شخص کو دوسروں پر ولایت ہونا ثابت کرنا چاہیں تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اس شخص کو یہ حق دیئے جانے پر حجت اور قطعی دلیل موجود ہونا چاہئے ۔ اگر کسی شخص کے پاس موجود ولایت کا سلسلہ اللہ تک منتہی نہ ہوجائے تو ایسی ولایت اور حکومت غیر اللہ کی حکومت ہوگی ۔ایسی ولایت کوقبول کرنے سے اللہ  نے منع کیا ہے۔

نتیجہ

مشروعیت بنیادی ترین مفاہیم اور حکومت کے سب سے اساسی مسائل میں سے ایک ہے، جس نے ایک طویل عرصے سے محققین کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رکھی ہے۔تحقیقات کا محور بھی یہ سوال ہے کہ حکومت کے نام پر طاقت کا استعمال کیوں اور کیسے جائز ہو؟ اصولی طور حکومت کو کن بنیادوں پر لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا حق حاصل ہے؟

اس تحریر میں شروعیت کی متعدد تعاریف پیش کرنے کے بعد یہ نتیجہ لیا گیا ہے کہ مشروعیت حقیقت میں حکمرانوں کی حاکمیت کے حق کے بارے میں پیش آنے والا سوال ہے۔

اس تحقیق میں درج ذیل نکات پر تاکید کی جاتی ہے؛

اسلام میں حکومت کی مشروعیت کا منشا اور سرآغاز اللہ کی ذات ہے۔

اللہ تعالی بذات خود حکمرانی کا لباس زیب تن کرکے لوگوں پر حکومت نہیں کرسکتا ہے لہذا اس نے اپنے پیغمبروں اور دوسرے انسانوں کو اپنی ولایت کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔

اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبراکرمﷺ کے دور میں اللہ تعالی نے آپﷺ کو حق حاکمیت عطا کیا تھاالبتہ آنحضرتﷺ کے بعد حکومت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی وجہ سے مسلمان دو بڑے فرقوں شیعہ اور سنی میں تقسیم ہوگئے ۔ شیعہ عقیدے کے مطابق حکومت اور امامت کا مسئلہ اللہ کی جانب سے طے ہوتا ہے جبکہ اہل سنت کے مطابق امامت اور حکومت کئی طریقوں سے حاصل ہوتی ہے مثلا جبر اور زبردستی، بیعت اور انتخاب اور ولایت عہدی کے ذریعے امامت اور حکومت ملتی ہے۔

اس تحقیق میں اہل سنت علماء اور فقہاء کی جانب سے حکومت کی مشروعیت کے بارے میں پیش کردہ اقوال اور منابع کو مورد بررسی قرار دیا گیا ہے۔ محقق کے مطابق انسان سب برابر ہیں اور ولایت ذاتی طور پر اللہ کا حق ہے پس اگر کسی انسان کو دوسروں پر ولایت ثابت کرنا چاہیں تو منطقی دلیل ہونا چاہئے جو اللہ یا اس کے رسول کی جانب سے خصوصی یا عمومی نص کے ذریعے اس شخص کو ولایت ملنے پر دلالت کرے۔ اگر کسی کی حکومت یا ولایت اللہ سے منسوب نہ ہو تو نامشروع شمار ہوگی۔ چونکہ اہل سنت فرقوں کے نظریات قرآن سے مستند نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے نظریات اور عقائد کے صحیح ہونے کے لئے خلیفہ اول اور خلیفہ دوم کے عمل اور سیرت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس استدلال سے اہل سنت کو منطقی جواب ملنے کے بجائے اصل اشکال اپنی جگہ باقی رہتا ہے یعنی اہل سنت اپنے دعوی کو ہی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں بنابراین ان کا استدلال کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔ اہل سنت استدلال کے مطابق طاقت کے بل بوتے یا ولایت عہدی یا عوام کی جانب سے انتخاب کے ذریعے ملنے والی حکومت کو حاصل مشروعیت کسی بھی لحاظ سے قبول نہیں کی جاسکتی ہے۔

[1] : مکتب تشیع میں اجتہاد سے مراد شرعی اصولوں اور دلائل کے ذریعے سے حکم شرعی اخذ کرنے کا نام ہے۔

[2] : سورہ آل عمران، آیت:164۔

[3] : اہل سنت کے مطابق صحابہ اور تابعین کی تعداد ہزاروں میں ہے اب وہ کونسی بات ہے جس کی وجہ سے تمام صحابہ اور تابعین کے قول و فعل کے مطابق دیگر مسلمانوں پر بھی واجب ہوجائے کہ ان جیسا عمل کریں؟!

[4] : کیا سلف صالح کے قول و فعل جن کی کوئی واضح حدود نہیں ہیں، کتاب و سنت کے اندر شرعی احکام کے حوالے سے  ہرج و مرج اور اختلاف کا باعث نہیں بنتے؟ اور کیا مسلمانوں کے درمیان یہ تمام اختلافات یہاں سے نہیں آئے؟!

[5] : اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سلف صالح کا قول و فعل قرآن اور سنت رسول اللہؐ سے نہیں آیا بلکہ انہوں نے جس چیز کو خود اچھا سمجھا یا اس پر عمل کیا یا فتوی دیا ہے ۔ ان کے اور دوسروں کی باتوں میں کیا فرق ہے؟!

[6] : شہرستانی، 1990، جلد 1، صفحہ 117۔

[7] : ابو یعلی، الاحکام السلطانیہ، ص24۔

[8] : ابو یعلی، الاحکام السلطانیہ، ص23-24۔

[9] : ابن قدامہ حنبلی، ص 52۔

[10] : تافتازانی،  صفحہ 271-272۔

[11] : تاریخ طبری، ص428۔

[12] : ابو الحسن ، ماوردی،  کتاب الاحکام السلطانیہ، ص 6۔

[13] : روزبہان، خنجی اصفہانی، کتاب سلوک الملوک، ص80۔

[14] : ابن  قدامہ حنبلی، ج10، ص52۔

[15] : ماوردی، کتاب الاحکام  السلطانیہ، ص6-7۔

[16] : قرطبی، ج۱، ص268-269۔

[17]  یونس/99

[18]  نیشابوری، ج3، ص1476

[19]  طہ/62

[20]  مومنون/ 47.45

[21]  ھود/113

[22]  ابن ابراہیم، ص338

[23]  شعراء/150.151

[24]  نھج البلاغہ، ص317

[25]  غزالی، ص237

[26]  ایضا

[27]  طبری، 1939، ص

[28]  ماوردی، 1973، ص

[29]  خنجی‌اصفهانی، 1362‌‌‌، ص

[30]  ابن‌قدامه حنبلی، 1929، ج 10، ص 52

[31]  کلینی، بی‌تا، ج 2، ص 25

[32]  کلینی، ج 2، صص 26 و 25

[33]  کلینی، ج 2، ص 25

[34] بقرہ/124

[35]  ماوردی، 1973، صص 7 –

[36]  القرطبی، 1376، ج 1، صص 269-

[37]  طاهری، 1372، صص 175 –

[38]  بخاری، 1407 ق، ج 4- ص

[39]  فیض‌الاسلام، صص 418-

[40]  عبدالرازق، 1988، ص 111

[41]  خطیب، 1975، ص 272

[42]  کدیور، 1376، ص 76

[43]  حجرات/1

[44]  حسینی‌طهرانی، 1401 ق، صص 53 – 52

[45]  غزالی1937ج1،ص180

[46]  مظفر، 1405، ج 2، صص 90 –

[47]  ابن‌ابی‌الحدید، 1378 ق،  ج 6، ص 11

[48]  منتظری، 1367، ج 1، صص 113-112

[49]  طباطبایی،1363،ج7، ص 118-117

[50]  مودودی،‌ بی‌تا، ص 27

[51] بقرہ/107

[52]  آصفی، 1955، ص 72

(بازدید 3 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *