عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام درس5

پانچواں سبق

عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام درس5 

فلسفہ  سیاست کے تناظر میں

نظریہ ولایت فقیہ  کا جائزہ

سبق کے اہداف:

1۔اہل سنت کے سیاسی نظرئے سے آشنائی

2۔اہل سنت کے سیاسی نظر‎ئے کے تاریخی پس منظر سے آشنائی

مقدمہ

اہل سنت کا  سیاسی نظریہ ،  اس کا  تاریخی پس منظر اور شیعہ سیاسی نظریہ کے ساتھ اس کا فرق ،  ایسے موضوعات ہیں جو ولایت فقیہ کے موضوع کو درست اورگہری حد تک سمجھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔  اس لیے ولایت فقیہ کی بحث میں داخل ہونے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم سیاست  سے متعلق اہل سنت کے  نقطہ نظر سے واقف ہوں۔ اہل سنت کے سیاسی نقطہ نظر  کے بارے میں تفصیلی بحث کرنے سے پہلے ہم یہاں چند اہم اور بنیادی نکات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

پہلا نکتہ:

نظریاتی پشت پناہی حاصل ہونے  کے لحاظ  سے سیاسی نظریات کی تقسیم بندی

سیاسی نظریات کا عقل نظری([1]) کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

الف: تھیوری پر مبنی سیاسی نظریات(تھیوریکل سیاسی فلسفے)

اس قسم کے سیاسی فلسفے میں نظریہ  اس نظریے  کے قالب اور عمل سے پہلے  موجود ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے معاشرے کی سطح پر کوئی نظریہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کے  لیے ایک خاص قالب اور عملی شکل مہیا کرنے کے لیے   سماج میں رائے عامہ  ہموار  اور سماجی طور پر اس نظریے کو منوانے کے لیے عقلی بنیادوں پر زمینہ سازی ہوتی ہے تاکہ مذکورہ نظریے کے لیے  اس سے  ہماہنگ اور مناسب قالب اور  عملی رویہ اختیار کیا جائے۔ دوسرےمرحلے میں اسے اجتماعی اور سماجی رفتار میں تبدیل کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ مثلا سماج میں پہلے  مشہور کیا جاتا ہے کہ سیاسی  نظریہ رائے عامہ  اور عام لوگوں کی آراء اور نظریات کے مطابق بننا چاہیے پھر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک خاص قالب اور طریقہ کار  بنایاجاتا ہے اور اسی طریق کار کے مطابق انتخابات کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس طرح عام لوگ اسے نظریے کی عملی شکل  کے  وجود میں آنے میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

ب: عمل محور  سیاسی نظریات:

 اس قسم کے سیاسی فلسفے  میں، عمل اور اقدام،  نظریہ اور اس سے متناسب شکل  سے پہلے ہوتا ہے، بالفاظ دیگر کسی خاص ساختار(FRAME WORK) کے بغیر   پہلے عمل یااعمال انجام دیے جاتے ہیں پھر اس عمل کو منطقی ،عقلی، شرعی اور قانونی حیثیت دینے کے لیے نظریہ بنایا جاتا ہے، یا  مثلا یہ کہ ماضی  میں  کچھ اعمال آباو و اجداد نے  سرانجام دیے ہیں  ان کے منطقی اور قانونی پہلو کو ثابت کرنے کے لیے نظریات بنائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ  اہل سنت کا یہ بیان کہ صحابہ کے افعال و اعمال ہمارے  لیے ذاتا (کسی دوسری دلیل کا سہارا لیے بغیر)حجت ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں بیان کریں کہ اس نظریے کے تحت پچھلے  لوگوں کا عمل اگلے لوگوں کے عمل کے لیے  جواز فراہم کرتا ہے، اور یہ نظریہ عمل کے انجام پذیر ہونے کے بعد تشکیل پاتا ہے، لہٰذا اس قسم کے سیاسی فلسفے میں عمل، نظریہ اور کسی خاص ساختار سے پہلے ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنایا گیا نظریہ بنیادی طور پر کسی خاص منطقی اور قانونی شرعی  قالب میں ڈھالنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ اس نکتے کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ شیعہ تھیوریکل سیاسی نظریہ کا حامل مکتب ہے جبکہ اہل سنت اس لحاظ سے  عمل محور سیاسی نظریات رکھتے ہیں ۔

دوسرا نکتہ

ساختار (FRAME WORK)کا مفہوم

ساختار، اجزاء کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے باقاعدہ اور منطقی انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں ایک خاص  طرز عمل اس مقصد کے حصول کے لیے باربار اور آسانی کے ساتھ لوگوں سے سرزد ہوجائے۔

جیسے ہم اگر کسی میڈیکل سٹور  میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے  ہمارا سامنا ایک ہال سے ہوتا ہے جو ایک بڑی میز کے ذریعے دو حصوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے جس کے پچھلی جانب اس میں کام کرنے والے ملازم  ہوتے ہیں۔  میڈیکل سٹور میں موجود  اس  ہال کی  مختلف جوانب میں  شیلف لگے ہوتے ہیں۔جن میں  منظم انداز میں دوائیاں رکھی ہوتی ہیں تاکہ میڈیکل سٹور  کا عملہ کسی الجھن کے بغیر  آسانی سے مطلوبہ دوائیاں  گاہکوں کو پیش کر سکے۔ہم یہاں مشاہدہ کرتے ہیں کہ اسی ایک ہی ہال میں کئی قسم کے ملازم  ہیں جو  اپنے  اپنے  کاموں میں مصروف ہیں۔ ایک ملازم دوائی کے  نسخے لینے  کا انچارج ہے دوسرا شخص  رقم وصول کرنے کا ذمہ دار ہے اور تیسرا  شخص  گاہک کو  دوائیاں دینے کا کام انجام دے رہا ہوتا ہے۔ ہال کے دوسرے حصے میں کلائنٹس کے لیے کرسیاں لگی ہوتی  ہیں۔اور انہیں معلوم ہے کہ جب وہ میڈیکل سٹور  میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں پہلے دوائی کا  نسخہ دینے کے لیے کاؤنٹر پر جانا چاہیے اور نسخہ قبول کرنے کے بعد انہیں کیشر کے کاؤنٹر پر جانا چاہیے اور ویٹنگ ہال میں اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ بالآخرہ کلائنٹس  اپنی مطلوبہ  دوا وصول کرتے ہیں۔  یہ عمل باقاعدگی، کثرت سے اور روزانہ کی بنیاد پر سب لوگوں کی جانب سے  آسان طریقے سے انجام پذیر ہوتا ہے، جسے ہم میڈیکل سٹور  کی ساختار اور فریم ورک سے تعبیرکرتے ہیں۔

اس مثال کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشروں کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتاہے، ایک وہ معاشرہ جہاں  ایک خاص نظم و ضبط  ہوتا ہے جسے منظم ، مہذب  اور متمدن معاشرہ کا نام دیا جاتا ہے ۔  اس کے مقابلے میں  دوسرا معاشرہ ہے جہاں کسی  قسم کا اجتماعی نظم و نسق موجود نہیں ہوتا۔ اس طرح کے معاشروں کو  ہم غیر مہذب معاشرے سے تعبیر کرتے ہیں۔

مندجہ بالا دو نکتوں  کا نتیجہ یہ ہے کہ  اہل سنت کا سیاسی نظریہ ایک خاص تاریخی پس منظر  کا حامل ہے اور مختلف مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے(جس کی تفصیلی بحث آنے والے سطور میں بیان کی جائے گی) لیکن یہاں کلی طور پر جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اہل سنت  کے سیاسی نظریے کی بنیادیں  صدر اسلام کے مسلمانوں کے تاریخی تجربے سے جاملتی  ہیں۔ یعنی صدر اسلام کے مسلمانوں  کے ذریعے سے ایسے سیاسی واقعات رونما ہوئے ہیں جو مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر  منطقی اور قانونی پیچیدگیوں کے حامل تھے۔ پھر ان  واقعات اور اعمال کے لیے نظریہ سازی کی گئی۔ ان تمام چیزوں کو سمجھنے کے لیے ہم آنے والے سطور میں تفصیلی بحث بیان کریں گے۔

تیسرا نکتہ

اسلام سے پہلے جزیرہ نما عرب کی سماجی اور سیاسی حالت

جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ کو قبل از اسلام(جاہلیت کا دور) اور اسلام کے بعد کے ادوار میں تقسیم کیاجاتاہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں، چونکہ ان خصوصیات پر توجہ دینے سے ہمیں اہل سنت کے سیاسی نظریے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے لہذا  جزیرہ نما عرب کی سماجی اور سیاسی صورت حال پر ایک اجمالی نظر کرتے ہیں۔

الف: جزیرہ نما عرب کی اجتماعی حالت

چونکہ اسلام سے پہلے حجاز کے علاقے میں کوئی شہری یا  ریاستی حکومت نہیں تھی اس لیے سماجی زندگی کی بنیاد مختلف قبائل کی جانب سے غیر منظم انداز میں ہوا کرتی تھی۔لغت اور نسب  نگاروں کے مطابق قبیلہ ایک ایسے گروہ اور  جماعت کا نام ہے  جو ایک باپ سے منسوب ہو اور اسی سے اس کی نسلیں پھیلی ہو۔ لہٰذا عرب میں قبیلہ سے مراد وہ گروہ ہے جو “نسب” اور “رشتہ داری” کی بنیاد پر ایک ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ (کبھی قبیلہ  سے مراد وہ  شخص ہوتا تھا جو اس قبیلے کی حفاظت اور حفاظت کا ذمہ دار ہو اور کبھی قبیلہ کا نام رہائش کی جگہ کے نام سے لیا جاتا ہے جیسے بجیلہ یا کسی لقب کے ذریعے  منسوب کیا جاتا تھا جیسے قبیلہ خندف)۔ یہاں پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ عرب قبائل کے نام کا تعلق جانوروں کے ناموں سے ہے نہ کہ ایک باپ سے۔ جیسے  بنی اسد (شیر کے بچے)؛ بنی یربوع(چوہے کے بچے) بنی ثور (گائے کے بچے)؛ بنی حجش (گدھوں کے بچے)؛ بنی جرد (ٹڈی کے بچے)؛ بنی حمامہ (کبوتر کے بچے)؛ بنی دب (ریچھ کے بچے)؛ بنی ذئب (بھیڑیوں کے بچے)؛ بنی عنز (بکری کے بچے)؛ بنی غراب (کوےکے بچے)؛ بنی فہد (چیتے کے بچے)؛ بنی قرد (بندر کے بچے)۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ قبائل کے یہ نام نیک  یا بدشگونی کی وجہ سے رکھتے تھے۔ چونکہ ہر جانور میں ایک خاص صفت ہوتی  ہے جو کہ قبیلوں کے  خیال میں ان کا نام رکھنے سے وہ صفتیں ان میں ظاہر ہوتی تھیں اس لیے وہ اپنے آپ کو ان جانوروں سے منسوب کرتے تھے۔مثلاً بنی کلب (کتے کے بچے) میں وفاداری کا وصف تھا جو کتے کی خصوصیت ہے۔ انہوں نے خود کو اس سے منسوب کیا۔ جانوروں کے نام سے منسوب کیے جانے کی دوسری وجہ یہ کہ  جزیرہ نما عرب کے  باسی جانوروں کے ساتھ اپنی انسیت برقرار  کرنے اور ان کی صفات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے اپنے قبیلوں کا نام انہی کے نام سے رکھتے تھے۔

عرب کے تمام قبائل میں مشترکہ اصول ان کا خونی رشتہ اور سرزمین  تھا۔ سب سے مضبوط چیز جس نے قبیلگی نظام  کو زندہ رکھا اور اس کے استمرار کا سبب بنی وہ “تعصب” کا عنصر تھا۔ قبیلے کے ہر فرد کے لیے ضروری تھا کہ وہ قبیلگی تعلق اور اس کی مضبوطی اور تسلسل کو برقرار رکھنے میں مستعدی سے کام لے۔ اس سلسلے میں وہ  اپنی جان و مال تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی جرم کا ارتکاب کرتا تو پورے قبیلے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا اور اگر قبیلے  میں کوئی فخریہ کارنامہ  سرانجام دیتا تو اس میں سب شامل ہوتے۔ یہ اصول، یہاں تک کہ اچھائی اور برائی کے عنصر کے طور پر مانا جاتا تھا۔ جیسا کہ ان کے درمیان یہ کہاوت مشہور تھی: «فی الجریرة تشترک العشیرة» یعنی تمام قبیلے والے  قبیلے کے ایک فرد کے گناہ میں شریک ہیں۔

جنگ اور انتقام جوئی وہ دو عوامل تھے جو قبیلوں کی فکراور عمل پر حاکم تھے اور قبیلہ کے تما م لوگ ان  دونوں میں سے کسی ایک پر عمل کرنے میں مسلسل کوشش کر تے تھے۔ ہر وہ عمل جو قبیلے کی مضبوطی اور ان کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے مفید ہو عربوں کے لیے قابل احترام اور ضرور   اس پر  عمل ہوتا تھا۔

جزیرہ نما عرب میں پانی کی شدید قلت عربوں کے طرز زندگی اور معاشی سرگرمیوں کو تشکیل دینے والے سب سے اہم عوامل میں سے تھی۔ زراعت محدود علاقوں کے علاوہ کہیں موجود نہیں تھی۔ اونٹ عربوں کی زندگی میں نہایت اہم عنصر اور  محبوب جانور سمجھا جاتا تھا۔ بعض جگہوں پر محدود تعداد میں بھیڑیں بھی  رکھی جاتی تھیں۔ اس طرح عربوں کے ہاں مال مویشیوں کا محدود انتظام ہوتا تھا تاکہ وہ کسی علاقے میں کچھ دن گزار کر دوسری جگہوں پر آسانی سے نقل مکانی کرسکیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شہری زندگی میں  ترقی کا فقدان رہا اور  قدرتی طور پر ان کے ہاں پیشہ ورانہ اور صنعت کی ترقی نہیں ہوسکی۔[2]

سرزمین مکہ میں کوئی پیداوار ی نظام نہیں تھا، یہاں قابل کاشت زمین ناپید تھی۔  ان کے ہاں اپنے استعمال کے سامان اور دوسروں کو پیش کرنے کے لیے مصنوعات کی کمی رہا کرتی تھی۔ چنانچہ مکہ کے باشندے تجارت اور کاروبار کو اپنا مشغلہ بنا رکھا تھا اور اپنی ضروریات زندگی بیرون شہر مکہ سے درآمد کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ  کئی  ایک جہات سے تجارت اور کاروبار کے لیے نہایت مناسب میدان سمجھا جاتا تھا۔

1: مکہ مکرمہ جاہل عرب قبائل کے لیے بھی تقدس و حرمت کی جگہ شمار ہوتا تھا،

2: مکہ محل امن اور محفوظ جگہ سمجھا جاتا تھا،

3:  دنیائے عرب کے  مسلمان  قبائل حج کے ایام (ماہ رجب المرجب اور ذی الحجہ)میں حج بیت اللہ کی ادائیگی جبکہ مشرک قبائل اپنے بتوں کی پوجا کرنے کے لیے مکہ کا رخ کرتے تھے۔

حجاز کی تجارت  اور کاروباری باگ ڈور تقریباً  اہل قریش اور ان کے اشرافیہ طبقہ  کے ہاتھوں میں تھی۔ اہل قریش شمال میں فلسطین اور شام  کے ساتھ اور جنوب میں یمن کے ساتھ تجارت کرتے تھے اور بعض اوقات تاجر سمندر کے راستے حبشہ اور نجد سے حیرہ (عراق) سے لیکر ساسانی ایران کے دارالحکومت مدین تک جاتے تھے اور شاید ایران میں بھی بغرض تجارت آجایا کرتے تھے۔یہاں تک کہ اہل قریش کے روم، مصر اور ہندوستان سے تجارتی تعلقات  قائم تھے۔ مکہ کے تاجر گرمیوں میں شمال کی جانب سفر کیا کرتے تھے چونکہ موسم گرما میں یہاں خوشگوار موسم  ہوتا تھا اور سردیوں میں جب موسم سرد ہوتا تھا تو وہ جنوب کی طرف جاتے تھے۔ قریش کے تاجر اپنے تجارتی سفر کے دوران خوفناک اور گرم صحراؤں، خاموشی چھائی ہوئی میدانوں،  پانی اور درخت سے محروم سنگلاخ اور خشک  جگہوں اور  غیر آباد اور نشانیوں سے خالی مقامات سے گزرتے ہوئے  سینکڑوں میل کا سفر طے کیا کرتے تھے۔

 مکہ کے تاجر  تجارتی سفر میں اپنے قافلوں کی رہنمائی کے لیے عرب کے بدوں سے مدد لیتے تھے جو صحرائی راستوں اور میدانوں کی بیچ کی راہوں سے بخوبی واقف ہوتے تھے۔ مکہ میں لگائے جانے والے بازاروں میں سب سے مشہور  بازار “بازار عکاظ” تھا جس میں رسول خدا(ص) نے بھی اپنی جوانی میں یہاں رفت و آمد  کی ہے۔ ذی القعدہ کے مہینے میں عرب اپنے قبائلی اعزازات کا اظہار کرنے، اشعار سنانے،  خطاب کرنے اور اپنی شناخت کروانے  کے لیے بازار عکاظ میں جمع ہوا کرتے تھے۔

 کہا جا سکتا ہے کہ مکہ کے لوگ عموماً تاجر تھے اور اس طریقے سے مال و دولت حاصل کرتے تھے۔ مزید یہ کہ چونکہ مکہ کے لوگ سال میں ایک بار زائرین کعبہ اور مختلف قبائل جو حج کے لیے آتے تھے ان کا استقبال کرتے تھے اس طرح قریش بہت سے منافع حاصل کرتے تھے ۔

ان کی تجارت کے تبادلے میں استعمال ہونے والی چیزوں میں  یمن  اور ہندوستان کی مصنوعات مثلا سونا، چاندی، کھالیں، چمڑے، مصالحہ جات، عطر وغیرہ شامل شامل تھا جبکہ مصر اور فلسطین سے لینن، ریشم، ہتھیار، غلہ، زیتون اور زیتون کا تیل وغیرہ معاملہ ہوتا تھا۔ قریش کی تجارت اور  معاملات میں سود  عام تھا۔

عرب کے مال دار تاجر نے  تجارت سے حاصل ہونے والے منافع کے علاوہ سود سے حاصل ہونے والے منافع کو بھی اپنی بھرپور آمدنی کا ذریعہ بنا رکھا تھا اور  سود کو خرید و فروخت کا اہم حصہ سمجھا جاتا تھا۔

ب: جزیرہ نما عرب کی سیاسی حالت

جزیرہ نما عرب میں  سیاسی حالت دو بنیادی ستون پر استوار تھی،  پہلا ستون قبائلی نظام اور دوسرا ستون بیعت کا نظام تھا۔

الف: قبائلی نظام

جزیرہ نما عرب میں جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت حجاز میں اور  خاص طور پر مکہ اور اس کے اطراف میں نہ تو کوئی مرکزی حکومت (ریاست) تھی اور  نہ ہی کوئی بادشاہ اور حاکم تھا  جو اپنے  ماتحت نوکر  چاکر رکھےہوۓ ہو ؛ یہاں تک کہ چھوٹی حکومتیں (سٹی گورنمنٹ) بھی نہیں تھیں۔ مکہ میں متعدد قومیں اور قبیلے زندگی بسر کرتے تھے  اور ہر قوم و قبیلہ کے اپنے انتظامات ہوتے تھے جو   قوم و قبیلے کا سربراہ ان کا سردار ہوتا تھا اور اس قانون کا اجرا اس کے اختیار میں ہوتا تھا۔  یہی سربراہ اہل حل و عقد اور تمام چیزوں کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔7

لہٰذا اسلام سے پہلے عرب معاشرے کی زندگی کی بنیاد قبائلی تھی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں عربوں کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا قبائلی نظام تھا۔ بہت سے قبیلے  پورے  جزیرہ نما عرب میں بکھرے ہوئے تھے اور ان کے تمام معیارات اور اعزازات قبائلی وابستگی پر مبنی تھے۔  در حقیقت  قبیلگی نظام صحرائی زندگی  کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی جس میں ایک محدود اور مقررہ علاقے کے علاوہ ریاست کے تمام انتظامات  کا اجرا ہوتا تھا۔ 8

ہر قبیلے کے ہاں قانون ساز  ادارہ کی مانند بزرگان کی   ایک مجلس ہوا کرتی تھی  جس کا سربراہ ایک عمررسیدہ   شخص ہوتا تھا جسے انہی بزرگان میں سے منتخب کیا جاتا تھا اور قبیلے کا سربراہ شیخ، امیر اور سردار  کہلاتا تھا جو قبیلے کے معاملات اور مختلف  امور کے سلسلے میں فیصلے کرتا تھا۔ جیسے جنگ اور امن  وغیرہ کا اعلان کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی تھی۔

عرب قبائل میں قبیلے کی سربراہی  اور سرداری اکثر  و بیشتر ورثے میں ملتی تھی اور قبیلے کے سردار کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا (یا اس کا سب سے لائق بیٹا) باپ کا جانشین بنتا تھا۔ 10  البتہ  بعض اوقات  اگر متوفی کا بیٹا  ہی نہ ہو یا اس کے بیٹے اس کی جانشینی پر جھگڑا اور اختلاف کرتے تو اہل حل و عقد  اس طرح کے  تنازعات کو حل کرتے ہوئے کسی مناسب اور طاقتور شخص کو قبیلے کا سربراہ اور سردار منتخب کرتے تھے۔ قبیلے کا سربراہ منتخب ہونے کے بعد قبیلے کے تمام افراد اس کے ہاتھوں پر بیعت کرتے تھے۔ 11

ب: بیعت

 زمانہ جاہلیت کی ایک اور رسم جس نے عرب کی سماجی اور سیاسی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا بیعت تھی۔ بیعت ایک اہم ترین روایت تھی۔ بلاشبہ زمانہ جاہلیت کی سب سے اہم رسم اور قانون اور دوسری روایات کورائج کرنے اور ان پر دستخط کرنے کا ایک  عام ذریعہ بیعت ہی تھی۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ زمانہ جاہلیت میں بیعت کا اپنا ایک معنی تھا۔ بنیادی طور پر اس کا مطلب انتخابات اور عوامی رائے پر مبنی سیاسی نظام کی تشکیل نہیں تھا کیونکہ بیعت کی دو قسم کے اہداف ہوتےتھے:

1:  بزرگان قبیلہ کی جانب سے مقرر کردہ شخص کی سرداری کو ماننے کااظہار کرنا ،  اس  سے وابستگی اور اس کے ساتھ  وفاداری کا اعلان کرنا،

2: قبیلے کے سردار کو حکومت اور  زعامت عطا کرنے کی علامت کے طور پر بیعت کا سہارا لیتے تھے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں زمانہ جاہلیت میں بیعت کے متعلق  درجہ ذیل چند نکات کو سمجھنا ہوگا۔کیونکہ  اس دور میں بیعت کی مختلف شکلیں ہوتی تھیں جیسا کہ:

1: مصافحہ اور کلام کے ذریعے بیعت (دونوں ایک ساتھ)؛ بیعت غالبا اس طرح ہوتی تھی اور جب بھی بطور مطلق بیعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو یہی صورت ذہن میں آتی ہے۔

2:  صرف کلام کے ذریعے بیعت؛ اس قسم کی بیعت عورتوں سے متعلق ہوا کرتی تھی۔

3:  خط و کتابت کے ذریعے بیعت؛ 17.

 بیعت کی مختلف اقسام اور صورتوں پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہمیں ایسے عہد و پیمان بھی نظر آتے ہیں جن میں جو بیعت کے عام طریقہ سے انجام پانے کے علاوہ (یعنی ہاتھ دینا اور مصافحہ کرنا) قسموں اور الفاظ کے ساتھ اس بات پر تاکید کی جاتی تھی، اور انہیں حلف کہا جاتا تھا۔ اس لیے واضح رہے کہ ان قسموں  میں بیعت صرف قبائل کی ایک دوسرے سے وفاداری اور وابستگی کے اظہار کے لیے تھی۔ اس لیے زمانہ جاہلیت میں مختلف بیعتوں کا جائزہ لینے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ  بیعت کا وفاداری کے اظہار سے بڑھ کر اور کوئی مطلب نظر نہیں آتا،  بیعت  کی ان قسموں میں ہمیں حکومت کی تشکیل  کے سلسلے میں انشاء جیسا عقد و تعہد نظر نہیں آتا بلکہ صرف کچھ معاہدات ہیں  جو افراد کے درمیان اچانک اور  اجباری حالت میں طے پاتے تھے۔مثال کے طور پر حلف الفضول جو کہ عبداللہ ابن جدعان کے گھر میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ غیروں اور اجنبیوں پر ظلم نہ کیا جائے اور ظالم سے مظلوم کا حق چھین لیا جائے گا۔20یا  مثلا “لقعۃ الدم” کامعاہدہ، جس میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو اور حجر اسود کی تنصیب کے تنازعہ کے دوران ہر ایک نے اپنے اور اپنے قبیلے کے لیے حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف حاصل کرنے کی کوشش کی، اور اس سے ایک شدید اختلاف برپا ہوا   اورایک دوسرے سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور بنو عبد الدار اور بنو عدی بن کعب بن لوئی نے ایک دوسرے سے معاہدہ کیا اور موت تک لڑنے کی بیعت کی۔ انہوں نے خون سے بھرا ایک برتن تیار کیا اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبودئے جس کی وجہ سے یہ معاہدہ “لقعۃ الدم”کے نام سے مشہور ہوا۔البتہ  بعد میں کوئی جنگ نہیں ہوئی اور رسول خدا(ص) کی بہترین حکمت عملی سے یہ معاملہ بغیر خونریزی کے ختم ہو گیا۔21  اس  عہد نامے میں جو چیز مشاہدہ کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری  کا اعلان کرتے ہوئے اس پر ڈٹے رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ پس قبیلے کے سردار چننے کے بعد اس کی بیعت کا مطلب بھی یہی ہے کہ  ہر فرد اس کی اطاعت کرنے کا عہد و پیمان کرے گا  نہ کہ اس کا انتخاب منظور نظر ہے اور قبیلے کے سردار کی طرف سے فرد کی قبائلی حمایت مراد ہے، کیونکہ کسی شخص کی جانب سے قبائلی رکنیت قبول کرنے کا یہ مطلب یہ ہوگا کہ  قبائلی نظام اور حقوق کے مطابق وہ  مساوی سہولیات سے مستفید ہونا چاہتا ہے۔ پس قبیلے کے  کسی بھی رکن کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ قبائلی سردارکے ووٹ اور آرڈر یا قبائلی روایت اور نظام سے ہٹ کر قبیلے کے اتحاد کو پارہ پارہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو اسے قبیلہ سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا جایا تھا اور یہ اس کی بدترین سزا تھی کیونکہ قبیلہ کے بغیر  کسی شخص کی نہ صرف کوئی شناخت نہیں ہوتی بلکہ اس کی کوئی قدر و قیمت بھی نہیں ہوتی تھی۔

چوتھا نکتہ

اسلام کےبعد جزیرہ نما عرب کے سیاسی اور اجتماعی حالات

رسول خدا(ص) کی بعثت  کے  ساتھ جزیرہ نما عرب  کےسماجی اور سیاسی حالات  میں بنیادی طور پر تبدیلی آنے لگی۔ کیونکہ حضور(ص) وحی اورعقلی اساس  پر مبنی ایک دینی اور الٰہی معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے جس میں سماجی یکجہتی عقیدہ کی بنیاد پر ہو نہ کہ  خاندانی اور قبائلی رشتوں کی بنیاد پر۔

پیغمبر خدا(ص) چاہتے تھے کہ  ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی  جائے جس میں  مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جائیں:

1:ایسا معاشرہ جسے  دین اسلام کی تعلیمات کی بنیاد  پرتشکیل دیا گیا ہو،

2: ایسا منظم معاشرہ جس  میں نظریاتی بنیادیں  مضبوط ہوں اور ان سے ہماہنگ رفتار و اعمال موجود ہوں،

3: ایسا معاشرہ جس میں نظریات  سے لے کر اقدار تک، اور اسی طرح افراد کے انفرادی اور سماجی رفتار اور طرز عمل تک ہر چیز خالص اسلام کے فکری نظام کے مطابق ہو،

4: ایسا معاشرہ جس میں حقوقی نظام کی بنیاد دینی تعلیمات ہو۔

5: ایسا معاشرہ جس میں سیاسی  اور حکومتی نظام کے سلسلے میں اطاعت اور زمام  حکومت سنبھالنے کے حوالے سے سلسلہ مراتب کا خیال رکھا جائے یعنی ولایت خدا کے بعد ولایت رسول اور اس کے بعد ولایت صاحبان امر کی اطاعت میں  سلسلہ مراتب کی رعایت کی جائے۔

6: ایسا معاشرہ   جس کے لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر دین کو یقین کی  حد تک قبول کرتے ہوں  اور دینی تعلیمات کے بارے میں وسیع فہم رکھتے ہوں اور اپنے طرز عمل  کے انتخاب میں دین کو اہمیت دیتے ہوں۔

ایسی خصوصیات کے حامل  معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری تھا کہ دین کو مکمل طور پر سمجھا جائے اور اس کے تمام احکام  کا معاشرے میں  اجراء کیا جائے،  لوگوں میں دینی  بصیرت بطور اتم پائی جائے، ورنہ معاشرہ اپنے اصل راستے سے ہٹ جاتا اور  دین   کے سلسلے میں مختلف قسم کی غلط فہمیاں وجود میں آتیں۔ جیسےبعض لوگ فہم دین کے سلسلے میں متحجرانہ ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض لوگ دین کے  اجتماعی پہلوؤں میں سوء فہم کا شکار ہوتے ہیں۔بعض لوگ دین فہمی میں انحراف کا شکار ہوتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگ دین کے اصولوں کے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور دین کےمقاصد سے نابلد ہوتے ہیں۔اشرافیہ دین کو  سرمایہ داری اور تکاثر  در اموال کے نقطہ نظر سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ اور … تشکیل دیے گئے تھے۔ . وہی چیز جس سے اسلامی معاشرہ اپنی تشکیل کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کی زندگی میں مبتلا تھا، کیونکہ دوسری طرف اس میں جاہلانہ افکار و رسوم کے ذخائر بدستور موجود تھے۔ قدر اور اس کی عزت تھی، اور دوسری طرف، اسے ایک ایسے مذہب کی طرف بلایا گیا جو سابقہ ​​تمام بنیادوں کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کرتا تھا اور دوسری بنیادوں کو بدلنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے اس معاشرے کے لیے ان بنیادوں کو سمجھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں مدینہ کا معاشرہ ابھی تک شناخت  کے میدان میں بحران کا شکار تھا اور نئی شناخت سے ہم آہنگ نہیں ہو سکا تھا۔

اس لیے ایک طرف ان کا مقابلہ اسلام کے بنیادی اقدار سے ہوا، جس نے انسانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر  مرتبہ اور احترام دیا تھا (ان اکرمکم عندالله اتقاکم)  دوسری طرف قرآن کے مطابق، قبائلی تعصب ، مال و زر کی بنیاد پر تفوق طلبی  اور  ایک دوسرے کی بے جا حمایت جیسی صفتیں ان کا فطرت ثانیہ بنی ہوئی تھیں۔(الهاکم التکاثر حتي زرتم المقابر)

پانچواں نکتہ

 شناخت کا بحران

 کسی بھی معاشرے میں لوگوں کے اپنے تشخص اور شناخت  کے سلسلے میں بحران کا شکار ہونے کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔ ذیل میں ہم بعض عوامل کو بیان کرتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ کچھ معاشرے منظم اور متمدن ہوتے ہیں جبکہ دوسرے  بعض معاشرے تمدن اور تہذیب سے عاری ہوتے ہیں۔منظم، مہذب اور متمدن  معاشروں سے مراد وہ معاشرے ہیں جہاں لوگ اپنے مشترکات کی وجہ سے مل جل کر رہتے ہیں اور ان کے باقاعدہ  ایسے اصول و ضوابط  ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر معاشرے کے افراد کے درمیان تعلقات برقرا ہوتے ہیں اور ان کی خاص فریم ورک اور ساختار ہوتی ہے جو اس معاشرے پر حاکم ہوتی ہے۔ اس طرح کے متمدن اور مہذب معاشروں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی قسم کے معاشرے وہ معاشرے  ہیں جو  خود تہذیب ساز ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے معاشرے ایسے معاشرے  ہیں  جن میں تہذیب سازی کا کوئی عمل انجام نہیں پاتا۔ ایسے غیر تہذیب ساز معاشروں میں تہذیب و تمدن  پیدا کرنے کے لیے  اپنے تشخص اور شناخت کے معیارات میں تبدیلی لانے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں۔لہٰذا اس قسم کے معاشرے  تہذیب سازی کے ابتدائی مرحلے میں تشخص اور  شناخت کے بحران کا شکار  ہوتے ہیں کیونکہ اس مرحلے پر پہلےخواص  اور پھر ان کے زیر اثر معاشرے کے تمام افراد (یا  ان کی اکثریت) اپنے تشخص اور شناخت کی  ایک واضح اور نئی تعریف تک پہنچ جاتے ہیں اور  اس کے ذریعے کچھ بنیادی سوالات کے جوابات اخذ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

 بنیادی سوالات جیسے، ہم کون  ہیں؟ ہمارا دنیا سے کیا رابطہ  ہے؟ ہمیں اس دنیا میں کیا کرنا چاہیے؟ ہماری  سعادت اور خوشبختی کس چیز میں مضمر ہے؟ اس کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟ ہم انہیں کیسے اور کس متناسب ساختار اور فریم ورک کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں؟ غیر مہذب  معاشرے ابھی تک  تہذیب سازی کے مراحل سے کیوں نہیں گزرے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ  ایک طرف وہ نئی شناخت سے یا تو اچھی طرح آشنا نہیں ہیں یا اس کی نئی اقدار کو قبول کرنے کے  عادی نہیں ہیں اور دوسری طرف ان میں پرانی ثقافت کی جڑیں  اب بھی موجود ہیں۔ اس لیے وہ شناخت کے بحران کا شکار ہیں، یعنی وہ اب بھی علمی طور پر پچھلی اقدار پر زور دیتے ہیں اور اس کی نسبت  دلی خواہش رکھتے ہیں، اور اسی کے مطابق اپنے رویے کو منظم کرتے ہیں اور چونکہ وہ کردار اور اقدار نئی شناخت سے مختلف ہیں، اس لیے وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے کردار و اقدار کا  تعلق کس سے  ہے۔ ان حالات میں انہیں شناخت کے لحاظ سے  بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے  یہ سلسلہ تب تک باقی رہتا ہے جب تک وہ ایک نئی شناخت تک نہ پہنچ جائیں۔

نیا اسلامی معاشرہ، جسے رسول اللہؐ نے الہی اقدار کی بنیاد پر تشکیل دیا تھا، اپنی شناخت کے ابتدائی مرحلے میں واقع ہونے کی وجہ سے بحران کا شکار تھا۔ اور اس بحران نے رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد اپنی شناخت کرائی۔ اسی  چیز  نے  سنی سیاسی نظریہ کی تشکیل کی راہ ہموار کردی، محمد سعید العشماوی کے مطابق: تاریخ اسلام میں ایسی خصوصیت (سنی سیاسی نظریہ )کا ظہور اس وجہ سے ہوا کہ اب تک  ان کی تاریخ میں  قبل از اسلام کے دور کے کچھ عوامل سے متاثر تھے۔ زمانہ جاہلیت میں  جزیرہ نما عرب کے باسیوں میں عام طور پر  تصمیم گیری اور فیصلے جلد ہوا کرتے تھے  اور سوچے سمجھے بغیر حرکت کرنا ان کی عادت تھا  اور دوسری طرف  ان میں تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔[3]

مثال کے طور پر اگر  ہم دین  کی تعلیمات کے پابند ہیں تو دین کے  مطابق  اس شخص کو قدر و منزلت حاصل ہے جس کے اندر تقوی الہی ہو۔ جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے:  «اِن اکرمکم عندالله اتقاکم» لیکن ان میں اس کے برعکس رویے کی وجہ سے قرآن ان پر تنقید کرتا ہوا نظر آتا ہے جیسا کہ ایک مقام پر یوں اللہ ک نے  نے ہوں ارشاد فرمایا: «الهاکم التکاثر حتی زرتم المقابر» یعنی عرب معاشرے میں  ہنوز بھی قبیلے میں کثرت کے اظہار کے لیے قبور  میں دفن مردوں تک کو گنتے ہیں۔ پس جاہلیت کے ان جیسے آثار اب بھی معاشرے میں موجود تھے اور ان  چیزوں  کا اثر سیاست پر بھی پڑا۔[4]

پس سماجی تبدیلیوں نے   مسلمانوں کے فکری نظام کے اصولوں پر سبقت حاصل کی، ایسی حالت میں جب مسلمان ابھی تک ایک نظام فکر کو قائم کرنے اور اسے تکمیلی مراحل میں داخل  کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے ، مذہبی فکری رجحانات جاہلانہ روایات کی  زد میں آگئے۔ یعنی پہلے سیاسی  کچھ خاص کردار اور رویے اپنائے گئے بعد میں انہی رویوں  سے سازگار نظریے بنائے گئے۔[5]

پانچواں نکتہ

پیغمبر خدا ؐ  کی رحلت کے بعد امت اسلامی کی حالت

مندرجہ بالا سطور میں بیان کیے گئے مطالب  کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ، جس نے ابھی تک نئی اقدار اور فکری بنیادوں  کے مطابق اپنی نئی شناخت نہیں پائی تھی، دوسری طرف  سے جاہلی اقدار کی تلچھٹ اور تہہ نشین معاشرے میں  باقی تھیں، ان دو حالات میں اسلامی معاشرے کو دو اہم مسائل درپیش تھے اور معاشرہ دونوں مسائل میں وقت کے ساتھ ساتھ فکری اور سیاسی بحران کا شکار ہوگیا۔  اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم ؐ نے اپنے بعد کسی  ایسے شخص  کا تعارف نہیں کرایا جو  لوگوں کے  لئےفکری  اور اعتقادی میدان  میں فصل الخطاب  کا درجہ رکھتا ہو، نہ ہی کسی کو حاکم اور سیاسی رہنما و رہبر کے طور پر مقرر کیا اور نہ ہی کوئی سیاسی  ایسا ڈھانچہ تیار کیا جو  سیاسی خم و پیچ  کی صورت میں درست راستہ تعین کرنے کا سبب  بنے۔ اہل سنت انہی عقائد کی بنیاد  پر کہتے ہیں کہ حضور اکرم ؐ نے صریح طور پر کسی شخص کو سیاسی و فکری رہنما معین نہیں کیا بلکہ یہ کام  امت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ خود اپنا رہنما انتخاب کریں۔لہذ خلیفہ کے انتخاب میں  جو کچھ ہوا اسے مکمل طورپر  سیاسی رہبریت  کے سلسلے میں رسول خدا ؐ کی جانب سے  فقدان نص کا بہانہ قرار دیا جاتا ہے جس کا آغاز سقیفہ سے ہوا۔ اس سلسلے میں جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ سقیفہ کے مقام  پر انتخاب خلیفہ کی غرض سے منعقدہ اجلاس میں علمی ، فکری اور  سیاسی رہبری کے لیے کوئی نظریہ پیش نہیں کیا گیا  اور نہ ہی اس میں  کوئی نظریاتی اور ساختار سازی کی  بحثیں اٹھائی گئیں بلکہ  کسی نظریے کی پشت پناہی کے بغیر عملی رویوں  کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ سقیفہ کا اجلاس بذات خود ایک  نظریات  پیش کرنے کا اجلاس نہیں تھا  اور اسلامی معاشرے کی باقاعدہ سیاسی روش کار  کو دینی اور شرعی بنیادوں پر جاری رکھنے اور سیاسی حاکمیت کو مشروعیت دلانے کے سلسلے میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس مطلب کی وضاحت آنے والی بحثوں میں روشن ہوگی۔

چھٹا نکتہ

سقیفہ اور خلیفہ اول کی خلافت کا ماجرا

 سقیفہ کے اصل حقائق اور دیگر واقعات  کا درست انداز میں سمجھنا  اس بات پر منحصر ہے کہ ہم پہلے مذکورہ باتوں اور اس وقت  مدینہ میں ہونے والی  دھڑے بازیوں اور گروپ بندیوں  پر توجہ دیں۔ مدینہ میں مقیم گروہوں میں سے ایک  اہم گروہ کا تعلق انصار  سے تھا۔ یہ وہ گروہ تھا جو حضورؐ کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔  نظریاتی حوالے سے زمان جاہلیت کے کچھ آثار ان میں موجود تھے اسی وجہ سے  رسول خدا ؐ کی رحلت کے بعد سقیفہ میں جمع ہوئے، گروہ  انصار کے ایک رہنما  حباب بن منذرنے سقیفہ میں اپنی تقریر میں انصار کو قریش سے افضل قرار دیتے ہوئے کہا: انصار  کی تلوار تھی جس نے اسلام کوفتحیاب کیا ۔ اس نے اپنی بات کو  جاری رکھے ہوئے مزید کہا: یہ مہاجر لوگ آپ انصار کے زیر سایہ ہیں اور وہ آپ کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کرتے، دوسری طرف جناب عمر کے قول کے مطابق جب انہیں معلوم ہوا کہ  سقیفہ بنی ساعدہ میں ایک اجلاس ہورہا ہے  جناب،  ابوبکر اور ابو عبیدہ کو اپنے ہمراہ وہاں لے گئے  حالانکہ انہیں اجلاس میں شرکت کی  نہ دعوت تھی اور نہ ہی مہاجرین نے انہیں اپنے نمائندے کے طور پروہاں جانے کی  خواہش کی تھی۔ چنانچہ جناب عمر نے  اپنے ایک خطبے میں کہا:  جو لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت  کا اعلان اچانک  سے ہوا ہاں!  میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسا ہی تھا  لیکن اللہ تعالی نے اس غلطی کی شر سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔

 رسول اللہؐ کی رحلت  کے بعد ہمیں خبر دی گئی کہ  گروہ انصار سعد بن عبادہ  کو ہمراہ لیکر بنی ساعدہ میں  جمع ہوئے ہیں۔ میں  ابوبکرکے ہمراہ وہاں گیا  ،راستے میں گروہ  انصار کے دو  لوگوں سے ہماری ملاقات ہوئی انہوں نے ہم سے کہا کہ  انصار لوگ کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جو آپ کی رائے کے خلاف ہو، لیکن ہم نے جانے کا عزم کیا، وہاں انصار کے خطیب  نے کہا: ہم اسلام کی متحد فوج ہیں اور اے قریش! تم لوگ ہم میں سے تھے اور تم فی الحال  اقلیت  میں ہو۔ جناب عمر نے کہا: میں نے بات کرنا چاہی لیکن ابوبکر نے مجھے روک لیا  اور  کہا:  آپ انصار جو کہتے ہیں وہ یقیناً درست ہے، لیکن عرب اس بات کو  سوائے قریش کے اور کسی کے بارے میں نہیں جانتے۔ قریش ہی نسب اور خاندانی لحاظ سے بہترین عرب ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ جناب  عمر یا ابو عبیدہ کی بیعت کریں۔ خطیب انصار نے پھر اعتراض  کیا اور آخر میں کہا: تو پھر ہم میں سے ایک امیر اور آپ  میں سے ایک امیر ہونا چاہیے۔[6]  جناب عمر نے کہا: میں نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ دو تلوار ایک ہی غلاف میں نہیں رکھی جاتیں۔  اس کے بعد میں نے جناب ابو بکر کا ہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کی۔ جناب عمر نے مزید کہا: میرے بعد ابو عبیدہ اور انصار کے لوگوں  نےجناب ابو بکر کی بیعت کی۔ ہمیں ڈر تھا کہ جب ہم اس گروہ سے الگ ہو جائیں گے تو بعد میں وہ کسی اور کی بیعت کر لیں گے اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی اس کی بیعت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، یا  ان کے ساتھ ہماری مخالفت سے کوئی  فساد برپا ہوجائے گا۔ بے شک ابوبکر ؓ کی بیعت  ناگہانی  اور اچانک تھی، مگر  یہ  کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے لوگوں  کو محفوظ رکھا۔ ابوبکرؓ جیسا تم میں کوئی نہیں لہٰذا کوئی  اگرشخص  مسلمانوں کے مشورے  کے بغیر کسی کی بیعت کرے تو  اس کی اوراسی طرح   اس کی شخص کی جس کی  بیعت کی گئی ہے  اطاعت نہیں  کی جاسکتی اور ایسا کرنے سے دونوں کو قتل کیا جائے گا۔[7]  سقیفہ کا تفصیلی واقعہ ابوبکر جوہری نے اپنی کتاب السقیفہ  میں بیان کیا  ہے۔

جیسا کہ تاریخی دستاویزات میں مشاہدہ کیا  جا سکتا ہے کہ سقیفہ کے اندر نہ تو نظریاتی بحثیں ہوئیں اور نہ ہی کوئی ساختار تشکیل دینے کی بات کی گئی، بلکہ کسی نظریے کی پشت پناہی کے بغیر  خلیفہ  کا انتخاب  عمل میں لایا گیا، اور اس پورے مرحلے میں قبل از اسلام یعنی جاہلیت  کے افکار کی حکمرانی تھی جس میں سماجی یکجہتی کی بنیاد قبائلی رشتوں اور اقدار پر رکھی جاتی ہے۔ سقیفہ میں اجلاس  کے آغاز سے لے کر انجام تک کسی بھی جگہ کسی ایسے سیاسی و رہبری ڈھانچے  یا ساختار  کا ذکر موجود  نہیں ہے جس  میں خلیفہ کے انتخاب کے معیارات کو بیان کیا گیا ہو اور یہ بیان کیا گیا ہو کہ خلیفہ کس طرح  اور کس بنیاد پر مملکت کا انتظام  و انصرام کرے گا؟!اس طرح کی باتیں پورے اجلاس میں نظر نہیں آتیں۔نتیجتاً یہ کہنا چاہیے کہ کہ خلیفہ اول کے انتخاب کے لیے سقیفہ میں سوائے قبائلی معیار، قریش کی برتری ،  رسول اللہؐ سے خاندانی تعلق اور عُمُر کے اور کچھ تجویز نہیں کیا گیا۔رسول خدا ؐ سے منقول  صرف ایک جملہ خبری(جملہ انشائی کے مقابلے میں) پر اکتفا کیا گیا جس میں آپ ؐ نے فرمایا: میرے بعد خلفاء قریش میں سےہونگے۔

خلیفہ ثانی کی خلافت

خلیفہ دوم کی خلافت پہلے خلیفہ کی وصیت کے مطابق عمل میں لائی گئی۔  حضرت عثمان جو کہ جناب  ابوبکر کی بیماری کے پورے دوران  میں ان کے ہمراہ رہے، ان کی طرف سے حضرت عمر کی جانشینی کا عہد نامہ  لکھنے کےپابند تھے، عہد  نامہ لکھنا ہی شروع کیا کہ حضرت ابوبکر پر بے ہوشی طاری ہوئی۔حضرت  عثمان نے اپنا  وظیفہ انجام دیتے ہوئے عہد نامہ لکھنے کو جاری رکھا  یہاں تک کہ حضرت  عمر کی جانشینی کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ آخر میں انہوں نے عہد نامے میں  حضرت عمر کا نام لکھا، ہوش میں آنے کے بعد  حضرت ابوبکر نے لکھی گئی تحریر سے متعلق سوال کیا تو حضرت عثمان نے تفصیل بتائی اور  حضرت ابوبکر نے اس تحریر کی تصدیق کی۔[8] پس   خلافت کے سلسلے میں حضرت ابوبکر کی طرف سے حضرت عمر کی تقرری کے ساتھ ہی اہل سنت   کی سیاسی فقہ میں استخلاف[9]  کا اصول ایک جائز اور مشروعیت کےحامل  اصول کے طور پر رائج ہوا۔  قیس ابن حزم کہتا ہے:  میں نے  حضرت عمر کو مسجد میں دیکھا کہ ہاتھ میں کھجور کی ایک  چھڑی لیے لوگوں کو بٹھارہے  ہیں، اسی وقت  جناب ابوبکر کا غلام و  ہاں آپہنچا  جس کا نام شدید تھا،اس نے  لوگوں کے سامنے ابوبکر کی ایک تحریر  پڑھ کر سنائی، اس کے بعد میں نے جناب عمر کو منبر پر دیکھا، اس تحریرکے پڑھےجانے کے ساتھ ہی حضرت عمر جناب  ابوبکر کا خلیفہ بن چکے تھے اور اس کے بعد بیعت کرنے کا مطلب یہ تھا  کہ  لوگ اپنی وفاداری اور اطاعت کا اعلان کریں، خلافت کی انشاء کی بات نہیں تھی۔ اس سلسلے میں تاریخی کتب میں بہت سے اعتراضات بھی مذکور ہیں۔[10]

خلیفہ سوم کی خلافت

حضرت عمر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں   اصحاب رسول میں سے  چھے افراد  پر ذمہ داری عائد کی کہ وہ تین دن میں اگلا خلیفہ منتخب کریں۔ ان چھے افراد کے نام یہ ہیں:

حضرت علی بن ابی طالبؑ

حضرت عثمان بن عفان

عبد الرحمن بن عوف

زبیر بن عوام

طلحہ بن عبید اللہ

سعد بن ابی وقاص

 مشہور مورخ  یعقوبی کی تاریخ کے مطابق حضرت  عمر نے انتخاب خلیفہ کی ذمہ داری  ابو طلحہ بن زید بن سہل انصاری کو سونپ دی اور اس سے  کہا: اگر چار آدمی ایک ہی  رائے دیں اور دو لوگوں نے  اس کی مخالفت کی  تو ان دونوں کا سر قلم کر دو اور اگر تین  نفر ایک بات پر متفق ہو جائیں  اور  دوسرے تین  ان سے اتفاق نہ کریں  تو وہ تین جن میں عبدالرحمٰن نہ ہو  ان کے سر قلم کر دو اور اگر تین دن گزر جائیں اور وہ کسی سے  ایک رائے پر اتفاق نہ کریں تو ان سب کے سر قلم کر دو۔

تاریخ یعقوبی کے مطابق  ان تین دنوں میں بہت سے مذاکرات ہوئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ  حضرت  علیؑ اور حضرت  عثمان میں سے کون  مقام خلافت پر منتخب ہوگا تذبذب کا شکار ہوا۔ عبدالرحمٰن نے حضرت علیؑ سے پوچھا: اگر ہم آپ  کی  بیعت کریں تو کیا آپ خدا کی کتاب، رسولؐ اللہ کی سنت اور شیخین (پہلے دو خلیفے) کے طرز عمل کو اپنانے  کے لیے تیار ہوں گے ؟! عبدالرحمن کو حضرت علیؑ کا جواب یہ تھا: میں خدا کی کتاب اور رسول خدا کی سنت پر عمل کروں گا۔ عبدالرحمٰن نے یہی سوال عثمان سے کیا تو  عثمان نے مثبت جواب دیا اور تمام شرائط کو تسلیم کر لیا،  اسی وجہ سے وہ خلافت کے منصب پر فائز ہوگئے۔ نہج البلاغہ کی  شرح  ابن ابی الحدید کی روایت کے مطابق، حضرت  علیؑ نے خلافت کے معاملے میں اپنی برتری  بیان کی اور خود کومستحق ہونا ثابت کیا  لیکن چونکہ عمومی رجحان حضرت عثمان کی جانب تھا اس لیے وہ ان سے بیعت کرنے پر مجبور ہوئے۔ حضرت عثمان نے اپنی حکمرانی کے آخری سالوں میں زیادہ تر حکومتی عہدے بنو امیہ کے اپنے رشتہ داروں کو سونپے۔ انہوں نے بیت المال کے پیسوں میں سے   اپنے عزیز و اقارب کے لیے بہت زیادہ عطیات بھی  دیےتھے جو کہ  عام لوگوں اور صحابہ کے لیے اعتراض کا باعث بنا۔ یہاں تک کہ  کچھ لوگوں نے کہا  کہ حضرت عثمان  اپنی پوری حکومت کو ایک اموی حکومت میں تبدیل کرنے والے ہیں۔ جب حضرت عثمان نے  مصر کے گورنرکو  تبدیل کیا تو مصر سے لوگ  مظاہرہ  کرتے ہوئے مدینہ منورہ آگئے۔  حضرت عثمان کی درخواست پر امام علیؑ  ان مظاہرین  اور  باغیوں کے پاس ثالثی کے لیے گئے اور خلیفہ کی طرف سے بیت المال  کی تقسیم میں عدل و انصاف کی پابندی اور کلیدی عہدوں پر قابل اور شائستہ لوگوں کو تعینات کرنے کے عہد کے بعد وہ اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔ خلیفہ نے بھی تقریر کی اور اپنے کیے سے توبہ کی۔

واپسی پر مصری باغیوں کو خلیفہ کا مصر کے گورنر کے نام خط ملا جس میں اس نے انہیں قتل کرنے اور قید کرنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ مصری مدینہ واپس آگئے اور دوسرے شہروں سے بھی باغیوں کو بلایا۔ عثمان نے ایسا  خط  لکھنے سے انکار کیا، لیکن خلیفہ کی عذر خواہی کام نہیں آسکی۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف  خلافت سے مستعفی ہونے پر ہی مطمئن ہوں گے۔ عثمان کے گھر کو  40 دن  محاصرے  میں رکھا  گیا۔ بالآخر  ذی الحجہ کے مہینے میں  35 ہجری  کو لوگوں نے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا۔ حضرت امام علیؑ  حضرت عثمان کی غلطیوں اور بیت المال کے سلسلے میں ان کی ناقص کارکردگیوں سے راضی نہیں تھے لیکن ان کو قتل کرنے کے عمل کو ہرگز جائز اور  درست نہیں سمجھتے تھے۔ بعض سنی مصنفین نے اس واقعہ کو “واقعہ یوم الدار ” کا نام دیا ہے۔

نارضایتی  اور بغاوت کے مختلف عوامل

تاریخ کے محققین کا خیال ہے کہ  حضرت عثمان کی بنسبت لوگوں کی ناراضگی اور انقلاب اچانک اور ایک ہی دفعہ میں برپا نہیں ہوا تھا بلکہ ان کے مختلف عوامل تھے۔  وقت گزرنے کے  ساتھ ساتھ  ان کی مخالفتیں پیدا ہوئیں اور صورت حال  آخر کار اس مقام پر پہنچ گئی کہ  جہاں سے انقلاب کو روکنے کی کوئی طاقت  باقی نہیں رہی تھی۔ یہ عوامل زیادہ تر  خود خلیفہ سوم کی ذات اور ان  کی کارکردگی سے متعلق تھے۔

محققین حضرت عثمان کی حکومتی کارکردگیوں کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ بنی امیہ کو حکومتی ذمہ داریاں سونپنے کے لحاظ سے ایسا لگتا تھا کہ ان کی حکومت ہی بنی امیہ کو  مختلف مناصب پر منصوب کرنے کے لیے بنی ہے۔ بعض تاریخی مصادر میں حضرت عثمان کی جانب سے حکومتی ذمہ داریوں کی تقسیم کے سلسلے میں اس طرح کی تفصیلات ملتی ہیں:

1:اپنے رشتہ داروں کو اسلامی معاشرے میں مختلف مقامات سے نوازے گئے۔

2: ان لوگوں کی طرز حکمرانی نے بھی بہت سے مسلمانوں کو احتجاج پر مجبور کیا۔[11]

3: ان میں سے بعض حکمرانوں کی اسلام میں تاریخ اچھی نہیں تھی۔ عبداللہ بن عامر کے بارے ملتا ہے کہ وہ مرتد ہوچکا تھا۔[12] ولید بن عقبہ وہ شخص تھا جسے قرآن نے فاسق قرار دیا تھا۔[13]

4: مروان بن حکم ایسا شخص تھا کہ جسے پیغمبر خداؐ نے اس کے والد کے ساتھ مدینہ سے   شہر بدر کیا تھا جبکہ حضرت عثمان نے انہیں دوبارہ مدینہ بلا لیا تھا۔[14]

5: خلافت  ملنے کے بعد  حضرت عثمان بہت امیر ہو گئے تھے۔[15]

6: حضرت عثمان کا سب سے بڑا مسئلہ حکومتی خزانے سے بے دریغ مال کی تقسیم تھا۔[16]

7: حضرت عثمان نے بنی امیہ کو بہت سی جائیدادیں بنانے میں مدد کی۔[17]

ملکی خزانے سے لوگوں کو بے دریغ ما ل و اموال کی بخشش جو کہ سابقہ خلفا کی روش کےخلاف  عمل تھی ،[18]  یہی چیز سبب بنی کہ معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور بہت سے لوگوں میں شکوک  و شبہات پیدا ہوئے۔[19]

بعض تاریخی مصادر  میں  حضرت عثمان    کی جانب سے بیت المال سے دیے گئے عطیات کو یوں بیان کیا گیا ہے۔

حضرت عثمان نے افریقہ سے آنے والی مالی وجوہات کو مروان بن حکم، [20]  اور کبھی ابن ابی سرح کو دیا۔[21]  اسی طرح انہوں  نے  بہت سے اموال کو حارث بن حکم،[22]  حکم بن ابی العاص،[23] عبداللہ بن خالد بن اسید وغیرہ کو بھی بہت سی جائیدادیں دیں۔[24]

تاریخی ذرائع کے مطابق؛ عمرو بن عاص کو مصر کی حکومت سے ہٹانے اور اس کی جگہ عبداللہ بن ابی سرح کو منصوب کرنے کے بعد تقریباً چھ سو مصری احتجاج کے لیے مدینہ آئے اور یہ خلیفہ کے خلاف احتجاج کا آغاز تھا،[25]  بعض تاریخی منابع کے مطابق خلیفہ سوم کے خلاف بغاوت کی اصل وجہ ان کی بے دریغ مال کی بخشش تھی۔[26] اختلافات کے بعد لوگ مدینہ کی طرف بڑھنے کے بعد ایک دوسرے کو خط لکھ کر مدینہ بلایا۔[27]

حضرت عثمان کے مخالفین جب مدینہ کے نزدیک پہنچے تو انہوں نے حضرت علیؑ کو  واسطہ قرار دیا کہ مخالفین کو مدینہ آنےسے روک دیا جائے۔[28] شیعہ[29]  اور اہل سنت[30] منابع کے مطابق،  حضرت عثمان نے اپنے مخالفین کے ساتھ عہد کیا کہ جلاوطن لوگوں کو واپس کیا جائے گا، خزانے کی تقسیم میں انصاف کی پابندی کی جائے گی اور قابل اعتبار اور ماہر لوگوں کو  حکومتی امور کے انچارج مقرر کیے جائیں گے۔ نیز اس معاہدے کے بعد  حضرت عثمان منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے کئے پر معافی مانگی اور توبہ کی۔ پھر لوگوں کو اس بات پر گواہ بنا دیا،[31] اس کے بعد مخالفین اپنے شہروں کی طرف لوٹ گئے۔

مخالفان کی  مدینہ کی طرف واپسی کے دوران انہوں نے  خلیفہ کے غلام کو دیکھا کہ وہ  حکومتی اموال لدے اونٹ پر سوار ہے اور ایک خط اپنے پاس چھپا رکھا ہے۔[32]  اس خط میں خلیفہ کے کچھ دستور لکھے گئے تھے اور ان کا مہر لگا ہوا تھا۔ خط میں یہ تحریر تھی کہ باغیوں کو قتل یا قید کیا جائے۔ ایسا خط پانے  کے بعد باغی مدینہ واپس آگئے۔[33] ان چیزوں کی اطلاع ملنے پر کوفی بھی مدینہ واپس آگئے۔[34] پھر باغی امام علیؑ کے پاس گئے اور آپ کے ساتھ حضرت عثمان کے پاس گئے لیکن  جناب عثمان نے قسم کھائی کہ انہوں نے نہ تو کوئی خط لکھا  ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں جانتے ہیں۔[35]

خلیفہ کی وضاحت ناراض باغیوں کو قانع  نہیں کراسکی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان خلافت کے لائق نہیں ہیں لہذا  انہیں  خلافت سے دستبردار ہونا چاہیے۔[36] حضرت عثمان نے ان کی بات نہیں مانی اور کہا کہ لباس خلافت  کو مجھے اللہ نے عطا فرمایا ہے اسے میں اتارنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ لیکن انہوں نے توبہ کرنے کی حامی بھر لی۔  مگر حضرت عثمان  کے مخالفین نے ان  کی سابقہ توبہ شکنی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف خلافت سے مستعفی ہونے پر ہی مطمئن ہوں گے۔ بصورت دیگر وہ یا تو قتل ہو جائیں گے یا جناب عثمان کو قتل کر دیں گے۔[37]

آخر کار مخالفین  نے حضرت عثمان کے گھر کو گھیر لیا اور پانی اور خوراک کو ان کے  گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔[38] محاصرہ کرنے والے مصر، بصرہ، کوفہ اور  مدینہ کے آس پاس سے تعلق رکھنے والے تھے۔[39] حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ چالیس دن برقرار رہا۔[40] اس دوران حضرت عثمان نے معاویہ اور ابن عامر کو خط لکھا اور ان سے مدد کی درخواست کی۔[41]

حضرت عثمان کے گھر کے محاصرے کے دوران کچھ لوگوں نے حضرت امام علیؑ کو مدینہ چھوڑنے کا مشورہ دیا تاکہ اگر  حضرت عثمان قتل ہو جائے تو وہ شہر میں موجود نہ ہوں لیکن امام علیؑ نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔[42]

مخالفین  نے حضرت عثمان  کے گھر میں پانی اور خوراک داخل ہونے سے روک دیا۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے امام علیؑ، طلحہ، زبیر اور ازواج مطہرات سے کہا کہ ان  کے گھر پانی پہنچایا جائے۔ پانی اور خوراک کے داخلے کو روکنے کے بعد امام علیؑ نے باغیوں کی مذمت کی اور فرمایا کہ ان کے اعمال مومنین اور حتیٰ کہ کافروں کے اعمال کے مشابہ بھی نہیں ہیں۔ امام حسن ؑ عبداللہ بن زبیر، مروان بن حکم وغیرہ جیسے لوگوں کے ساتھ مل کر  امام علیؑ کے حکم سے  حضرت عثمان کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سنھبال لی۔[43]

حضرت عثمان کے قتل کے بارے میں مختلف  اور متضادخبریں  ہیں۔[44]  بعض تاریخی منابع کے مطابق ایک گروہ نے حضرت عثمان کے گھر پر حملہ کیا لیکن گھر میں موجود افراد کی مزاحمت سے  حملہ آور بھاگ گئے۔ پھر دوسرا حملہ کیا گیا اور اس میں حضرت عثمان مارے گئے۔[45] اس حملے میں حضرت عثمان کی شریک حیات نائلہ زخمی ہوگئی اور ان کی انگلیاں کٹ گئیں تھیں،  ان کی کٹی ہوئی انگلیاں حضرت عثمان کی قمیص کے ساتھ شام  روانہ کی گئیں۔ یہ عمل معاویہ کی جانب سے شام کے لوگوں کو مشتعل کرنے  کا سبب بنا۔[46]

تاریخی مصادر  کے مطابق حضرت عثمان کا قتل جمعہ 18 ذوالحجہ سن 35 ہجری کو واقع ہوا۔[47] تاریخ میں قتل عثمان کے دن کو (واقعہ یوم الدار) سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔[48]

قتل عثمان کے سلسلے میں رسول اکرم ؐ کے بعض ممتاز صحابہ کرام کا  کردار

بعض اہل سنت مورخین اور محققین کا خیال ہے کہ حضرت عثمان کے قتل میں مہاجرین اور انصار کے اصحاب رسولؐ میں سے کسی کا بھی کوئی کردار نہیں رہا۔ اصحاب رسولؐ  میں سے کچھ اگرچہ حضرت عثمان کے حکومتی طرز عمل کے بر خلاف تھے لیکن  یہ لوگ بھی خاموش رہنے پر مجبورتھے ۔  دوسرے بعض  نے  بالکل بھی  اس سلسلے میں مداخلت نہیں کی اور کچھ نے  تو نامساعد حالات کے پیش نظر مدینہ ہی  چھوڑ دیا تھا۔[49] ان محققین کے مطابق قتل عثمان کے سلسلے میں  صحابہ  کرام کے بارے میں تاریخی اور غیر تاریخی ماخذ میں جو مطالب ملتے ہیں وہ حقیقت سے  دور اور تاریخی اعتبار سے  ضعیف ہیں۔[50] 

البتہ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ  اہل سنت محققین کی جانب سے اس قسم کے تجزیے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ اہل سنت تمام صحابہ کرام کو عادل سمجھتے ہیں اور حضرت عثمان کے قتل میں ان کا کردار اس عقیدہ کے خلاف ہے۔[51] تاہم  تاریخی مختلف مصادر  میں حضرت عثمان کے خلاف بغاوت میں صحابہ کے ملوث ہونے کے حوالے سے بہت سے نصوص نقل ہوئے ہیں۔ بعض صحابہ حضرت عثمان کے خلاف بغاوت میں سرفہرست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاشم بن عتبہ نے صحابہ اور ان کی اولاد کو عثمان کا قاتل قرار دیا ہے۔[52]   اہل سنت کے بعض مورخین نے طلحہ، زبیر اور  حضرت عائشہ کو  حضرت عثمان کے سب سے مخالف لوگ قرار دیا ہے۔[53] اسی طرح حضرت عثمان کی زوجہ نے قتلِ عثمان کے بعد معاویہ کے نام خط لکھا اور اس میں اہل مدینہ کو عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیاہے۔[54]

امام علیؑ

حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے والے باغیوں کے درمیان امام علیؑ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے  حضرت عثمان نے بعض موقعوں پر  ان سے مدد طلب کی۔[55]  بغاوت کے  آغاز میں ہی حضرت عثمان نے حضرت علیؑ کو باغیوں کے ہاں ثالثی کے لیے بھیجا۔[56] امام علی ؑ نے اپنے بیٹے امام حسنؑ کو حفاظت کے لیے  حضرت عثمان کے پاس بھیجا ۔ امام حسنؑ  باغیوں کے ساتھ جھڑپ میں زخمی  بھی ہو گئے۔ [57]  باغیوں کی جانب سے حضرت عثمان کا محاصرہ کرنے کے بعد وہاں پانی اور خوراک کی ترسیل بھی بند کردی گئی۔ اس دوران حضرت عثمان نے  امام علیؑ اور بعض  اصحاب سے ان کے گھر میں پانی و خوراک پہنچاننے کا مطالبہ کیا۔[58]  حضرت علیؑ اس معاملے میں فرماتے ہیں کہ میں نے  حضرت عثمان گھر  کے محاصرے کے دوران ان کی اتنی مدد کی کہ مجھے اس بات کا خوف  ہونے لگا کہ  میں کہیں گناہ کا مرتکب  ہوجاؤں۔[59]

اگرچہ باغیوں نے بہت سے معاملات میں امام علیؑ کی نافرمانی کی لیکن پہلے تو انہوں نے   حضرت عثمان کے ساتھ گفتگو میں امام علی ؑ کو ثالث بنایا۔ امام علی ؑ  نے حضرت عثمان  کو نصیحت کی ساتھ ہی  ساتھ باغیوں کو بھی نصیحت کی  اور ان کے محاصرہ کرنے  جیسے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔  یہاں تک کہ  ان کے اس عمل کو مومنین حتیٰ کہ کافروں کے عمل سے دور قرار دیا۔[60] امام علیؑ نے اگرچہ حضرت عثمان کو «حَمَّالُ الْخَطَایا؛ بہت زیادہ خطاکار » کہا[61] لیکن اس کے باوجود آپؑ انہیں قتل کرنے کے حق میں ہرگز نہیں تھے۔[62]  بلکہ قتلِ عثمان کی مخالفت بھی کرتے رہے اور خود کو ان کے خون کی نسبت سب سے زیادہ بے گناہ قرار دیا۔[63] اسی طرح امام علیؑ نے بلوائیوں کو بھی نصیحت کی اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی۔

جناب طلحہ

امام علی ؑ نے طلحہ اور زبیر کے بارے میں فرمایا کہ  یہ دونوں اس حق کے طلب میں کوشاں نظر آتے تھے جسے خود انہوں نے پایمال کیا تھا اور حضرت عثمان کے خون کا انتقام صرف ایک بہانہ ہے حالانکہ  خود انہوں نے ہی ان کا خون بہایا ہے۔ [64]

تاریخ معاصر کے مصری مؤرخ طہ حسین (متوفّی 1973 ء)، طلحہ کو ان افراد میں سے قرار دیتے ہیں جو حضرت عثمان پر بلوائیوں میں اپنی رغبت کو چھپائے نہیں رکھتے تھے بلکہ انہوں نے ایک باغی گروہ کو مال و اسباب بھی فراہم کیا تھا۔[65]  چھٹی صدی کے مورخ ابن اثیر نے تاریخ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ طلحہ نے حضرت عثمان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا لیکن وہ اس میں شکست سے دوچار ہوگیا۔[66] بعض تاریخی نقل کے مطابق طلحہ نے حضرت عثمان کے گھر پانی اور غذا لے جانے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا تھا۔[67][61]

معاویہ

حضرت عثمان نے محاصرے کے وقت معاویہ کو خط لکھا اور اس سے مدد مانگی۔ معاویہ نے بارہ ہزار افراد پر مشتمل لشکر روانہ کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ اگلا حکم ملنے تک شام کی سرحد پر انتظار کریں ۔[68] سپاہ معاویہ  نے مدینہ پہنچ کر خلیفہ کی مدد کرنے میں کوتاہی کی۔ جب شام کا قاصد  حضرت عثمان کے پاس اس کی خبرگیری کیلئے آیا تو عثمان نے کہا کہ تم میرے قتل کے منتظر ہو تاکہ خود کو میرے خون کا ولی قرار دو۔[69] قتل عثمان کا سب سے زیادہ فائدہ معاویہ نے حاصل کیا۔[70] معاویہ قتل عثمان کے بعد منبر پر جاکر لوگوں سے خطاب کیا اور کہا میں اس خون ناحق کا ولی ہوں اور میں ہی اس کا انتقام لوں گا۔[71] امام علیؑ معاویہ کو قتلِ عثمان کے معاملے  میں قصوروار سمجھتے تھے۔ جب معاویہ نے آپؑ پر قتلِ عثمان کی تہمت لگائی تو آپؑ نے  فرمایا اے معاویہ کونسا کام  حضرت عثمان کے قتل کاسبب بنا؟  کیا کیا میری مدد اور نصیحت اس کے قتل کا سبب  بنا!یا محاصرے کے دوران تمہاری جانب سے عثمان کی مدد نہ کرنے کی کوتاہی؟! دوسری طرف تمہاری سپاہ نے اس کے قتل کے اسباب فراہم کیے!۔[72]  بعض دوسرے صحابہ نے بھی معاویہ کو مخاطب کر کے اسے قتلِ عثمان کے معاملے میں قصور وار قرار دیا کیونکہ اس نے ان کی حمایت میں کوتاہی کی اور ان کے قتل کا منتظر رہا۔[73]

حضرت عائشہ

چوتھی صدی کے مورخ محمد بن جریر طبری اور دیگر مورخین کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے  حضرت عثمان کے بارے میں کہا تھا: «اُقْتُلُوا نَعْثَلا[74] فَقَدْ کفَر؛ عثمان کو مار ڈالو کہ وہ کافر ہو چکا ہے »۔ بلوائیوں کی مدینہ موجودگی کے دوران مروان بن حکم نے عائشہ سے درخواست کی کہ خلیفہ اور بلوائیوں میں صلح کروا دے۔ عائشہ نے سفر حج کا عذر پیش کیا اور کہا: میں چاہتی تھی کہ عثمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے دریا بُرد کر دوں۔[75]عائشہ نے عثمان کی موت کے بعد اپنا موقف تبدیل کر لیا اور اس کی خوان خواہی کا دعویٰ کرنے لگیں۔ سعد بن ابی‌ وقاص کے ابن‌ عاص کے نام خط میں لکھا تھا: عثمان اس شمشیر سے قتل ہوا کہ جسے عائشہ نے نیام سے نکالا اور طلحہ نے صیقل کیا۔ اس کے باوجود عائشہ قتلِ عثمان اور لوگوں کی علیؑ کے ساتھ بیعت کے بعد دوبارہ مکہ چلی گئیں اور لوگوں کے سامنے اپنے خطاب میں امام علیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؑ کو قتلِ عثمان کا ذمہ دار ٹھہرایا۔موقف یوں بدل لینے پر زوجہ رسول ام سلمہ نے اس کی مذمت کی کہ تم لوگوں کو عثمان کے قتل پر اکساتی رہی اور آج ایسا کہہ رہی ہو۔عائشہ نے جواب میں کہا: جو کچھ اب کہہ رہی ہوں، اس سے بہتر ہے جو اس وقت کہہ رہی تھی۔

خلافت امام علیؑ

اس بارے میں کہ امیر المومنین حضرت علیؑ خلافت تک کیسے پہنچے؟ اس سلسلے میں تاریخی دستاویزات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن ان دستاویزات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عثمان کے قتل کے بعد بہت سے مہاجرین، انصار اور باغیوں نے براہ راست ان سے خلافت قبول کرنے  کی درخواست کی۔ امیر المومنین علیؑ اگرچہ ابتدا میں قبول  خلافت سے انکار کیا، لیکن آخر کار لوگوں کی طرف سے  اصرار اور ملت اسلامیہ میں اختلافات کے روک تھام کے لیے اسے قبول کر لیا لیکن دوسری طرف سقیفہ کی تشکیل کے بعد سے ہی اسلامی معاشرے میں خلافت کے سلسلے میں نظریاتی  اور  طاقت کے لحاظ سے ایک  خلا(پاور ویکیوم، power vacuum) ایجاد ہوا تھا۔

پاور ویکیوم(power vacuum) کیا ہے؟

طاقت کے خلا کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسانی معاشرے کو امن و امان، سلامتی، خوشحالی، نظم و ضبط وغیرہ جیسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان میں سب سے اہم سماجی نظم ہے جس کی روشنی میں معاشرہ اپنے باقی مقاصد تک پہنچ سکتا ہے۔  معاشرے میں ان جیسی بنیادی ضروریات کو فراہم کرنے کے لیے حکومت کی تشکیل ضروری ہے اور حکومت کو بھی سماجی نظام کی تشکیل کے ذریعے ان ضروریات کی فراہمی کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ طاقت دو صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے: پہلی صورت  آمریت ہے جبکہ دوسری صورت جمہوریت ہے۔ اگر کوئی معاشرہ آمرانہ طاقت یا جمہوری نظام کو قبول نہیں کرتا ہے، تو وہ طاقت کے خلا کا سامنا کرے گا، کیونکہ طاقت ایک جگہ پر مرکوز نہیں ہوتی تاکہ نظم و ضبط پیدا ہو۔

       مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کے بعد اسلامی معاشرے میں طاقت کا خلا پیدا ہوا جسے تاریخی اعتبار سے عام التفرقہ​​کہا جاتا ہے۔ کیونکہ تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد اہل مدینہ کے ایک گروہ  نے امیر المومنین کی خلافت کو قبول نہیں کیا۔انہوں نے تیسرے خلیفہ کے خلاف بغاوت کا بہانہ بنا کر بصرہ پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں جنگ جمل شروع ہوئی، بعض دوسرے لوگوں نے خوارج کے گروہ کو تشکیل دیا اور جنگ نہروان شروع کی اور شام میں شامل علاقہ جات میں بسنے والوں نے مرکزی  حکومت کو قبول نہیں کیا اور یہ صورت حال  جنگ صفین پر منتج ہوئی۔ ان حالات میں طاقت کا خلا پیدا ہوگیا۔ اسلامی معاشرے میں ایسے حالات کا پیدا ہونا  سقیفہ کا نتیجہ  تھا۔ حضورؐ کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے میں حکومت اور خلافت کے سلسلے میں نہ تو کوئی معقول و مشروع نظریہ پیش کیا اور نہ ہی کوئی حکومتی  ڈھانچہ بنایا گیا۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ  مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ قتل کیا گیا اس طرح  اسلامی معاشرے میں طاقت کا خلا پیدا ہوگیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک مسلمان  دوسرے مسلمان کے خلاف اور رسول اللہؐ کے صحابہ ایک دوسرے کے خلاف تلوار چلانا شروع کی۔

خلافت امام حسنؑ

اسلامی معاشرے میں طاقت کا خلا(power vacuum) امیر المومنین حضرت  علیؑ کی شہادت تک جاری رہا، امام ؑکی شہادت کے بعد امام حسنؑ منبر پر تشریف لے گئے اور امیر المومنینؑ کے بارے میں کچھ ارشادات فرمایے۔ پھر اپنے بارے میں  کچھ فقرے فرمایا اور بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن عباس کھڑے ہوئے اور امام حسن ؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! یہ تمہارے پیغمبر ؐکا بیٹا، علیؑ کا جانشین اور تمہارا امام ہے۔ ان کے ہاتھوں پر بیعت کرو۔ لوگ ابن عباس کی  باتوں کی طرف متوجہ ہوئے اور بیعت کی۔[76]

امام حسنؑ نے ایک خط کے ذریعے معاویہ سے بیعت طلب کی لیکن معاویہ نے انکار کیا اور اپنے آپ کو اس معاملے میں زیادہ قابل سمجھا اور اپنی فوج کو جمع کرنے کے بعد انہیں امام حسن سے  جنگ کرنے کے لیے بھیج دیا۔ آخر کار امام حسن ؑ کےلشکر کے سرداروں  نے امام کے ساتھ غداری کی۔ دوسری طرف ان غداروں نے معاویہ کو خط لکھ کر اپنی حمایت کا علان کیا۔ خوارج کے ایک گروہ نے امام حسن ؑ کے خیمے پر حملہ کیا۔ امام حسن ؑ نے کچھ شرائط کی بنیاد پرمعاویہ  کے ساتھ صلح کرنے  کا ارادہ کیا۔ صلح امام حسنؑ  کے کچھ مواد یہ تھے:

1: امام حسن ؑ معاویہ کو امیر المومنین کے لقب سے نہیں پکاریں گے۔

۲: معاویہ کتاب خدا اور سنت رسول کے مطابق عمل کرے گا۔

3: معاویہ اپنے بعد خلافت کو کسی اور کے حوالہ نہیں کرے گا۔

       ان نکات پر مشتمل عہد نامہ پر  امام حسنؑ نے دستخط  کیے۔ اہل سنت  اس دورانیے کو عام الجماعۃ سے تعبیر کرتے ہیں۔  اہل سنت حضرت عثمان کے بعد معاویہ کو اگلا خلیفہ مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں اہل سنت معاویہ  کو مسلط شدہ خلیفہ کے طور پر مانتے ہیں۔

یزید بن معاویہ کی خلافت

یزید ابن معاویہ  سابقہ ​​خلفاء کی روایت کے برعکس معاویہ کی  اپنی ذاتی تقرری اور موروثی طریقے سے خلافت کے منصب پر فائز ہوا۔ یزید کا   خلافت پر اس انداز میں منتخب ہونا امام حسنؑ اور معاویہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بعض شقوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔  یزید کے دور خلافت کے اہم واقعات، واقعہ کربلا، عبداللہ ابن زبیر کا قیام، مختار کا  انتقام جوئی قیام، توابین کا قیام،  یزید کا مکہ اور کعبہ پر حملہ وغیرہ ہیں۔

مروانیوں کی حکومت

معاویہ بن یزید کے حکومت سے مستعفی ہونے کے بعد مروان بن حکم بنی امیہ کی بیعت سے خلافت  کے عہدے پر فائز ہوا۔ ایک روایت کے مطابق اسے ان کی بیوی نے زہر دیا ۔ مروان بن حکم نے اپنی موت سے پہلے اپنے پہلے بیٹے عبد الملک کو  پہلا ولی عہد  جبکہ دوسرے بیٹے   عبد العزیز کو دوسرا ولی عہد بنادیا۔  اس لیے  کہا جاسکتا ہے کہ خلافت مروانیوں کے خاندان میں وراثت میں ملنے والی چیز تھی۔ اس تمام عرصے کے دوران اسلامی دنیا میں طاقت کا خلا(power vacuum) باقی رہا۔[77]

بنو عباس کی خلافت

بنی عباس کے تمام خلفاء مشہور مفسر ابن عباس کے پوتے محمد بن علی کی نسل سے تھے، جناب عباس رسول اللہؐ کے چچا تھے، ان کے بیٹے عبداللہ بن عباس جو ابن عباس کے نام سے مشہور تھے،  ابن عباس پہلے تین شیعہ اماموں کے صحابی اور قرآن کے مفسر شمار ہوتے تھے۔ علی (40-117ہجری) ابن عباس کے بیٹے تھے، انہیں بنی مروان کے خلفاء نے شام کے جنوب میں حُمیمہ کے مقام پر  جلاوطن کر دیا تھا۔ ان کے بیٹے ابو عبداللہ محمد (541ہجری) نے اپنے حامیوں کو باقاعدہ طور پر منظم کیا۔ ان کا دعویٰ یہ تھا  کہ انہیں امام علی ؑ کے پوتے ابو ہاشم کے ذریعے سے بنی ہاشم کی امامت و رہبری کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ محمد کے  بیٹے ابراہیم جو ابراہیم امام کے نام سے مشہور تھا، نے ابو مسلم کو خراسان بھیجا، ابو مسلم نے سنہ129 ہجری میں بنو امیہ کے خلاف بغاوت شروع کی اور انہیں خلافت سے دور کردیا۔ اس صورت حال سے موقع پاکر بنوعباس نے حکومت سنبھال لی۔ حکومت اس خاندان  میں موروثی شیئ بن گئی۔  اسی لیے بنی عباس کی خلافت بھی  طاقت کے خلا کی  بنیاد پر قائم ہوئی اور آغاز سے ہی بغاوت سے روبرو ہوئی اور یہ کہ  خلافت و اقتدار اس خاندان کی ایک موروثی شیی بن کر رہ گئی۔ خاندان عباسیہ کے پہلے دو حکمران دو بھائی عبد اللہ سفاح اور ابو جعفر منصور تھے جو ابراہیم کے بھائی اور محمد کی اولاد میں سے تھے۔ انہی کے ذریعے  طاقت کے خلاء اوراسلامی دنیا میں سرزمینوں کے پھیلاؤ میں سعی  و کوشش کی گئی یہی چیز سبب بنی کہ بنی عباس کی سلطنت میں خاندان ایک دوسرے کے مخالف اور آپس میں دست و گریباں ہوگئے۔ اس دورانیے کو دوران ملوک الطوائف(ریاستوں کی بادشاہت) کہتے ہیں ۔ خلافت عباسیہ میں چندخاندان ملوک الطوائف کے طور پر مشہور ہیں:

1: خاندان طاہریان (259۔206ہجری)

خراسان کے نیم آزاد امیر جنہوں نے مامون کے زمانے سے طاہر بن حسین کی حکومت میں کام کرنا شروع کیا اور بنی عباس کے وفادار تھے۔

2: صفاریان(394-247ہجری)

صفاریان سیستان، کرمان اور  جنوبی علاقوں  کے حکمران تھے ۔ یعقوب لیث نے ان علاقوں کو فتح کیا تھا۔ یعقوب لیث بنو عباس  کا مخالف تھا لیکن اس کے نائب حکمران بو عباس  کے فرمان بردار تھے۔

3: سامانیان (261-395ہجری)

یہ لوگ خراسان اور وسطی ایشیا میں فارسی بولنے والے حکمران تھے ۔ یہ لوگ بنی عباس کی حکمرانی کو  مانتے تھے۔

4: آل بویہ (322- 448ہجری)

یہ لوگ دیلم کے امراء  اور مذہبی اعتبار سے شیعہ مذہب تھے، جنہوں نے عباسیوں کے مرکز بغداد میں شیعہ تقریبات کو مقبول عام بنالیا۔

5: غزنوی (344- 583ہجری)

غزنوی حکمرانوں کا تعلق ترک خاندان سے تھا۔ ان کی حکومت غزنی سے شروع ہو کر ہندوستان اور نیشاپور تک تھی۔غزنوی حکمران  سلاطین بنی عباس کے وفادار تھے اور شیعوں پر  مختلف قسم کے دباؤ  ڈالتےاور پابندیاں عائد کرتے تھے۔

6: سلجوقیان (429-590ہجری)

سلجوقی حکمران بھی ترک نسل تھےانہوں نے بنی عباس کے تمام مشرقی اور شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ وہ بنی عباس کو مانتے تھے اور شیعوں کے مخالف تھے۔

7: خوارزمیاں (491-616ہجری)

یہ لوگ وسطی ایشیائی نسل کے ترک امراء تھے ۔ یہ لوگ علاقہ جبال تک آئے۔ بنی عباس کے خلفاء کے ساتھ ان کے خاص تعلقات نہیں تھے۔

8: غوریاں (543-612ہجری)

غور ، کابل اور ہندوستان کے حکمران کو غوریان کہتے ہیں ان کی حکومت  کی بنیاد محمد بن سوری نے رکھی تھی۔ وہ بنی عباس کو نہیں مانتے تھے۔  ان کی  شیعوں کے ساتھ مذہبی رواداری تھی۔

 مندرجہ بالا نکات سے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ حضورؐ کی رحلت کے بعد سے  لیکر ابو حنیفہ کے دور تک،( جس کی وضاحت بعد میں آئے گی) سیاسی اور حکومتی لحاظ سے اہل سنت کے درمیان نہ کوئی نظریاتی بنیادیں تھیں اور نہ ہی  کوئی سیاسی سٹریکچر اور ڈھانچہ۔ بلکہ ہر دور کی خلافت دوسرے دور کی خلافت سے مختلف رہی  اور یہی چیز  اسلامی معاشرے میں  طاقت کے خلاء(power vacuum)کا باعث بنی۔ ابو حنیفہ (80-150ہجری) کے زمانے کے بعد اب ماضی میں کسی نظریہ اور خاص ڈھانچے کے بغیر تشکیل پانے والے سیاسی کرداروں اور حکومتی طرز عمل  کےلیے نظریہ سازی   کی کوششیں کی جانے لگیں۔

اہل سنت مکتب فکر کے  مطابق امامت کا مطلب خلافت ہے اوریہ ایک سماجی اور معاشرتی منصب ہے۔ لہٰذا خلیفہ کی تقرری  کے سلسلے میں ان کا نظریہ خلافت اس بات پر مبنی ہے کہ رسول خداؐ نے  خلافت و امامت  کے  سلسلے میں کوئی نص صریح  بیان  نہیں فرمایا ہے۔ اہل سنت کے نزدیک خلافت کا مسئلہ  اور خلیفہ کے چناؤ  کے معاملے میں صحابہ مکمل اختیار رکھتے ہیں پھر ہر زمانے کے لوگوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے  اپنا حاکم چنیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ پیغمبر خداؐ نے  اپنے بعد  کسی  خاص شخص کو اسلامی ریاست چلانے کے لیے مقرر نہیں کیا ہے۔ بلکہ پنے بعد حاکم کے تعین کے لیے کوئی خاص طریقہ بھی تجویز نہیں کیا ہے اور صرف حکمرانی کے معاملے میں کچھ عمومی اور ضروری احکام بیان کیے ہیں۔

خلافت کے سلسلے  میں اہل سنت کی جانب سے یہ دو باتیں واضح ہوگئیں : پہلی یہ کہ یہ لوگ خلافت کے بارے میں رسول خداؐ کی جانب سے  نص صریح کے فقدان کا مدعی ہیں۔ دوسری یہ کہ خلیفہ کے تقرر کی شرائط اور طریقہ کار سے متعلق بھی  نصوص کی عدم موجودگی پر یقین کرتے ہیں۔ پس ان دو باتوں کے بعد خلافت کو شرعی حیثیت دینے کے لیے اہل سنت صحابہ کرام  کے گفتار و اعمال کو  اس سلسلے میں مستند سمجھتے ہیں۔ پس اہل سنت خلافت کی مشروعیت کے لیے صحابہ کی طرف رجوع کرتے ہیں مزید بر آن خلفائے راشدین کے بارے میں صحابہ کے اجماع کا قائل ہیں اور صدر اسلام کے چاروں خلفاء  کی خلافت اور ان کے طرز تعیین کو اسلامی ریاست کی مثالی اور شرعی جواز کی حامل مثال سمجھتے ہیں۔

اہل سنت کے نظریے کے مطابق اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہر معاشرے میں خلیفہ  اور حکمران  کا انتخاب عوام کے ہاتھ میں ہے، انتخاب کی شرائط اور طریقہ ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق مختلف معیارات کا حامل ہو سکتا ہے۔ ابو حنیفہ (80-150ہجری) کے بعد سے زمانہ ماضی میں تشکیل شدہ  مختلف اور بغیر نظریہ اور ساخت کے  افعال و اعمال کو ایک خاص نظریاتی ڈھانچے میں ڈالنے کے لیے نظریہ سازی کی جانے لگی۔ یہ دوران اہل سنت کی سیاسی فقہ کا دوسرا دورہ کہلاتا ہے۔

اگرچہ ابو حنیفہ نے  لوگوں کی صرف مذہبی رہبری کی اور حکومتی معاملات میں بلا واسطہ مداخلت نہیں کی لیکن دوسری طرف سے انہوں نے عملی طور پر  لوگوں کی  سیاسی اور فکری لحاظ سے مدد کرنے میں دریغ بھی نہیں کیا۔ ان کے بہت سے فقہی اور سیاسی نظریات کو ان کے شاگردوں نے جمع کیا اور انہیں کافی حد تک  مختلف جگہوں پر  پھیلایا۔جیسا کہ ابو علی مودودی نے دعویٰ کیا ہےکہ  ابو حنیفہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے  سیاسی نظریات کو اپنی مشہور تصنیف ”الفقہ الاکبر” میں درج کیا ہے۔

ابو حنیفہ کے بعد ان کے ممتاز اور برجستہ شاگرد ابو یوسف نے جو نظام حکومت کے قاضی بھی تھے، نے سنی سیاسی فقہ کی پہلی کتاب  ”الخراج” تالیف کی۔ ابو حنیفہ کے بعد شافعی، احمد ابن حنبل، ابو الحسن اشعری اور ابوالحسن ماوردی کی آراء سنی سیاسی فقہ کی تشکیل میں نمایاں کردار کی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں ابوالحسن ماوردی کی دو کتابوں ”الاحکام السلطانیہ” اور ”الحسبہ” کو اہل سنت سیاسی فقہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔

ان پاسٹ ایکشن تھیوریز (Past Action Theory) (نظریہ بعد از عمل)میں جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ نظریات خود عمل محور ہیں اور دوسری طرف چونکہ صدر اسلام میں مختلف اعمال کی تشکیل ہوئی تھی، اس لیے یہ نظریات جو اس طرز عمل کے تناظر میں  پیدا ہوئے تھے، ان میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ سب کے لیے مناسب اور واحد ساختار اور سٹریکچر تیار کریں۔ دوسرے لفظوں میں یوں بیان کریں کہ اعمال و رفتار کے بعد بنایے  جانے والے نظریات میں ساختار سازی نہیں پائی جاتی اس لیے وہ اسلامی معاشرے میں طاقت کا خلا پیدا ہونےکی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔

[1] : عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں:

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے سرچشمہ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کاادراک وغیرہ….اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بنیادی فرق ہے، یعنی ان دونوں کے سرچشمہ ادراک میں فرق ہے، عقل نظری، سر چشمہ ادراک ہے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارنے  کا سر چشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔عقل عملی کا فریضہ، عقل نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے۔ (حوالہ:عقل و جہل قرآن و حدیث کی نظر میں، صفحہ نمبر 13، مولف: محمد رے شہری)

[2] : از پیدایش اسلام تا ایران اسلامی، رسول جعفریان ص ۲۳۔

[3] : محمد سعید العشماوی، الخلافة الاسلامیه، ص 150.

[4] : محمد سعید العشماوی، الخلافة الاسلامیه، ص 196.

[5] : محمد سعید العشماوی، الخلافة الاسلامیه، ص 196۔

[6] : مسایل الامامہ، ص13

[7] : المصنف، ابن ابی شبیه، ج 7؟، ص 431، المضف، عبدالرزاق، ج 5، ص 245-242 طبقات الکبری، ج 3، ص 616 و 344، تاریخ طبری، ج 3، ص 206 – 204، انساب الاشراف، ج 1، ص 581.

[8] : تاریخ طبری، ج 3، ص 428، طبقات الکبری، ج 3، ص 199. شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 1، صص 165_ 163، نثر الدر ج 2، صص 15 و 23، الکامل فی التاریخ ج2، ص 425، حیاۃالصحابه، ج 2، ص 26، طبقات الکبری، ج 3، ص 200.

[9] : استخلاف اہل سنت کے نظریے کے مطابق  خلیفہ انتخاب کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے جس میں پہلے والا خلیفہ آنے والے خلیفہ کا نام لیکر انتخاب کرتا ہے۔ ان کی نظر میں پہلے خلیفے کا یہ عمل دوسرے کی خلافت کے لیے مشروعیت اور شرعی جواز ایجاد کرتا ہے۔ اس عمل کو انتصاب امام  قبلی کے نام سے بھی یادکرتے ہیں۔ اہل سنت کے سیاسی  میدان میں ابداعی نظریات کے حامل دانشور جناب ماوردی نے اس طریقہ کو خلیفہ منتخب کرنے کا مشروع طریقہ بیان کیا ہے۔ یہاں تک کہ ماوردی کی نظر میں یہ طریقہ انتخابات سے زیادہ بہتر طریقہ ہے کیونکہ اس میں انتخاب کرنے والا اور انتخاب ہونے والا دونوں منفرد اشخاص میں سے ہیں (کتاب الاحکام السلطانیہ، ص6)

[10] : السنه، ابوبکر خلال، ص 277.

[11] : غریب، خلافة عثمان بن عفان، قاهره، ص۱۰۵.

[12] : ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج4، ص1553.

[13] : ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۹.

[14] : سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، خطبه سوم، ص۴۹.

[15] : الشیخ، «أسباب الفتنة فی عهد عثمان»، ص۴۵۵.

[16] : یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج۲، ص

[17] : ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۷۱.

[18] : ابن الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ق، ص۱۰۲-۱۰۳.

[19] : بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۸۰.

[20] : غریب، خلافة عثمان بن عفان، قاهره، ص۱۵۶.

[21] : بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۴۱.

[22] : مقدسی، البدء و التاریخ، بورسعید، ج۵، ص۲۰۰.

[23] : ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۶۷؛ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۵۸۷.

[24] : مزید تفصیلات کےت لیے رجوع کریں: عسگری، عبدالله بن سبا و اساطیر اخری، ۱۳۷۵ق.

[25] : طه حسین، الفتنه الکبری،۲۰۱۲م، ج۲، ص۱۰۲.

[26] : جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۸۰ش، ص156۔

[27] : ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۷۰.

[28] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۶۷.

[29] : ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۵۹۴.

[30] : ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۷۰- ۱۷۱.

[31] : شیخ طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۷۱۳؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۴۸۶.

[32] : ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۴۳؛ خلیفة، تاریخ خلیفة، ۱۴۱۵ق، ص۹۹.

[33] : ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۷۱-۱۷۲.

[34] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۶۸.

[35] : ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۴۲-۴۴۳.

[36] : ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۵۹۹.

[37] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۶۹.

[38] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۷۲.

[39] : ابن اثیر، أسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۹۰.

[40] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۷۰.

[41] : مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۴۸۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵،‌ ص۵۶۸.

[42] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۷۳.

[43] : طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۳۸۶.

[44] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۷۴.

[45] : ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۴۶.

[46] : غریب، خلافة عثمان بن عفان، قاهره، ص۱۴۹.

[47] : ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۲۶.

[48] : ابن الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ق، ص۱۰۴.

[49] : حسین، «علی و فتنه بزرگ قتل عثمان»، ص۴۵.

[50] : الغبان، فتنة مقتل عثمان بن عفان، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۲۳۷.

[51] : الغبان، فتنة مقتل عثمان بن عفان، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۱۶.

[52] : طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۳.

[53] : ابن‌العبری، تاریخ مختصر الدول، ۱۹۹۲م، ص۱۴۹.

[54] : ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۶۱.

[55] : جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۸۰ش، ص۱۷۷.

[56] : ابن الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ق، ص۱۰۳.

[57] : ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۸۸.

[58] : سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق،خطبه ۲۴۰، ص۳۵۸.

[59] : سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، ص۲۳۴.

[60] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۷۳.

[61] : ثقفی، الغارات، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۶.

[62] : نصر بن مزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۲.

[63] : سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق،نامه۶، ص۳۶۷.

[64] : سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، خطبه۲۲، ص۶۳.

[65] : ابن قتیبه، الإمامة و السیاسة، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۷.

[66] : ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۶۷.

[67] : یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۷۵.

[68] : جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۸۰ش، ص۱۷۸.

[69] : نصر بن مزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۸۱.

[70] : سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، نامه۲۸، ص۳۸۸.

[71] : جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۸۰ش، ص۱۷۴-۱۷۵.

[72] : طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۴۵۹.

[73]  ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۲۰۶.

[74] : نعثل ایک لمبی داڑھی والے یہودی کا نام تھا کہ جس سے عثمان کو تشبیہ دی اور یہ بعد میں عثمان کا لقب ہو گیا۔ (ابن‌ قتیبہ، الإمامة و السیاسة، ج۱، ص۶۲، ۱۴۱۰ھ ق،.)

[75] :

[76] : شیخ مفید، ارشاد، ص 170-169، نهج البلاغه(تفسیر ابن ابی الحدید)، ج 16، ص 30.

[77] : ابن عبدالبر، الاستیصاب، ج 2، ص 1389، ابن قنیبه دنیوی، الامامه و السیاسه، ج 2، ص 23.

(بازدید 7 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *