انسان کی شناخت امام خمینیؒ کی نظر میں

انسان کی شناخت امام خمینیؒ کی نظر میں

انسان کی تخلیقی پیچیدگیوں کی کو مدنظر رکھتے ہوئے امام خمینیؒ کی نظر میں انسان کی شناخت اور پہچان ایک دشوار اور مشکل کام ہے، امام خمینیؒ کی نظر میں انسان کی معرفت لطف پروردگار،انبیاءؑ اور اولیاء الہی کی تعلیمات کے بغیر …

تدوین و تالیف: محمد جواد نگری                                                                                            مترجم: ملک جرار عباس یزدانی

خلاصہ: 
  انسان کی تخلیقی پیچیدگیوں کی  کو مدنظر رکھتے ہوئے امام خمینیؒ کی نظر میں انسان کی شناخت اور پہچان ایک دشوار اور مشکل کام ہے، امام خمینیؒ کی نظر میں انسان کی معرفت لطف پروردگار،انبیاءؑ اور اولیاء الہی کی تعلیمات کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس وجہ سے انبیاء  الہی کی تعلیمات کی روشنی میں انسان کی حقیقت پر پڑے ہوئے پردوں اور موانع کو برطرف کرکے  ہم انسان کی حقیقی ماہیت تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگرچہ انسان کا نفس محض استعداد اور صلاحیتوں کا ہی نام ہے، لیکن انسان  کے اندر موجود الہی فطرت کی وجہ سے انسان کے لیے ممکن کے کہ وہ کوشش سے ہر مقام اور منزل تک پہنچ سکتا ہے،انسان اپنی نفسانی صلاحیتوں کو بروئے لاکر حقیقی خود شناسی کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے،لہذا ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کے امام خمینیؒ کی نظر میں انسان کیا ہے؟؟؟

بیان مسئلہ:
 انسان شناسی کا موضوع ہمیشہ سے مسلمان مفکرین اور دانشوروں کی توجہات کا محور و مرکز رہاہے، لیکن ان مسلم دانشوروں  میں امام خمینیؒ نے اس مسئلہ پر بڑے  وسیع  پیمانے پر اپنے فلسفی اور عرفانی  نقطہ نگاہ سے تحقیقات  انجام دی ہیں، امام خمینیؒ کی نظر میں انسان کی شناخت اور معرفت انبیاءؑ کی تعلیمات کا محور اور خدا شناسی سے مربوط مسئلہ ہے۔ اور  ہر مئلہ کا صحیح اور جامع حل انسان کی صحیح شناخت کے ذریعے ہی ممکن ہے، امام خمینی ؒ کی نظر میں جب تک  اس سوال  کے،انسان کیا ہے؟ کا جواب  نہیں ملتا اس وقت تک دوسرے تمام موضوعات اور مسائل کے جوابات بھی  ادھورے اور نامکمل ہی رہیں گے۔

۱۔  انسان کا معنی اور اسکی شناخت:
امام خمینیؒ کا اس بات پر یقین ہے کہ انسان ایک ایسی پیچیدہ مخلوق ہے کہ جس کے حقیقی معانی کا سوائے خداوند متعال اور وہ لوگ جو الہامات الہی سے  کسب فیض کرتے ہیں کسی کو ادراک نہیں  ہے،(صحیفہ نور،ج۷،ص۲۲۴)   انسان کی ماہیت اور حقیقت تک  رسائی صرف  خداوند متعال اور علوم الہی  سےسیراب  افراد  کے لیے ممکن ہے، لہذا بعید نہیں ہے کہ ہم اس معروف حدیث«من عرف نفسه فقد عرف ربه» سے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ  جب خدا کی شناخت  محال ہے تو اسکا  لازمہ یہ ہے کہ انسان کی شناخت اور پہچان بھی ایک محال امر ہے، کیونکہ جب شرط(شناخت خدا) منتفی ہوگی تو مشروط( یعنی جو کوئی بھی اپنے آپ کو پہچانے) بھی منتفی ہوجائے گی۔(صحیفہ نور،ج۱۴،ص۱۵)
امام خمینیؒ کی نظر میں جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے انسان کو پہچان لیا ہے اور اسکی  معرفت حاصل کر لی ہےانہوں فقط انسان کے ظاہر کو پہچانا ہے بلکہ ظاہر کو بھی  کامل طریقے سے نہیں پہچانا بلکہ ایک طرح سے فقط انسان کی حیوانیت کو  پہچانا ہے کچھ لوگ انسان کی ظاہری شناخت حاصل کرکے یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید انسان یہی ہے۔(صحیفہ امام،ج۸،ص۴۳۴)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے انسان کو پہچان لیا ہے اسکی شناخت ہم کو حاصل ہو گئی ہیں انہوں نے انسان کے فقط ظاہر اور ایک پہلو کو پہچانا ہے وہ بھی نا فقط یہ کہ انسان کی حقیقت بلکہ انسان کے حیوانی پہلوؤں کو جانا ہے۔اور انہی ظاہری اور حیوانی پہلوؤں کو جان کر یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ شاید انسان کی حقیقی معرفت حاصل کر لی ہے۔
امام خمینیؒ کے نظریہ کے مطابق  انبیاء ؑ کے وحیانی علوم کا موضوع انسان ہے،لہذا وہ اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ  اس موضوع  کی  شناخت  شناخت خدا کے سایے میں ممکن ہے یعنی  انسان کی شناخت خدا کی روبوبیت کی شناخت کے وسیلے سے ہی ممکن ہے۔
امام خمینیؒ  کے نظریہ کے مطابق انبیاء فقط انسان  کی طرف اور انسان کی تربیت کے لیے  آئے ہیں،انبیاء کے علم کا موضوع انسان ہے اور انبیاء الہی کے اوپر نازل ہونے والی کتابیں انسان سازی  کا نصاب ہیں،قرآن کریم کتاب انسان  ہے، امام کی نظر میں انسان ایسے دو راہے پر کھڑا کہ جس کا ایک راستہ انسانیت کی طرف ،اور دوسرا راستہ انسانیت سے گمراہی کی طرف جاتا ہے، امام خمینیؒ کی نظر میں جو لوگ انسان شناسی اور اسلام شناسی کا دعوی کرتے ہیں حقیقت میں یہ فقط ایک دعوی ہیں کیونکہ انسان کی حقیقی شناخت اور معرفت صرف اور صرف ذات  خداوند متعال اور ان لوگوں کے لیے ہی ممکن ہے جو کہ  الھامات الہی سے  کسب فیض کرتے ہیں۔( صحیفہ نور ،ج۷،ص۲۲۴)
مندرجہ بالا گفتگو کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام خمینیؒ کے نظریے کے مطابق انسان کی حقیقی شناخت خدا اور اولیاء الہی کے ساتھ مختص اور منحصر ہے کہ جو   خدا وند متعال،اپنی اور انسان کی  حقیقی معرفت اور شناخت  تک پہنچے ہیں۔

امام خمینیؒ صرف اسلام کو  وہ واحد مکتب سمجھتے ہیں جو انسان سازی کے ذریعے انسان کی حقیقت تک پہنچتا ہے، کیونکہ اسلام ایک ایسا مکتب ہے کہ جسکا ہدف و مقصد انسان سازی ہے،لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم انسان کی ضرورتوں کو پہچانیں اور یہ دیکھیں کہ  اسلام جو انسان سازی کے لیے آیا ہے، آیا اسلام فقط انسان کے حیوانی پہلوؤں سے  یا فقط معنوی ابعاد سے اس کی تربیت کرنا چاہتا ہے؟ یا یہ کہ اسلام دونوں (حیوانی اور معنوی) پہلوؤں سے انسان سازی چاہتا ہے، کیونکہ انسان دوسری  مخلوقات کی طرح نہیں ہے، کیونکہ دوسری تمام مخلوقات اور موجودات جیسے حیوانات  کا درجہ رتبے کے اعتبار سے نباتات(پودوں) اور معدنیات(اجسام) کے  بعد آتا ہے،لہذا احیوان  ماوراء الطبیعات(Metaphysic) کے بارے میں ایک ناقص ادراک رکھتا ہے جبکہ ماوراء الطبیعات کا کوئی مرتبہ اور حد مشخص نہیں ہے۔

لیکن انسان  حیوانات کے برعکس طبیعت کے ابتدائی نقطے سے آخری نقطے تک ایک الہی موجود بن سکتا ہے اور وہ تمام انسان کے مراتب ہوسکتے ہیں یعنی انسان کے اندر یہ صلاحیت اور استعداد موجود ہے کہ وہ عالم طبیعت(ظاہری دنیا) سے ماوراء الطبیعات تک اور ماوراء الطبیعات سے  مرتبہ الوہیت تک سیر کر سکتا ہے۔(صحیفہ نور،ج۲،ص۱۵۲)
امام خمینیؒ کی انسان شناسی میں ایک بنیادی نکتہ جو ہے وہ یہ ہے کہ  انسان کی  شناخت اور معرفت اسکی تمام حقیقت کے ساتھ ایک سخت اور مشکل کام ہے،امام خمینیؒ کے مطابق اس دلیل کی بنا پر کہ چونکہ نفس انسانی کے مختلف مراتب اور درجات ہیں: جیسے ایک مرتبہ اور درجہ  طبیعی سے عقلانی تک ہے، لہذا اس طرح کی مخلوق کا اس ہویت اور مختلف مراتب  کے ساتھ  پہچاننا ایک سخت اور صعب کام ہے۔(تقریرات فلسفہ،ج۳،ص۹۹) نتیجتا ہر کسی نے اپنے ادراک اور عقل کے مطابق جو کچھ سمجھ میں آیا اسی کو اپنی ہویت اور شناخت بنا لیا۔(گذشہ حوالہ) بڑے بڑے اور عظیم فلسفیوں کی عقلیں،نیز علماء طب اور  مادہ پرست انسان کی شناخت کے سلسلے میں حیران و سرگردان ہیں۔(شرح حدیث جنود عقل و جہل،ص۱۱۶)  لہذا امام خمینیؒ کے نظریے کے مطابق نفس انسان چونکہ مختلف مراتب طبیعی سے عقلانی تک  کا حامل ہے لہذا اسکی حقیقی شناخت اور پہچان ایک مشکل مرحلہ ہے۔
نہایتا امام خمینیؒ اس سوال کے جواب میں کہ ” واقعی کیوں انسان اپنی شناخت اور پہچان سے بھی عاجز ہے؟؟  بیان کرتے ہیں کہ  انسان کی اپنی شناخت اور معرفت سے عاجزی کا ایک سبب حب نفس ہے،(صحیفہ امام،ج۱۴،ص۸) یعنی حب نفس(خود پسندی) ایک حجاب اور پردے کی صورت میں انسان کی اپنی  حقیقی شناخت کے مقابلے میں رکاوٹ ہے، اس خود پسندی اور حب نفس سے  چھٹکارا صرف خدا کی شناخت کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور شناخت خدا بھی مکتب انبیاء اور مکتب اسلام میں مکمل بیان ہوئی ہے۔

۲۔ ماہیت انسان
۲۔۱۔ انسان کی انسانیت
 امام خمینیؒ کی انسان شناسی میں اگرچہ انسان فطرتا  توحید اور تمام عقائد حقہ پر پیدا  کیا گیا ہے،لیکن چونکہ اس زندگی میں اس کی ولادت کی ابتداء اور اس عالم میں قدم رکھتے ہی وہ نفسانی رجحانات اور حیوانی خواہشات کے درمیان نشو ونما پاتا ہے ، اگرچہ کچھ لوگوں کو ابتداء ولادت سے ہی  خدا کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے اور ان کے اندر یہ حیوانی صفات پیدا نہیں ہوتیں،لیکن یہ لوگ چونکہ بہت ہی نادر ہوتے ہیں(امام خمینیؒ چہل حدیث،ص۱۶۸) لہذا امام خمینیؒ کی انسان شناسی سے متعلق مباحث ان افراد نادر کو شامل نہیں ہیں، کیونکہ ہماری مراد یہاں پر نوع انسان ہے،اس حیوان(انسان) کا دوسرے حیوانوں سے فرق ظرفیت اور قابلیت کا ہے یعنی انسان حیوانیت سے نکل کر انسانیت کے مراحل میں داخل ہوسکتاہے، ( اور  قابلیت  اور صلاحیت بالفعل معیار انسانیت نہیں ہے)۔
پس یہ حیوان(یا بالقوہ انسان) ،یعنی انسان اس دنیا میں وارد ہونے کے ابتدائی مرحلوں میں کسی بھی معیار سے ایک حیوان بالفعل ہے،انسان ابتداء سے ہی شہوانی اور  غیظ و غضب کی قوتوں کے  زیر اثر ہوتا ہے، اور قوتوں کے زیراثر رہ کر انسان  اس قدر آگے چلا جاتا ہے کہ گویا وہ دوسرے تمام حیوانات اور شیاطین پر بھی سبقت لے جاتا ہے، ان تمام باتوں کے باوجود انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ اپنی کوتاہیوں اور  کاستیوں کو کمالات میں اور اپنی خباثتوں اور رذائل کو نیک اور اچھی صفات میں تبدیل کرے، انسان اسی وقت انسانیت کے راستے پر چل سکتا ہے جب وہ خواب غفلت سے بیدار ہو اور اپنی الہی فطرت سے آگاہ ہو جائے، یہ غفلت سے بیداری انسانیت کی پہلی منزل اور سیڑھی ہے۔(گذشتہ حوالہ۹۸) 
جب بھی انسان خواب غفلت سے بیدار ہوتا ہے اور عالم طبیعت کی وجہ سے اس پر طاری   مستی اور مدہوشی کی حالت جب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے  تو اس وقت انسان اپنی انسانیت کی پہلی منزل یعنی بیداری(یقظہ) پر قدم  رکھتا ہے،”یہ تنبیہ انسان کو اس بات سے آگاہ کر رہی ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک مسافر ہے،(گذشتہ حوالہ)  اور اس انسان مسافر کا ایک مقصد اور ہدف ہے اورہ وہ ہدف خداوند متعال ہے، اس مقام پر انسان کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ  اس اعلی اور ارفع مقصد سے دوری اور فراموشی کی وجہ سے اپنے ،اپنی انسانیت سے بھی دور ہوچکاہے۔

۲۔۲۔  انسان نفس اور بدن کا مرکب ہے:
امام خمینیؒ کے نزدیک انسان  جسم اور  نفس سے مرکب ایک مخلوق ہے،یعنی امام کے نزدیک روح(نفس) جسم کا باطن اور جسم روح کا ظاہر ہے۔(صحیفہ نور،ج۵،ص۱۵۵) امام  خمینیؒ کے عقیدے کے مطابق انسان ایک مجرد اور روح الہی سے سرشار مخلوق ہے، مگر افسوس کہ انسان مختلف قسم کے پردوں میں گھرا ہوا ہے اور نفس کی خواہشات کا اسیر ہوچکا ہے ،اس لیے اس بات کو ثابت کرنا کہ  اس جسم کے علاوہ بھی اسکی کوئی حقیقت ہے اس کے لیے بہت ساری ایسی دلیلیوں کی ضرورت ہے کہ جس سے ہم نفس کو ثابت کریں، لہذا تجرد نفس کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم   اسفار اربعہ (ملا صدرا)جیسی معروف فلسفی کتب کی طرف رجوع کریں۔ (تقریرات فلسفہ،ج۳،ص۴۵)
امام خمینیؒ کے نظریے کے مطابق انسان ابتداء خلقت سے بالقوہ(قدرتی طور پر) تمام ادراکات رکھتا ہے،اور اپنی قدرت اور صلاحیت کی بنا پر اپنی  تقدیر اور قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
 حضرت امام خمینیؒ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ : انسان تمام موجودات اور مخلوقات کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، اور انبیاءؑ اس لیے مبعوث ہوئے ہیں تاکہ اس عصارہ بالقوہ کو بالفعل کریں،جب اسکی بالقوہ صلاحیتیں فعلیت کے مقام پر پہنچیں گے تو اس وقت انسان ایک الہی موجود اور مخلوق بن جائے گا ایسی الہی مخلوق کہ جس کے اندر  حق تعالی کی تمام صفات موجزن ہوں گی اور یہ انسان  حق تعالی کے مقدس نور کی جلوہ گاہ بن جائے گا۔(گذشتہ حوالہ،ج۱۴)

۲۔۳۔ انسان کے ادراکات:
امام خمینیؒ انسان کے اندر علوم اور معارف کی نشو ونما کے سلسلے میں اور بطور کلی انسان کے ادرکات اولیہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان کا نفس ولادت کے آغاز سے تمام ادراکات کے سلسلے میں ایک بالقوہ حالت رکھتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی یہ صلاحیتیں بالفعل ہونا شروع ہوجاتی ہیں خداوند متعال کی عنایت اور لطف سے انسان کے اندر ادراکات اولیہ پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں یہ ادراکات اولیہ ادراکات حسی جیسے لامسہ(چھونے اور لمس کرنے کی قوت)  کا نتیجہ ہوتے ہیں،یعنی انسان کے اندر ادراکات اولیہ جزئیہ پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں، اسکے بعد انسان کے اندر  ادرکات باطنیہ پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں یہ باطنی ادراکات بھی دوسرے تمام ادرکات کی طرح اور نفسانی ملکات کی طرح بالقوہ ہیں،یہی نفس بالقوہ ہے کہ جسکی اگر صحیح  تربیت نہ کی جائے تو ملکات خبیثہ اس پر غالب آجاتے ہیں جسکی وجہ سے نفس برائیوں اور  غلط راستوں پر چل پڑتا ہے۔(شرح چہل حدیث،ص۲۳۷)

امام خمینیؒ کی نظر میں خداوند متعال کا لطف و عنایت ازل سے فرزندان آدم ؑ کے شامل حال رہا ہے، اور ایک طرح سے اس کے  لیے دو قسم کے مربی” جو دو پروں کی مانند ہوتے ہیں جو اسے کمال کی طرف پرواز میں مدد دیتے ہیں”  خداوند عالم نے مقرر کئے ہیں: ایک باطنی مربی ہے  کہ جسے قوت عقل اور تمیز کہتے ہیں اور دوسرا ظاہری مربی ہے  جو کہ انبیاءؑ ہیں، یہ دونوں مربی انسان  کی سعادت اور شقاوت کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔(گذشتہ حوالہ)
مندرجہ بالا  بیانات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام خمینیؒ کی نظر میں،اگرچہ انسان کا نفس ولادت کے وقت بالقوہ ہوتا ہے یعنی ہر قسم کی منفی یا مثبت صفات سے خالی ہوتا ہے،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نفس بالقوہ(استعداد اور قوتوں کا گنجینہ) فعلیت کی طرف گامزن ہونا شروع ہو جاتا ہے، فعلیت کے بعد یہ نفس فضائل یا رذائل کے راستے پر چل پڑتا ہے، امام خمینیؒ کے اس  نقطہ نظر کی روشنی میں  انسان کی ماہیت اور حقیقت اس کے نفس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کہ وہ کس طرح اپنے ملکات(صفات) کو اپنے اندر ظاہر کرتا ہے؟

۳۔ نظام آفرینش میں انسان کا مقام اور مرتبہ:
امام خمینیؒ کے نظریہ کے مطابق انسان ایک جامع  مخلوق ہے(صحیفہ نور،ج۲،ص۱۵۴) کہ جس کے اندر تمام مراتب جو کہ عینی،مثالی، اور حسی سب  کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، نیزعالم غیب اور شہادت کو اسکے وجود میں ودیعت کر دیاگیا ہے۔(شرح دعای سحر،ص۲۰۸)۔
انسانیت کا لبادہ اس کا مادی اور ظاہری جسم ہے  جبکہ اسکی حقیقت روح مجرد اور نفس ناطقہ ہے جو کہ عقلانی  اور وحیانی تجرد سے سرشار ہے۔(صحیفہ نور،ج۱،ص۲۳۳،۲۳۴)، روح اور جسم  کا آپس میں اتحاد ہے، روح باطن جسم ہے اور جسم روح کا ظاہر اور اس کا سایہ ہے،(گذشتہ حوالہ،ج۵،ص۱۵۵) اس بنا پر انسان کا طبیعی بدن اس کے ادنی ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے، لہذا انسان کی حرکت اور سیر کا مبداء اور سرچشمہ ہے ، اس متحرک وجود کو کمال کی طرف حرکت کے لیے ایک انسان کامل کی تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے،انسان کا سفر کمال منزل  طبیعی سے شروع ہوتا ہے اور سیر کرتے کرتے وہاں تک پہنچ جا تا ہے کہ جہاں تک کسی کا طائر فکر و گمان پرواز بھی نہیں کر سکتا ۔(گذشتہ حوالہ،ج۲،ص۲۲۵)

۴۔  انسان کی الہی فطرت:
امام خمینیؒ انسان کی  الہی فطرت کو ایک ایسی حالت اور ہئیت جانتے ہیں کہ جس پر خدا نے  اپنی مخلوق کو قرار دیا ہے اور یہ ان چیزوں کے وجود کا لازمہ ہے اور ان چیزوں میں سے ہے کہ جن سے اصل خلقت کا خمیر تیار کیا گیا ہے،الہی فطرتیں انہی الطاف میں سے ہیں جن کو خدا نے دیگر مخلوقات میں سے صرف بنی نوع انسان کےلیے مخصوص کیا ہے،دیگر مخلوقات میں یاتو اس قسم کی فطرتیں موجود ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ناقص ہیں ان موجودات کا ان میں حصہ بہت ہی کم ہے۔(چہل حدیث،ص۱۸۰)

امام خمینیؒ کی نظر میں انسانی نفوس ابتداء خلقت کے مراحل میں صرف اور صرف  با استعداد نفوس اور باصلاحیت ہیں جو کہ ہر قسم کی اچھائی یا برائی کی فعلیت سے عاری اور خالی ہوتے ہیں،لہذا جب یہ نفوس جوہری اور طبیعی حرکات کے تحت(جو کہ نظام طبیعی سے مربوط ہیں) اور فعلیہ اختیاریہ جو کہ”انسان کے اختیاری نظام سے مربوط ہیں” اپنا عمل شروع کرتی ہیں تو انسانی نفس کے اندر موجود صلاحیتیں فعلیت میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس طریقے سے انسانی نفوس میں تفاوت اور جدائی پڑجاتی ہے،اس طریقے سے سعید اور شقی کا فرق اس دنیوی اور ظاہری زندگی میں معلوم ہوتا ہے۔(گذشتہ حوالہ،ص۳۲۴)

امام خمینیؒ فطرت کی حقیقت کو اس آیت”فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا”(روم،۳۰) کے ذیل میں  انسان کی ذاتی صلاحیتوں کو نیکی اور برائی کی طرف اس کی رغبت اور جھکاؤ کے معنی میں بیان کرتے ہیں،اگرچہ یہ فطری استعداد اور لیاقت کبھی کبھار ہوای نفس کی پیروی کی صورت میں برعکس عمل کرتی ہے اور انسان کو بدی اور شر کی طرف راغب کرتی ہے۔

امام خمینیؒ نیکی سے محبت کو انسانی سرشت کا حصہ مانتے ہیں،لیکن انسان خود باعث بنتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس سرشت کو انحراف اور گمراہی کی طرف کھینچتا ہے، اور اس نیکی کی سرشت پر برائی کے پردے ڈال دیتا ہے۔(صحیفہ نور،ج،۲۲،صص۳۴۶،۳۴۵)
اس کلام کا معنی اور مراد یہ ہے کہ  نیکی کی سرشت  اور نیکی سے محبت جب انحراف کی طرف کھینچ جائے تو در حقیقت وہ چیز جو شر اور برائی ہوتی ہے اسی کو انسان نیکی سمجھنے لگتا ہے، اور اسی برائی سے محبت اور رغبت پیدا ہو جاتی ہے،اور یہ چیز انسان کے صحیح عمل میں  رکاوٹ بن جاتی ہے اور انسان کی پاک ذات اور نیک فطرت کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔

بہرحال اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ  انسان کے اندر اتنی قدرت ہے کہ وہ اپنے نفس کی خواہشات کو کنٹرول کر سکے  اور اپنے  مضبوط ارادے کی بنا پر  اس فطرت الہی(نیکی اور اچھائی سے محبت) کو اپنے اندر زندہ رکھ سکے، اور طبیعی زندگی کے برعکس زندگی گزارے،کیونکہ اگر انسان  فقط اس عادی اور طبیعی زندگی گزارنے آیا تھا تو اسکی تربیت اور تذکیہ کے لیے انبیاء ؑ کو مبعوث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔(صحیفہ نور،ج۴،ص۱۸۸)
لہذا امام خمینیؒ کی نظر میں انسان کے اندر یہ قدرت اور طاقت پائی جاتی ہے کہ  وہ ایسے عمل کو جو کہ اس کے طبیعی  اور حیوانی غریزہ کے ساتھ  سو فیصد مطابقت اور موافقت رکھتا ہے مصلحت اور ضرورت کے وقت ترک کرے، اور اس کے مقابلے میں وہ کام جو کہ اس کی خواہش اور چاہت کے سو فیصد مخالف ہے اسے انجام دے اور اس طریقے سے وہ انسانیت کے راستے پر چل سکتا ہے۔

امام خمینیؒ کے عقیدے کے مطابق فطری امور کا انسان کے وجود میں ہونا  خدا وند متعال کا ایک ایسا لطف اور احسان ہے کہ جو صرف انسان سے مخصوص ہے،کیونکہ دوسری مخلوقات یا تو سرے سے اس چیز سے محروم ہیں یا یہ نعمت ان کو بہت کم عطا کی گئی ہے۔ امام خمینیؒ کی نظر میں فطریات کی مہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام انسانوں کے اندر مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے اور حالات کی تبدیلی،زمان ومکان اور تہذیبوں کے بدلنے سے  اس میں کوئی تغیر نہیں آتا ،کیونکہ فطری احکام وجود کے لوازم  اور انسانی  ہئیت میں  اس کو اسکی طینت اور خلقت کے ساتھ خمیر(گوندھ) دیا گیا ہے،لہذا کسی کو اس سلسلے میں اختلاف نہیں ہے، اور تمام انسان عالم سے لیکر جاہل تک اور ایک وحشی سے لیکر متمدن تک چاہے وہ شہری ہوں یا صحرائی اور بادیہ نشین سب اس نظریہ میں متفق اور متحد نظر آتے ہیں۔
اس بنا پر  مختلف علاقوں میں ہونے والا اختلاف اور مختلف خواہشات سے جن لینے والے اختلافات،سلیقے،نظریات اور عرفی امور جو کہ ہر چیز میں حتی کہ عقلی احکام میں بھی اختلاف کا سبب بنتے ہیں فطریات میں یہ کسی قسم کا اثر نہیں رکھتے،اور نہ ہی ان سے اختلاف ایجاد ہوگا۔(شرح چہل حدیث،ص۱۸۰)

بحث کا نتیجہ:
امام خمینیؒ کے فکری مکتب میں انسان مادے(ظاہری جسم ) کے علاوہ ایک مجرد حقیقت بھی رکھتا ہے کہ جس حقیقت کو اپنی شناخت کی صورت میں کمال اور سعادت تک پہنچایا جا سکتا ہے،کمال اور سعادت تک اسطرح پہنچا جا سکتاہے کہ  انسان اپنے آپ کو حب نفس کی زنجیروں سے آزاد کرے تاکہ اپنی شناخت حاصل کر سکے،امامؒ کی نظر میں انسان کی حقیقت(جو کہ وہی نفس ناطقہ مجرد ہے) تمام کائنات پر منطبق ہوتا ہے، اور یہ نفس ناطقہ تمام عوالم کو چاہے   وہ ظاہر ہوں یا باطنی سب کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے،انسان کی یہ حقیقت اگرچہ ابتدائے ولادت کے وقت ہر قسم کے کمال سے خالی ہوتی ہے لیکن اس کی خلقت کی اساس اور بنیاد الہی ہے لہذا انسان کی فطرت الہی فطرت ہے۔
انسان کی فطرت خاص صلاحیتوں سے سرشار ہے ،انسان ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے کمال تک پہنچنے کے لیے استفادہ کر سکتا ہے،کیونکہ ان تمام قوتوں کے اندر  اچھائی اور نیکی سے محبت چھپی ہوئی ہے،اس بنا پر ہر انسان کو کوشش کرنی چاہے کہ اپنے  نفس کی شناخت کے راستے میں اپنی صلاحیتوں کو قوی کرکے  قدم اٹھائے،تاکہ وہ حقیقی خود شناسی جوکہ نفس انسان کی شناخت ہے نہ کہ اسکے حیوانی جسم کی شناخت کی طرف منزلوں کو طے کر سکے، ان منازل کو طے کر کے انسان کائنات کی حقیقتوں اور کمال مطلوب تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن یہاں کچھ سوالات انسان کے ذہن میں ایجاد ہوتے ہیں   جیسا کہ انسان کامل  امام خمینیؒ کی نظر میں کون ہے؟  اور انسان کی نفسانی صلاحیتوں اور طینت و فطر ت میں کیا رابطہ اور نسبت پائی جاتی ہے؟ لیکن ان سوالات کے جوابات کے لیے الگ مقالات کی ضرورت ہے تاکہ ان پر تحقیق اور جستجو کی جاسکے۔

فهرست منابع :

1- تقریرات فلسفه؛ موسوی خمینى، روح الله؛ تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینى، 1381.
2- شرح چهل حدیث ؛ موسوی خمینى، روح الله؛ تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینى، 1378.
3- شرح حدیث جنودِ عقل و جهل؛ موسوی خمینى، روح الله؛ تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینى، 1377.
4- شرح دعای سحر؛ موسوی خمینى، روح الله؛ چاپ اول، تهران، انتشارات تربت، 1376.
5- صحیفة امام؛ موسوی خمینى، روح الله؛ تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینى، 1378.
6- صحیفه نور؛ موسوی خمینى، روح الله؛ تهران، مرکز مدارک فرهنگی انقلاب اسلامی، 1361.

(بازدید 5 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *