عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام ،ولایت فقیہ

تیسرا سبق

دین ، فقہ اور سیاست کا باہمی تعلق

عصرغیبت میں اسلام کا سیاسی نظام ،ولایت فقیہ

درس کےاہداف:

1۔مفہوم دین سے آشنائی

2۔ دین و سیاست کے باہمی تعلق کا صحیح تصور پیدا کرنا

3۔ اس موضوع کے بارے میں اہم شبہات سے آشنائی

4۔ اس مسئلے کو بیان کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا

5۔ شبہات کا جواب دینے کی توانائی ایجاد کرنا

 

مفہوم دین

دین کی تعریف سے پہلے دو نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے؛ اول۔ پہلے سبق میں فکری نظام کی تقسیم کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن میں دین کو دو معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔

1۔ عمومی مفہوم جس میں فکری نظام کی تمام قسمیں شامل ہیں چنانچہ سورہ کافرون میں ارشاد ہوتا ہے: لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ[1] تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے میرا دین ہے۔ 2۔ خاص معنی جس کے مطابق حقیقی اور الہی ادیان مخصوصا اسلام کو دین کہا جاتا ہے چنانچہ سورہ نصر میں ارشاد ہوتا ہے: يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ[2] خدا کے دین میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سورہ بقرہ میں اللہ فرماتا ہے: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ[3] رسول اس کتاب پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر اس کے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور سب مومنین بھی، سب اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارا مقصد دین کا عمومی نہیں بلکہ مخصوص معنی جاننا ہے کیونکہ دین کے عمومی معنی کے مطابق دین اور سیاست میں جدائی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ عمومی معنی کے مطابق ہر نظریئے کو دین کہا جاتا ہے حتی کہ سیاست کا دین سے جدا ہونا بھی ایک نظریہ ہونے کی حیثیت سے دین کے عمومی معنی میں شامل ہے بنابراین یہ نظریہ اپنے آپ کو فنا کردے گا۔ دوسرا نکتہ یہ کہ سیاست کو دین سے جدا سمجھنے والے اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہیں کہ دین کی حدود کے بارے میں بحث کرنا دین کا  اندرونی مسئلہ ہے اسی لئے اسلامی منابع اور کتابوں کی طرف توجہ کئے بغیر دین ایسی تعریف کرتے ہیں جو ان کے نظرئے کے مطابق ہو۔ ان کے مطابق پہلے مرحلے میں انسانوں کی دین سے وابستہ توقعات کے ذیل میں دین کی ضرورت پر بحث کرنی چاہئے اس کے بعد دین کے قلمرو اور عملداری کی شناخت کے لئے کمترین اور بیشترین دین وغیرہ کو موضوع بحث بنانا چاہئے۔ اس طبقے  کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ دین کی ایسی تعریف کی جائے جو سیکورلزم کے ساتھ مناسب ہو۔

مندرجہ بالا مطالب کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ دین کی کئی اصطلاحات ہیں جو دین اور دوسرے علوم کے تعلق پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ دین کی عمومی اصطلاح کے مطابق دین اسی لغوی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں ہر قسم کا فکری اور اعتقادی نظام شامل ہے جو مخصوص و مراسم کی ایجاد کا باعث ہے۔ اس معنی کے مطابق دین کہلانے کے لئے خدا پر اعتقاد ہونا بھی ضروری نہیں مثلا بودیسم اور انسان پرستی کو بھی دین کہا جائے گا۔ اگوسٹ کونٹ دین کو اس معنی کے مطابق آئین کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ دین کا دائرہ محدود کرتے ہوئے متوسط اصطلاح کے مطابق دین عقائد کا ایسا مجموعہ ہے جس کا محور تشکیل دینے والا خدا ہے اگر خدا کو ہٹادیا جائے تو دین بھی ختم ہوجاتا ہے پس بودیسم جیسے آئین کو دین نہیں کہاجاسکتا۔ مختلف زبانوں میں استعمال ہونے والے ان موارد سے یہی کوشش کی گئی ہے کہ دین کی ایک جامع تعریف کی جائے۔ اس کے برعکس ہم اپنی بحث میں ایک مخصوص موقف اختیار کرتے ہوئے اسی پر اتفاق رائے پیدا  کریں گے۔ طالب علموں کی اصطلاح میں تعریف جنس اور فصل سے تشکیل پاتی ہے۔ جنس دس مقولوں میں سے ایک ہونا چاہئے اس کے بعد فصل کو اضافہ کرنے سے تعریف کامل ہوجاتی ہے۔ البتہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تعریف ان اشیاء کے لئے ہے جن کی کوئی حقیقت اور وجود ہو۔ مفروضوں پر مبنی مفاہیم اس قانون سے مستثنی ہیں کیونکہ ان کے حقیقی جنس اور فصل نہیں ہوتے۔

ہم دین کی ایک لفظی تعریف اور معنی پیش کرنا چاہتے ہیں حقیقت میں یہ تعریف شرح الاسم کی نوعیت کی ہے یعنی دین کی لفظی تشریح ہے۔ دین ایک مخصوص اصطلاح ہے جس کے عناصر اور منشأ کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ یہ اصطلاح اس حقیقت کو کشف کرتی ہے کہ قرآن اس کی شناخت کا اصلی ترین منبع ہے۔[4] ہماری تحریر میں جس دین کے بارے میں بحث کی جارہی ہے وہ دین اسلام ہے۔ اسلام کی شناخت کے لئے ایک راہ اور منبع ہے۔ قرآن اس کا اصلی ترین منبع ہے۔ اس حقیقت کو درک کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن میں استعمال کے موارد کی شناخت کی جائے۔ ان موارد کو ملاحظہ کرنے کے بعد دین اسلام کی تعریف سامنے آئے گی۔ دین کی خصوصیات اور ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے دین کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ دین معارف اور تعلیمات کا مجموعہ ہے جو فطرت اور عقل سے ہماہنگ اصول، قوانین اور اعتقادات سے تشکیل پانے والے عقائد، انفرادی و اجتماعی احکام اور اخلاق پر مشتمل ہے۔ ان عقائد، احکام اور اخلاق کا سرجشمہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ہونے والی وحی ہے جس کو پہنچانے، سکھانے اور تشریح کرنے کی ذمہ داری آنحضرت کے کندھوں پر تھی۔ قرآن کریم، سنت (معصوم کا قول، فعل اور تصدیق)، عقل اور اجماع دین اسلام کے منابع ہیں جن کا آخری ہدف انسان اور معاشرے کو دین و آخرت کی زندگی میں سعادت فراہم کرنا ہے۔ دنیا میں عدالت و انصاف کا قیام اور زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اس کا درمیانی ہدف ہے۔[5]

دین اور سیاست کا باہمی تعلق

دین کی خصوصیات اور قلمرو اور سیاست کے بارے میں بیان شدہ مطالب کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ دین کا اجتماعی، سیاسی اور حکومتی امور سے تعلق ناقابل انکار ہے۔ چونکہ اس حقیقت کے منکرین کے اعتراضات اور بیانات کا حجم بہت وسیع ہے لہذا دین کے اندر سے ہی چند دلائل کی طرف اشارہ کریں گے؛

1۔ اعتقادات اور سیاست

عقائد اور ایمان اسلام کی بنیاد ہیں یعنی مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ توحید، نبوت اور قیامت کے بارے میں چند امور پر ایمان لائیں۔ اس مطلب کی طرف توجہ کرتے ہوئے سوال پیش آتا ہے کہ مسلمان ہونے کے جن عقائد کا پابند ہونا ضروری ہے، سیاست اور ان عقائد کے درمیان کوئی تعلق ہے یا سیاسی مسائل فقط اقدار کے نظام میں زیربحث لائے جاتے ہیں؟ اسلامی مفکرین کے مطابق توحید اسلامی عقیدے اور فکر کی بنیاد ہے جس کے اندر سیاست پوشیدہ ہے۔ قرآن کی بعض آیات میں خدا کی ربوبیت اور عبودیت کے ساتھ طاغوت سے انکار کا بھی ذکر ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں توحید کے اجراء، خدا کی ربوبیت تکوینی و تشریعی اور ولایت تکوینی و تشریعی پر اعتقاد کے نتیجے میں توحید پر استوار معاشرہ وجود میں آتا ہے اور ایسے قوانین نافذ اور برپا ہوتے ہیں جن کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے۔ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ[6] اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔ نبوت اور امامت اسلامی عقائد کے دو ارکان ہیں۔ انبیاء کی سیرت اور بعثت کے اہداف میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی توجہ معاشرے کو برائیوں اور سرکشی سے پاک کرنے اور اللہ  کے قوانین کے اجراء پر مرکوز تھی۔ اس سلسلے میں متعدد انبیاء نے کفر و استکبار کے سرغنوں کا مقابلہ کیا اور سخت مشکلات کا سامنا کیا۔ وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ[7] اور کئی نبی ہیں جن کے ساتھ ہوکر بہت سے اللہ والے لڑے ہیں۔

قیامت پر اعتقاد بھی اجتماعی زندگی اور سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ اس عقیدے کی بنیاد پر انسان اپنے ہر فعل پر قیامت کے دن خدا کے سامنے خود کو جوابدہ جانتا ہے۔ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ[8] پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔ دین کی ایک خصوصیت اس کا جامع ہونا ہے یعنی سعادت اور ہدایت کی ذمہ داری دین اٹھاتا ہے پس دین انسان کے اجتماعی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی امور سے لاتعلق نہیں ہوسکتا۔ کیا ان امور کی طرف توجہ کئے بغیر انسان کی تربیت ممکن ہے؟ بنابراین دین ایک مکمل فکری نظام اور اس کے عقائد جامع ہونے کی حیثیت سے سیاست سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔

2۔ اخلاق اور سیاست

سیاست اور دین اسلام کے اخلاقی موضوعات کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اگرچہ علماء کی کتابوں میں اخلاق کے انفرادی پہلو پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے لیکن اخلاقی احکام انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلووں پر مشتمل ہیں اور بہت سارے اخلاقی مفاہیم پر اجتماعی اور حکومتی پہلو سے بھی نگاہ کی جاسکتی ہے۔ بعض معاصر دانشوروں کی تحریروں میں اس کے آثار ملتے ہیں۔ اجتماعی اور سیاسی ذمہ داری قبول کرنا اعلی اخلاقی صفات کے حامل ہونے کی علامت اور دلیل ہے۔ اس کی ایک دلیل مالک اشتر کے نام لکھا گیا مولائے کائنات کا خط ہے جو سیاسی اور اخلاقی اعلی دستور سے پر ہے۔[9]

3۔ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی سیرت

تاریخ اسلام میں سیاست اور دین کے ایک ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت اور عصر غیبت میں ہونے والی کوششیں اس بات کی واضح دلیل ہے۔

الف۔ عصر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت نے بعثت کے بعد ہی معاشرے اور اس کے سیاسی مسائل پر توجہ دی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں طاقت کے حصول اور اس کی حفاظت کی کوشش کی۔ اگر سیاست کا بنیادی موضوع اور مسئلہ معاشرے کے انتظام و انصرام میں منحصر اور خلاصہ کیا جائے تو (آنحضرت نے اس کو پورا کرتے ہوئے) ماحول سازگار ہوتے ہی حکومت تشکیل دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت تشکیل دینا آپ کی رسالت اور ذمہ داریوں میں سے تھا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اس بات پر دلیل ہیں؛ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ[10] ہم نے آپ کی طرف یہ برحق کتاب نازل کی ہے کہ لوگوں کے درمیان حکم خدا کے مطابق فیصلہ کریں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت بھی اس پر گواہ ہے اسی لئے جب بھی ائمہ علیہم السلام کو موقع ملتا، حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتے۔ علاوہ ازین حالات اور زمانے کے تقاصے کے مطابق حکمرانوں کے ساتھ نرمی اور سختی سے پیش آتے۔ اس کوشش میں بالاخر جنگ چھڑجاتی اور جام شہادت نوش کرتے یا زہر سے شہید کردئے جاتے تھے۔ تحریک کربلا، ظہور امام زمان علیہ السلام اور عقیدہ مہدویت اور انتظار جس کے بعد عدالت و انصاف پر مبنی ایک عالمی حکومت تشکیل پائے گی، یہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ہیں جس کو ملاحظہ کرنے کے بعد دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ مکمل ختم ہوجاتا ہے۔

4۔ فقہ اور سیاست

طہارت سے دیات تک فقہ کے ابواب کا اجمالی مطالعہ اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ فقہ کے تمام ابواب میں سیاست زیر بحث آتی ہے۔ فقہ کے بعض ابواب مکمل سیاسی ہیں اور بعض ابواب میں سیاست کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں لیکن سیاسی مسائل کی موجودگی سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ ذیل میں چند موارد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے؛

الف۔ ولایت و قضاوت

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے مکمل ولایت اور اطاعت کا واضح طور پر ذکر آیا ہے جو سیاسی امور کو بھی شامل کرتا ہے چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ[11] ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔ اسی طرح سورہ نساء میں اللہ فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ[12] ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔ ولایت کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی قضاوت کی صلاحیت بھی دین اور سیاست کے باہمی تعلق پر دلالت کرتی ہے۔ قضاوت اجتماعی اور حکومتی امور میں سے ہے جو اللہ کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حق تسلیم کیا گیا ہے اور لوگوں کو اس سلسلے میں آپ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے: فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ[13] (اے رسول) تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں۔

ب۔ جہاد اور شہادت

جہاد اور شہادت کے بارے میں متعدد آیات و روایات موجود ہیں۔ جس دین میں پیغمبر اور امت کو جہاد کی تشویق کی جائے، کیا ایسا دین فقط فردی اور عبادی امور میں منحصر ہوسکتا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس دین کی نظر فقط اللہ اور بندے کے درمیان رابطے تک ہی محدود ہو؟ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ[14] اور ان(کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ[15] اے نبی ! مومنوں کو جنگ کی ترغیب دیں۔ اسلام فتنے کی جڑوں کی بیخ کنی کے لئے مسلمانوں کو ابھارتے ہوئے جہاد واجب قرار دیتا ہے لہذا ایسا دین سیاست سے کیسے جدا ہوسکتا ہے؟ اسی سورے میں ارشاد ہوتا ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه[16] اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔

ج۔ طاغوت اور کفر سے مقابلہ

قرآن کی بے شمار آیات اور معصومین علیہم السلام کی روایات کفر اور طاغوت سے مقابلے کی تاکید کرتی ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین اجتماعی اور سیاسی امور میں مداخلت کرتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ[17] اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ[18] اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔

د۔ تسلط قبول کرنے سے انکار

اسلامی نظام میں خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد قرآن کی اہم ترین سیاسی آیت ہے جس میں مومنین پر کفار کی برتری کی نفی کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا[19] اور اللہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام عزت اور وقار کو مومنین کے لئے قرار دیتا ہے: وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ[20] حالانکہ ساری عزت اللہ , رسول اور صاحبان هایمان کے لئے ہے. بنابراین مومنین کے علاوہ کسی اور کی برتری اور حکمرانی اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ اس آیت کے مطابق ہر قسم کے تسلط اور برتری سے نفی کی گئی ہے جس میں ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، دفاعی تسلط و برتری  شامل ہے اسی لئے اسلامی جمہوری ایران کے آئین میں نظام انقلاب کی ایک بنیاد ہر طرح کی ستم گری، ستم پذیری اور تسلط پسندی سے انکار کا اعلان کیا جاتا ہے( آرٹیکل دو ذیلی شق ج) اس آرٹیکل میں قرآنی آیت سے درس لیتے ہوئے اسلامی جمہوری ایران کی خارجی سیاست میں ہر قسم کی تسلط جوئی اور تسلط پذیری سے انکار ، خود مختاری اور سرحدوں کی مکمل حفاظت کا اعادہ کیا گیا ہے۔ (آرٹیکل152)

ھ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر

امر بالمعروف و نہی عن المنکر اہم ترین اسلامی تعلیمات میں شامل ہیں  جو دین کے سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی مسائل کے ساتھ گہرے تعلق کی علامت ہے چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ بها تقام الفرائض یعنی اسی کے ذریعے فرائض پورے ہوتے ہیں۔ متعدد آیات و روایات اس کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں موجود ہیں۔ دین کے مطابق امر بالمعروف و نہی عن المنکر انسانیت کے لئے دنیا میں سب سے اہم کام ہے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ[21] تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے ضربت لگنے کے بعد اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام وصیت نامے میں فرمایا: لَا تَتْرُکوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْی عَنِ الْمُنْکرِ فَیوَلَّی عَلَیکمْ شِرَارُکمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا یسْتَجَابُ لَکمْ[22] امربالمعروف و نہی عن المنکر کو مت چھوڑو ورنہ تم میں سے بدترین افراد تم پر مسلط ہوجائیں گے اس کے بعد تم دعا کروگے لیکن قبول نہیں ہوگی۔

و۔ حدود الہی اور سزا کا نظام

سیاسی، اجتماعی اور عدالتی نظام میں دین کے کردار کی ایک دلیل قرآن میں موجود متعدد آیات ہیں جو سزا اور کیفر کے احکام بیان کرتی ہیں چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت 38 میں چوری کی سزا، سورہ نور کی دوسری آیت میں زنا کی سزا اور سورہ مائدہ کی آیت 33 میں خدا اور رسول سے جنگ کرنے والوں کی سزا مشخص کی گئی ہے۔ إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ  بس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ اور پیر مختلف سمت سے قطع کردئیے جائیں یا انہیں ارض ه وطن سے نکال باہر کیا جائے۔

ز۔ اقتصادی معاملات اور پالیسی

فقہی اصطلاح میں عبادات کے برخلاف معاملات میں قصد قربت شرط نہیں ہے۔ معاملات میں نکاح، طلاق، تجارت، وقف، ہبہ، اجارہ اور مزارعہ وغیرہ شامل ہیں۔ سیاسی اور اجتماعی معاملات میں اقتصادی امور کو بڑی اہمیت حاصل ہے مثلا انفال، ٹیکس، جزیہ، خمس، زکات وغیرہ کے ذریعے ہونے والی آمدنی زیادہ ہونے کی وجہ سے ان معاملات کا حجم بھی عبادات سے زیادہ وسیع ہے۔[23] اسی لئے حضرت امام خمینی رہ نے فرمایا: حقیقی مجتہد کی نظر میں انسانی زندگی کے تمام پہلووں میں فقہ کے عملی کردار کا نام حکومت ہے۔ حکومت اجتماعی، سیاسی، دفاعی اور ثقافتی مشکلات میں فقہ کے عملی کردار کو آشکار کرتی ہے۔ بنیادی ہدف یہ ہے کہ ہم فقہ کے مستحکم اصول و قوانین کو عوام اور معاشرے میں کیسے چلاسکتے ہیں؟ استکبار اسی سے ڈرتا ہے کہ فقہ اور اجتہاد عملی اور ذاتی طور میدان میں نہ آئے۔[24] آخر میں قاری کا ذہن اس نکتے کی طرف متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ اس باب میں اسلام کے سیاسی نظام کی نوعیت کو ثابت کرنے کے بجائے دین اور سیاست کے باہمی تعلق کے بارے میں بحث کی گئی ہے، اسلام کے سیاسی نظام کی نوعیت کے بارے میں بعد میں بحث کی جائے گی۔

نتیجہ: قرآن کریم میں مختلف اور متنوع آیات کی موجودگی جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا گیا، سیاست اور حکومت میں دین کے کردار اور شمولیت کی واضح ترین دلیل ہے۔ قرآن کریم  میں اعتقادی اور اسلام کے آفاقی نظریات پر سینکڑوں آیات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور سیاسی و حکومتی امور اور علم و علماء کی ذمہ داری کے بارے میں آیات نازل ہوئی ہیں۔ علاوہ ازین اسلام کے جامع ہونے کے بارے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی زبانی نقل ہونے والی روایات کی تعداد فراوان ہے جن کا ذکر اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے۔

بعض شبہات اور ان کے جوابات

گذشتہ فصل میں ملاحظہ کیا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات دین اور سیاست کے باہمی اور وسیع روابط پر دلالت کرتی ہیں اس کے باوجودبعض لوگ  دینی یا غیر دینی زبان میں ان دونوں کی جدائی کا دعوی کرتے ہیں۔ ان کا دعوی جملہ خبریہ کی صورت میں یعنی ایک حقیقی چیز کو بیان کرتا ہے۔ یہ لوگ جملہ انشائیہ کہ صورت میں اپنا دعوی پیش نہیں کرتے ہیں انشائیہ میں حقیقت اور واقعیت کو ملاحظہ کئے بغیر ان کی خواہش کی عکاسی کی جاتی ہے۔ دین اور سیاست کی جدائی کا دعوی کرنے والے بعض دلائل پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں بعض اہم دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کریں گے۔

الف۔ قرآن میں حکومت کی نفی

پہلااعتراض:

 نبوت اور حکومت جمع نہیں ہوسکتی ہیں۔[25] کیونکہ خلافت اور سیاسی قیادت دنیوی امور میں سے ایک ہے جس کا عقلی، کلامی اور اعتقادی نکتہ نظر سے نبوت و امامت کے عظیم مقام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔[26] بنابراین سیاست احکام الہی کے دائرے سے مکمل خارج ہے۔[27] انبیاء کا فریضہ صرف تعلیم دینا تھا۔

اس نظریئے کو ماننے والے قرآنی آیات سے بھی استفادہ کرتے ہوئے اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ یہ آیات پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت تعلیم، تبلیغ، تذکر اور بشارت دینے میں منحصر ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ان آیات میں عوام پر انبیاء کے تسلط اور حکومت کو نفی کیا کیا ہے۔ چنانچہ سورہ جمعہ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ[28] اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔

سورہ رعد میں ارشاد ہوتا ہے: فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ[29] تمہارا کام تو صرف احکام کا پہنچا دینا ہے حساب کی ذمہ داری ہماری اپنی ہے۔

سورہ غاشیہ میں ارشاد ہوتا ہے: فَذَكِّرْ إِنَّما أَنْتَ مُذَكِّرٌ(*)لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ[30] لہذا تم نصیحت کرتے رہو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ہو  تم ان پر مسلط اور ان کے ذمہ دار نہیں ہو

سورہ اسراء میں اللہ فرماتا ہے: وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاّ مُبَشِّرًا وَ نَذيرًا[31] اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔

سورہ ق میں ارشاد ہوتا ہے: نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَقُولُونَ وَ ما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبّارٍ[32] ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں۔

جواب: 

قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے کئی امور پر توجہ دینا ضروری ہے مثلا آیت کا سیاق و سباق، شان نزول، آیات کی تطبیق، روایات کو بھی دیکھنا چاہئے۔ بدقسمتی سے مذکورہ اعتراض میں ان امور کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اسلام کی نظر میں دنیا میں سعادت و خوشبختی آخرت کی سعادت کے لئے مقدمہ ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ[33] یہ حیات دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے۔ اللہ تعالی نے قارون کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آخرت کو ذاتی اور اصلی مطلوب قرار دیا ہے جبکہ دنیا ذاتی طور مطلوب نہیں بلکہ آخرت کے لئے مقدمہ اور ثانوی حیثیت رکھتی ہے بنابراین اصلی مطلوب تک پہنچنے کے لئے اس کا مقدمہ حاصل کرنا چاہئے یعنی آخرت تک پہنچنے کے لئے دنیا مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے اور حکومت بھی دنیوی امور میں سے ہے۔ عبادت اور اطاعت یعنی توحید کی طرف دعوت دینا حکومت سازی کے لئے کوشش کرنے کا ہم ردیف ہے جو ایک دوسرے کے لئے مقدمہ یا سب کی حقیقت ایک ہے یعنی حکومت الہی کی تشکیل عین عبادت ہے بنابراین قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو انسان، جن اور حیوانات پر حکومت کرنے والے برجستہ انبیاء میں قرار دیا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام حکومت کو امتحان الہی قرار دیتے تھے۔ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ[34] یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے وہ میرا امتحان لینا چاہتا ہے کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں۔ اسی نظریے کی بنیاد پر اور انسان کو کمال کی طرف حرکت دیتے ہوئے اسلام کے اقدار اور احکام کو اس انداز میں منظم کیا گیا ہے کہ انسان دنیا اور آخرت دونوں کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھ سکتا ہے اور دنیوی طرز زندگی کو ابدی سعادت تک رسائی کے لئے ترتیب دے سکتا ہے اور دنیا کو مقدمے کی حیثیت سے ہی شناخت کرسکتا ہے۔ چونکہ اسلام کا سیاسی نظام کائنات کے بارے میں اس کے لئے قابل قبول نظریے کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے پس مکتب اسلام میں توحید و معاد کو شامل کئے بغیر کوئی سیاسی نظام تشکیل دینا ممکن نہیں ہے البتہ اس دنیوی زندگی سے ماوراء اور اخروی زندگی کا قائل اسلام ایسا سیاسی نظام پیش کرسکتا ہے جو اسی زندگی سے ہماہنگ ہو۔

دوسرا نکتہ: قرآن کریم میں بے شمار آیات موجود ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکومتی، عدالتی اور معاشرے میں دیگر سیاسی و اجتماعی وظائف کو بیان کرتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتراض کرنے والی کی طرف سے ذکر کی گئی آیات میں انبیاء کی ذمہ داری کو مطلق اور مکمل طور پر منحصر نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ انحصار نسبی ہے۔

تیسرا نکتہ: پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فریضہ ابلاغ و انذار میں منحصر کرنے والی آیات میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات میں خدا اور آخرت پر ایمان لانے میں انسان کی فطری اور تکوینی آزادی کو بیان کیا گیا ہے یعنی انسان شرعی طور پر نہیں بلکہ فطری طور پر آزاد ہے پس یہ آیات پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور لوگوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ شدید خواہش رکھتے تھے کہ مشرکین ایمان لائیں: لَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ أَلاّ يَكُونُوا مُؤْمِنينَ[35] کیا آپ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈال دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لارہے ہیں۔ دوسری آیت میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلى‏ آثارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَديثِ أَسَفًا[36] تو کیا آپ شدّت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیں گے اگر یہ لوگ اس بات پرایمان نہ لائے۔ لوگ آپ پر ایمان لانے یا نہ لانے میں فطری پر آزاد تھے۔ یہ تبلیغ احکام الہی کے اجراء اور سیاسی و اجتماعی قیادت سے الگ ہے اسی لئے ان آیات میں ہونے والے انحصار کو انحصار نسبی سمجھا جائے گا چنانچہ ذیل کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: سَواءٌ عَلَيْهِمْ ءَ أَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ[37] ان کے لئے سب برابر ہے. آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اس آیت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا  ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وظیفہ انذار کن امور سے تعلق رکھتا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ اگر پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وظیفہ ابلاغ و انذار میں منحصر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ اور ائمہ کرام علیہم السلام نے حکومت کی تشکیل اور ظالم حکومتوں سے سیاسی محاذآرائی کیوں کی؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کہ ذمہ داری فقط پیغام رسانی تھی تو قرآن کریم سنت الہی کے طور پر باطل پر حق کے غلبے اور انبیاء کے تسلط کو کیوں مسلم اصول جانتا ہے جس میں کامیابی کے لئے جنگ اور استقامت لازمی امر ہے؟ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنا لِعِبادِنَا الْمُرْسَلينَ(*)إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ(*)وَ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ[38] اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔

دوسرا اعتراض: دین پائیدار اور سیاست تغیر پذیر ہے

دین اور سیاست کی جدائی کا دعوی کرنے والے بعض افراد کے مطابق دین بعض پائیدار اور ناقابل تغیر اصول کا حامل  جبکہ سیاست متحرک اور متغیر شیئ ہے بنابراین پائیدار دین انسان کی ہر لمحے بدلنے والی ضروریات کا حل پیش نہیں کرسکتا دوسرے الفاظ میں  مملکت کی دیکھ بھال اور حکومت عوام کی روزمرہ زندگی کا نظم ونسق برقرار رکھنے اور اقتصادی و امن و امان کی صورت حال کو سنبھالنے کا نام ہے۔ یہ امور عقل عملی کی شاخیں اور ذیلی و جزئی موضوعات ہیں جو ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور بے اختیار فرامین الہی و کلیات سے مختلف اور متفاوت حیثیت اختیار کرتے ہیں اور ایسے تجرباتی موضوعات کی صحیح تشخیص عوام کی ذمہ داری ہے۔[39]

جواب: اس اشکال کے جواب میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ دین انسان کی فطری ضروریات سے مکمل ہماہنگ ہے۔ اس کے پائیدار اور غیر متزلزل اصول انسان کی دائمی ضروریات کے متناسب ہیں اگر چہ یہ ضروریات مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں لیکن ان کا منبع پائیدار اور مستحکم ہے۔ حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سیاست اور عقل، عدالت اور انصاف کے ساتھ معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ان امور میں سے   ہیں جن کی تازگی زمانے کے گزرنے کے باوجود باقی رہتی ہے۔ یہ عقلی اور ریاضی قواعد کی مانند ناقابل تغیر ہے جس میں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا مطالبہ  نامعقول ہے۔[40]

2۔ دین پائیدار اور مستحکم اصول کے علاوہ بعض متغیر احکام پر بھی مشتمل ہے۔ فقیہ اور اسلام سے واقف شخص اسلامی منابع اور دینی قواعد و اصول پر اعتماد کرتے ہوئے معاشرے کے جدید اور متغیر مسائل کا جواب دیتے ہیں۔ اسلام کی بقاء کا راز اسی میں ہے کہ یہ دین پائیدار اصول اور قوانین کی مدد سے اور زمان و مکان کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر دور میں مشکلات کا حل پیش کرتا ہے۔ گذشتہ مطالب سے معلوم ہوجاتا ہے کہ تمام سیاسی امور کا متغیر اور جزئی ہونا اسی طرح یہ تصور کہ حکمت اور عقل کے دائرے میں آنے والے امور پائیدار نہیں ہوتے اور یہ مفروضہ کہ متغیر اور متزلزل امور کا حکم حاصل کرنے کے لئے کلی اصول کی طرف رجوع نہیں کیا جاسکتا، ان دعووں میں بحث اور تردید کی گنجائش ہے کیونکہ ہر نظام میں ایک جامع پالیسی ہوتی ہے جو پائیدار اور غیرمتزلزل ہے۔ سیاست میں دین کے کردار کا مطلب یہ نہیں کہ سیاست کے ذیلی مسائل میں بھی دین مداخلت کرے بلکہ یہ کام فقہاء اور دین شناس افراد کے سپرد کیا گیا ہے کہ حاکم شرع کے بتائے ہوئے کلی اصول و قواعد کی روشنی میں جزئیات کا حکم نکالیں۔[41] مثال کے طور پر دفاعی طور پر ہمیشہ آمادہ رہنا ایک دائمی اصول ہے جو قرآن تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیتا ہے۔ کسی زمانے میں تلوار، نیزہ اور گھوڑوں کے ذریعے جنگ کے لئے تیاری کی جاتی تھی لیکن آج کے دور میں ٹینک، ہوائی جہاز، کشتی، میزائل اور جدید اسلحوں کے ذریعے کی جاتی ہے اسی طرح طاغوت کا انکار کرنا ایک دائمی اصول ہے لیکن طاغوت کے نظام کی تشخیص دینی امور میں مہارت رکھنے والے کریں گے۔ اس کی ایک اور مثال نفی سبیل یعنی کفار کا تسلط قبول نہ کرنا ہے؛ یہ تسلط عمومی اورمجموعی پالیسی میں ہو یا روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں ہو، یہی اصول ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور دفاعی پالیسیوں کے لئے مشعل راہ ہے البتہ اس کی تشخیص اور تطبیق بھی ماہرین اور تجربہ کار افراد کے ذمے ہے۔ اسلام میں لاضرر، یا لاحرج کے نام سے ایک قانون کلی ہے یعنی انسان ضرر یا سختی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس جیسے دوسرے قواعد متغیر جزئیات کو پائیدار اصول کی طرف پلٹانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر شیعہ فقہ میں جدید مسائل اور فروع پر اصول کو منطبق کیا جاتا ہے البتہ بعض موارد کی تشخیص میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اس صورت میں مجتہد کے لئے ماہرین کی رأی عمل اور حکم کا معیار بن جاتی ہے۔[42]

3۔ قرآن حکومت کو حکمت اور عقل عملی کی شاخ قرار دیتا ہے اور چند نمونے پیش کرتے ہوئے اس کو نبوت و رسالت کے ساتھ جمع کیا ہے۔ (کسی چیز کے ممکن ہونے پر بہترین اس کا موجود ہونا ہے) چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: فَقَدْ آتَيْنا آلَ إِبْراهيمَ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ آتَيْناهُمْ مُلْكًا عَظيمًا[43] تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیں عظیم سلطنت عنایت کی۔ حضرت داؤد کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: وَ شَدَدْنا مُلْكَهُ وَ آتَيْناهُ الْحِكْمَةَ وَ فَصْلَ الْخِطابِ[44] اور ہم نے ان کی سلطنت مستحکم کر دی اور انہیں حکمت عطا کی اور فیصلہ گفتار (کی صلاحیت) دے دی۔ سورہ بقرہ میں خداوند عالم فرماتا ہے: وَ قَتَلَ داوُودُ جالُوتَ وَ آتاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ[45] اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطا فرمائی۔ ان آیات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ اعتراض کرنے والے کے دعوی کے برخلاف خداوند عالم انبیاء کو حکومت اور بادشاہی عطا کرتے ہوئے مملکت کی سیاست اور عملداری کو انبیاء اور مرسلین کی شان کے مطابق قرار دیتا ہے۔ مذاق کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ دین اور سیاست کی جدائی کے قائل حضرات نے فقط مذکورہ آیات کو پیش کیا؛ شاید ان کے قرآن میں ہماری پیش کردہ آیات شامل ہی نہیں اسی لئے ان کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا گیا۔

تیسرا اعتراض: دین کی حرمت کی پامالی

دین اور سیاست کی جدائی کے قائل بعض افراد شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا مصداق بنتے ہوئے کہتے ہیں کہ دین مقدس اصول اور تعلیمات پر مشتمل ہے جبکہ سیاست چالاکی، دھوکہ بازی اور فریب سے بھرپور ہے بنابراین یہ دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔

جواب:

 تاریخ اعتبار سے مغربی ثقافت سے نمونہ لیتے ہوئے سیاست کا شیطانی تصور پیش کیا گیا ہے جس کی جڑیں میکاولی کی افکار اور مستکبر مغربی حکمرانوں کے داغدار ماضی میں پائی جاتی ہیں۔ اسلامی طرز فکر میں سیاست ایک مقدس پیشہ ہے اور طاغوت اورر مستکبرین سے مقابلے کے لئے فی سبیل اللہ جہاد کا نام اسلامی سیاست ہے۔ اسلامی سیاست اعلی ترین اقدار پر مشتمل ہے جو سیاسی مسائل، اسلامی معاشرے کے انتظام و انصرام اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عنوان سے معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشش کرنے کا نام ہے بنابراین سیاست فقط ایک مقدس پیشہ نہیں بلکہ واجب ہے ان امور کا اہتمام کرنا اسلام کی نگاہ میں عبادت ہے۔ چنانچہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں۔ مَن اَصبَحَ وَ لَم یَهتَمَّ بِاُمورِ المُسلِمینَ فَلَیسَ بِمُسلِم[46] جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ مسلمانوں کے امور کی کوئی فکر نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں۔ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام کا دم بھرنے والے حقیقت میں دین اسلام کو میدان سے خارج کرنا چاہتے ہیں یعنی دین کے احترام کے نام پر دین کی بنیادیں ہلانا چاہتے ہیں کیونکہ مکرر ذکر کیا گیا کہ ایک جامع، عالمی، زندہ اور دین حق ہونے کے لحاظ سے اسلام کے بلند اور اعلی اہداف مثلا عدالت اور انصاف کی فراہمی، استکبار اور طاغوت سے مقابلہ، متحد امت کی تشکیل کی دعوت، امن و امان کو بحال رکھنا، امت مسلمہ کے مفادات کا تحفظ، اغیار کے تسلط سے انکار، حدودالہی کا اجراء اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیادوں پر معاشرے کے تمام عناصر کی اصلاح کے لئے حکومت کی تشکیل اور عملی طور پر سیاسی امور میں دین کی مداخلت اور مضبوط اقتدار کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی دین جامع ہونے کا دعوی کرے لیکن سیاست اور حکومت کی طرف توجہ نہ دے تو ناقص اور اپنے اصلی اہداف یعنی انسانیت کی سعادت اور الہی اقتدار کو مشکوک بناتا ہے۔

چوتھا اعتراض:  سیاست اور علمائے دین کے تقدس میں تضاد

سیاست اور دین میں جدائی کے دعویدار دین اور اس  کے پاسبانوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے سیاست اور علماء کے تقدس میں تضاد کا شبہہ پیش کرتے ہیں۔ علماء کو اپنی شخصیت اور تقدس کے تحفظ کی خاطر دنیوی امور میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے۔ معاصر تاریخ میں اس شبہے کو مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت امام خمینی رہ نے اس شبہے کا طنزیہ انداز میں جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: کہتے ہیں کہ ایک مقدس اور مہذب انسان وہ ہے جو تیل کی چوری پر اعتراض نہ کرے بلکہ حمایت کرتے ہوئے بولے کہ تیل کو لے جائیں کیونکہ دنیوی مال کی کیا حیثیت ہے۔[47]

درس کا حلاصہ:

1۔ دین کی خصوصیات،  تعریف اور قلمرو اور اسلامی سیاست کے مفہوم کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دین اجتماعی، سیاسی اور حکومتی امور سے گہرا تعلق رکھتا ہے لیکن اس نظریے کے منکرین کی طرف سے وسیع پیمانے پر شبہات اور دلائل پیش کرنے کی وجہ سے دین کے اندر سے ہی سیاست اور اعتقادات، سیاست اور اخلاق اور سیاست اور فقہ کے باہمی تعلق کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے۔

2۔ دین اور سیاست کے باہمی تعلق کو ثابت کرنے کے لئے مزید دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں مثلا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکومت قائم کرنا، قرآن میں انبیاء کی خلافت و امامت کا ذکر، آیات ولایت، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قضاوت، جہاد ، شہادت، کفر اور طاغوت سے مبارزہ ، اغیار کی برتری اور غلبے کو قبول کرنے سے انکار، امربالمعروف و نہی عن المنکر، حدود الہی کے اجراء، معاملات اور اقتصادی سیاست کےبارے میں نازل ہونے والی آیات۔

3۔ دین کی تعریف، قلمرو  اور خصوصیات اور سیاست کی تعریف اور دین وسیاست کے باہمی تعلق پر دین کے اندر سے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان شبہات کا جواب دیا جاسکتا ہے۔

 

 

          درس کے سوالات

1۔ دین سےوابستہ  توقعات کا کیا مطلب ہے؟

2۔ دین اور سیاست کی جدائی کا دعوی کرنے والو ں کے دلائل کو بیان کرتے ہوئے تجزیہ و تحلیل  کریں۔

3۔ اسلام کے مختلف پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے دین او رسیاست کے باہمی تعلق کو بیان کریں۔

[1] کافرون/6

[2] نصر/۲

[3] بقرہ/285

[4] پرتال جامع علوم انسانی، مصاحبه با استاد فرزانه علامه، منبع صباح 1381، شماره 2.

[5] حسین، جوان آراسته، حکومت اسلامی، ص  62)(2. جواد نوروزی، درآمدی بر نظام سیاسی اسلام، ص 30.

[6] مائدہ44

[7]  آل عمران/146

[8] زلزال/7۔8

[9]  عمید زنجانی، عباسعلی، مبانی اندیشه سیاسی اسلام.ومحمدجواد نوروزی، درآمدی بر نظام سیاسی اسلام، ص 37.

[10] نساء/105

[11] مائدہ/55

[12] نساء/59

[13] نساء/65

[14] انفال/60

[15] انفال/65

[16] انفال/39

[17] نحل/36

[18] توبہ/73

[19] نساء/141

[20] منافقون/8

[21] آل عمران/110

[22] نھج البلاغہ، خط47

[23] حسین جوان آراسته، مبانی حکومتی اسلامی، بخش دینی و دولت – مصباح یزدی، حکومت اسلامی و ولایت فقیه، بخش ضرورت حکومت اسلامی.

[24]  صحیفه نور، ج 21، ص 28

[25] مهدی بازرگان، آخرت و خدا هدف بعثت انبیاء، مجله کیان، ش 28، ص 56.

[26] مهدی حائری، حکمت و حکومت، ص 172.

[27] همان، ص 65.

[28] جمعہ/2

[29] رعد/40

[30] غاشیہ/21۔22

[31] اسراء/105

[32] ق/45

[33] غافر/39

[34] نمل/40

[35] شعراء/3

[36] کہف/6

[37] بقرہ/6

[38] صافات/171۔173

[39] مهدی حائری، حکمت و حکومت، ص 141.

[40] وصیت نامه سیاسی الهی حضرت امام(ره)، بند ب

[41] مرتضی مطهری، نقدی بر مارکسیم، مجموعه آثار، ج 13ف ص 12

[42] علامه طباطبایی، ذیل آیه 200 سوره آل عمران توضیح داده اند، المیزان، ج 4، ص 120-121.

[43] نساء/54

[44] ص/20

[45] بقرہ/251

[46] الكافي، ثقة الاسلام محمد یعقوب کلینی ج‏ ۲، ص ۱۶۴ ح ۵

[47] صحیفه نور، ج 9، ص 182. امام خمینی رہ کے یہ طنزیہ جملے اس شبہے کا واضح جواب ہیں۔

(بازدید 2 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *