تفسیر کا مفہوم اور ضرورت و اہمیت

 تفسیر کا مفہوم اور ضرورت و اہمیت

 

اسلامی علوم و فنون میں تفسیر قرآن یا قرآن کے معنی و مفہوم سے واقفیت اور اللہ تعالیٰ کی مراد اور منشا کی تفہیم سب سے پہلا علم ہے۔ علم تفسیرہمیشہ مسلمان اہل علم کا اہم موضوع رہا ہے۔ اس فن میں مسلمانوں نے ہر دور میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔  یہ مسلمانوں کا ایسا عظیم الشان علمی کارنامہ ہے جس کی مثال کسی دوسری قوم و ملت میں نہیں ملتی۔ تفسیر ی ادب، اپنے دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ، ہر دور کے مسلمان علما کے فکری رجحانات، نظریات، اشکالات اور ان کے ذہنی وعلمی ارتقا کو جاننے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔

 

تفسیر، معنی و مفہوم:

 

تفسیرعربی ز بان کا لفظ ہے۔ اس کی لغوی تحقیق کے بارے میں تین قسم کے اقوال ملتے ہیں :

۱۔ تفسیر کا مادہ ’’فسر‘‘ ہے، جس کا مفہوم ’’بیان‘‘ اور ’’کشف‘‘ یعنی کھولنا، بیان کرنا ہے۔ [۱]

۲۔ یہ سَفَرَ سے مقلوب ہے۔ (اسفر الصبح:انکشف و اضاء)یعنی جب کسی چیز کو روشن کیا جائے۔ قرآن مجید میں ہے : والصبح اذا اسفر۔ (سورۃ المدثر۷۴:۳۴)

۳۔ اس کا مادہ ’’تَفْسِرَہٌ‘‘ ہے، جس کا مطلب ’’قارورہ ‘‘ ہے۔ اطباء کے نزدیک ’’قارورہ‘‘ سے مراد کسی مریض کا پیشاب ہے، جس کے ذریعے سے طبیب مریض کے مرض اور اس کی بدنی کیفیات سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ [۲]

لسان العرب میں ہے :

’’الفسر: البیان فسرالشیء یفسرہ۔ بالکسر ویفسُرُہ۔ بالضم فسراً، وفسَّرَہ ابانہ۔ والتفسیر مثلہ۔ وقیل التفسرۃ البول الذی یستدل بہ علی المرض۔ ۔ ۔ الفسر: کشف المغطی، والتفسیر المراد عن اللفظ المشکل۔ ۔ ۔ ‘‘[۳]

_____________________________________________

۱۔ التھانوی، محمد علی، کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، ج۱، بیروت:مکتبۃ لبنان ناشرون، ۱۹۹۶ء، ص ۴۹۱۔

۲۔ ایضاً، ص ۴۹۱۔

۳۔ ابن منظور الافریقی، محمد بن مکرم، لسان العرب،، مصر:مطبعۃ المیریۃ، بولاق، ۱۳۰۰ھ، ج۶، ص۳۶۱۔

__________________________________________

 

اصطلاحی مفہوم:

 

اصطلاحی معنی میں تفسیر سے، تفسیر قرآن مجید، یا قرآن کے مشکل مقامات کی شرح و وضاحت مراد لی جاتی ہے۔ گویا تفسیر سے  مرادایسا علم ہے، جو بشری استطاعت کی حد تک قرآنی آیات کے اس مفہوم کو بیان کرتا ہے جو اس کلام عظیم سے اللہ تعالیٰ کی مراد اور منشا ہے۔

ابو حیان اندلسی کے مطابق:

’’         علم یبحث فیہ عن کیفیۃ النطق بالفاظ القرآن و مدلولا تھا و احکامھا الافرادیۃ والترکیبیۃ و معانیھا التی تحمل علیھا حالۃ الترکیب وتتمات ذالک۔ ‘‘[۱]

’’علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کو ادا کرنے کی کیفیت بیان کی جاتی ہے اور اس کے مدلولات پر بحث ہوتی ہے، اور اس کے افرادی اور ترکیبی احکام بیان کیے جاتے ہیں۔ اور وہ معانی جن پر اس ترکیب کی حالت ہوتی ہے، ان کو بیان کیا جاتا ہے۔ ‘‘

بدر الدین الزرکشی کے نزدیک:

’’التفسیرعلم یعرف بہ فھم کتاب اللہ المنزل علیٰ نبیہ محمد ﷺ وبیان معانیہ و استخراج احکامہ و حکمہ و استمداد ذالک من علم اللغۃ والنحو والتصریف وعلم البیان و اصول الفقہ والقراآت۔ و یحتاج المفسر لمعرفۃ اسباب النزول والناسخ والمنسوخ۔ ‘‘[۲]

’’تفسیر ایک ایسا علم ہے جس سے اس کتاب کا صحیح مفہوم سمجھا جاتا ہے جو اللہ نے اپنے بنی محمدﷺ پر نازل کی۔ اس کے معانی کا بیان کرنا، اس کے احکام اور حکمتوں کا نکالنا اور ان کے لیے مدد لینا علم لغت سے، علم نحو سے، علم صرف سے، علم بیان سے، اصول فقہ سے، قراآت سے اور مفسر محتاج ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے اسباب نزول کی اور ناسخ و منسوخ کی۔ ‘‘

علامہ آلوسی نے اس تعریف میں مزید اضافہ کرتے ہوئے درج ذیل تعریف کی ہے :

                   علم یُبْحَثُ فیہ عن کیفیۃ النُطْقِ بالفاظ القرآنِ ومدلولا تھا واحکامھا الافرادیۃِ والتر کیبیۃ ومعانیھا التی تُحْمِلُ علیھا حالۃ الترکیب وتتمات لذالک۔ [۳]

’’علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم، ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں، نیز ان معانی کا تکملہ، ناسخ ومنسوخ، شان نزول اور مبہم قصوں کی توضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔ ‘‘

جلال الدین سیوطی کے نزدیک:

وقال بعضھم: التفسیرفی الاصطلاح:علم نزول الآیات، وشوونھا، واقاصیصھا، والاسباب  النازلۃ فیھا، ثم ترتیب مکیھا ومدنیھا، ومحکمھا ومتشابھھا، وناسخھا ومنسوخھا، وخاصھا وعامھا، ومطلقھا ومقیدھا، ومجملھاومفسرھا، وحلالھا وحرامھا، ووعدھا ووعیدھا، وامرھا ونھیھا، وعبرھا وامثالھا۔ [۴]

_______________________________________________

۱۔ علی بن سلیمان العبید، تفسیر القرآن العظیم، ریاض:مکتبۃ التوبۃ، ۲۰۱۰ء، ص۱۶۔

۲۔ الزرکشی، بدرالدین، البرھان فی علوم القرآن، تحقیق ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ:مکتبہ دارلتراث، ۱۹۵۷ء، ص۱۳۔

۳۔ آلوسی، روح المعانی، علامہ آلوسی، ج ۱، ص۴۔

۴۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، ج ۴، ص۱۹۴۔

 

تفسیر کی ضرورت:

 

قرآن مجید کی تلاوت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور اس کے فہم اور تدبر کے ذریعے سے اس عبادت کو درجہ احسان تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تدبر فی القرآن کے واضح احکام دیے ہیں۔ ارشاد ہے :

أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غیرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا۔ (سورۃ النساء ۴:۸۲)

’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔ ‘‘

أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا۔ (سورۃ محمد۴۷:۲۴)

’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ ‘‘

کِتَابٌ أَنزَلْنٰہُ إِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا آیٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ۔ (سورۃ ص۳۸:۲۹)

’’(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ عقل نصیحت پکڑیں۔ ‘‘

ان آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں تفکر و تدبر کا حکم دیا ہے۔ اور تفکر و تدبر اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی بات کا مفہوم و مطلب سمجھ لیا جائے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(۶۶۱ھ۔ ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :

     ومن المعلوم ان کل کلام فالمقصود منہ فھم معانیہ دون مجرد الفاظہ، فالقرآن اولیٰ بذٰلک، وایضاً فالعادۃ تمنع ان یقرا قوم کتابا فی فن من العلم، کالطب والحساب، ولایستشرحوہ، فکیف بکلام اللہ تعالیٰ الذی ھوعصمتھم، وبہ نجاتھم وسعادتھیم، وقیام دینھم ودنیاھم۔ [۱]

’’پھر معلوم ہے کہ ہرگفتگواس لیے ہوتی ہے کہ اس کے معنی سمجھے جائیں نہ کہ محض لفظ سن لیے جائیں۔ اور قرآن کا معاملہ تو بدرجہ اولیٰ فہم و تدبر کا متقاضی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ لوگ کسی فن کی کتاب پڑھیں، مثلاً طب کی یا حساب کی اور اسے سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔ جب عام کتابوں کا یہ حال ہے تو کتاب اللہ کا فہم کس قدر ضروری ٹھہرتا ہے۔ ‘‘

_____________________________________________

۱۔ ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مقدمہ فی اصول التفسیر، قطر:وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیہ، ۲۰۰۹ء، ص۳۲۔

__________________________________________________

اس لیے تدبر کا لازمی نتیجہ قرآن کے احکام و آیات کی تفسیر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن کے احکام بہت واضح اور روشن ہیں۔ اس کے بعض مشکل مقامات کی توضیح خود قرآن مجید کے بعض دیگر مقامات پر کر دی گئی ہے۔ ، لیکن اس میں کچھ چیزیں مشتبہات کے ذیل میں بھی بیان کی گئی ہیں، جن کا معنی و مفہوم واضح نہیں ہے۔ قرآن کے اولین مخاطب چونکہ زمانہ نزول   میں موجودتھے اور ان کی زبان بھی عربی تھی، لہذا ان کے لیے اس کے منشا و مراد کو سمجھ لینا زیادہ مشکل نہ تھا۔ لیکن پھر بھی صحابہ کرامؓ کو بعض قرآنی احکام کی تفسیر اور تشریح کے لیے نبی کریم ﷺ سے مدد لینی پڑتی تھی۔ تمام صحابہ فہم قرآن میں مساوی نہ تھے۔ اس لیے وہ نبی کریم ﷺ سے اور آپس میں ایک دوسرے سے قرآن مجید کے الفاظ کا مفہوم معلوم کیا کرتے تھے۔ مثلاً حضرت عدیؓ بن حاتم اس آیت:وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ۔ (البقرۃ۲:۱۸۷)(کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ ) کا مفہوم نہ سمجھ سکے اور انھوں نے اپنے تکیے کے نیچے سیاہ اور سفید دو دھاگے رکھ لیے اور رات کو اٹھ اٹھ کر دیکھتے رہے کہ دونوں  میں فرق ہوسکتا ہے یا نہیں۔ صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ سے ماجرا بیان کیا۔ تب آپ ﷺ نے انھیں آیت کا مطلب سمجھایا اور فرمایا کہ تم کم عقل آدمی ہو۔ [۱]

اسی طرح جب یہ آیت:الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہم بِظُلْمٍ۔ (الانعام۶:۸۲)  (جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا)نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ تو نبی کریم ﷺ نے یہاں ظلم سے مراد شرک کو قرار دیا اور اس آیت :إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ۔ (لقمان۳۱:۱۳) کو بطور دلیل پیش کیا۔ [۲]

حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ دوران خطاب منبر پر یہ آیت:وَفَاکِہۃ وَأَبًّا۔ (عبس۸۰:۳۱) (اور طرح طرح کے پھل، اور چارے۔ ) تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ فَاکِہۃ سے توہم واقف ہیں کہ پھل کو کہتے ہیں، لیکن یہ أَبًّا  کیا چیز ہے ؟اور پھر خود ہی فرمایا کہ اے عمرؓ ! یہ تو تکلف ہی ہے کہ (ہر مفرد لفظ کا معنی معلوم کیا جائے )۔ اسی طرح ایک بار آپؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:أَوْ یَأْخُذَہمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ۔ (النحل۱۶:۴۷) (وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی نرم خو اور رحیم ہے۔ ) اور پھر سوال کیا کہ تَخَوُّفٍ کے معنیٰ کیا ہیں۔ وہاں قبیلہ بنوہذیل کا ایک شخص موجود تھا، اس نے کہا کہ ہماری زبان میں اس کا مطلب نقص اور کمی ہے، اور ثبوت کے لیے یہ شعر پڑھا:

تخَوَفَ الرجُلُ منھا تامکاً قَرِداً              کماتَخَوَٓفَ عُودَ النبعۃ السَفِنُ[۳]

چنانچہ تفسیر قرآن کا سب سے بنیادی ماخذ قرآن اور اس کے بعد حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ، گویاسب سے پہلے مفسر قرآن بھی تھے۔ آپ کا عمل و کردار اور سنن و عادات سبھی کچھ قرآن پاک کی تفسیر ہی ہے۔ آپﷺ نے قرآن مجید کے ان تمام اشکالات کی جو اس زمانے کے لوگوں کو پیش آئے، اپنے قول و عمل سے وضاحت کر دی۔ قرآن مجید کی شرح وضاحت نبی کریم ﷺ کے فرائض نبوت کا حصہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری  کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا ہے۔ ارشاد ہے :

وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہمْ وَلَعَلَّہمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (النحل۱۶:۴۴)

’’اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے  لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں۔ ‘‘

چنانچہ نبی کریم ﷺسے منسوب تفسیری روایات کا ایک بڑا ذخیرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔

___________________________________________

۱۔ الذہبی، محمدحسین، التفسیر والمفسرون، قاہرہ:مکتبہ وہبہ، ط۷، ج۱، ۲۰۰۰ ء، ص۳۰۔

۲۔ السیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ص۲۲۶۷۔

۳۔ الذھبی، محمدحسین، التفسیروالمفسرون، ص۲۹۔

______________________________________________

 

تفسیر کا آغاز و ارتقا:

 

آپ ﷺ کی وفات کے بعد جب نئے زمانے کے تقاضے اور نئے مسائل سامنے آئے اور اسلام کا دائرہ عرب سے عجم کی طرف وسیع ہوا،  تو آپؐ کے جانثار صحابہؓ نے نہایت خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ تفسیر کے معاملے میں صحابہ کرام حد درجہ احتیاط برتتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے جب کسی آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا :’’جب میں قرآن کے کسی لفظ کی وہ تفسیر کروں گا جو اللہ کے منشا کے مطابق نہیں ہو گی تو کون سا آسماں مجھ پرسایہ فگن ہو گا اور کون سی زمین میرا بوجھ اٹھائے گی۔ ‘‘[۱]لیکن اس قدر احتیاط کے ساتھ ساتھ اس دور میں بھی تفسیر قرآن کا سلسلہ جاری رہا، لیکن اس کا تعلق زیادہ تر امر و نہی کے متعلق احکام سے رہا اور قرآن کی پوری تفسیر نہیں لکھی گئی۔ اس دور کے مفسرین صحابہ میں خلفائے اربعہ، عبداللہ بن عباس، ابی بن کعب، زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر اور ابو موسیٰ اشعری زیادہ معروف ہیں۔ اس دور کی صرف دو تفسیروں تفسیر ابی ابن کعبؓ اور تفسیر ابن عباسؓ کو کتابی صورت میں مدون کیا گیا۔ ان تفاسیر میں بھی زیادہ تر حصہ قرآن کے مفرد اور غریب الفاظ کی تشریح سے متعلق ہے۔

جزیرہ عرب سے باہر اسلام کی اشاعت، رومیوں اور یونانیوں کے اختلاط، عجمی افکار کے داخل ہونے اور معاشرتی و سیاسی مسائل کے پیدا ہونے سے تفسیری ادب ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کے سواد اعظم سے ہٹے ہوئے مختلف گروہ  بھی قرآن مجید کی آیات کو اپنے عقائد و نظریات کی تصدیق کے لیے استعمال کرنے لگے۔ اس زمانے میں اسرائیلیات یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کی مذہبی روایات کو بھی قرآن کے بعض مشکل اور مبہم مقامات کی تفہیم کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ نئے زمانے میں نئے مسائل کے سامنے آنے سے اجتہاد کا دروازہ تو ضرور کھلا لیکن فکری اختلاف کا آغاز بھی ہو گیا۔ تابعین اور تبع تابعین نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ وہ صحابہ کرامؓ کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے اختلافی بحث اور مناظرانہ رنگ پیدا نہ ہونے دیں۔ بہر حال بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں اور تفسیری مباحث کے ساتھ تفسیر قرآن کا یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔ عصر صحابہ کے بعد تفسیر جب تیسرے دور عصر تدوین میں داخل ہوئی  تو اس وقت تک علم حدیث نے ایک الگ علم کا درجہ حاصل کر لیا تھا اور تفسیر کا علم ایک جداگانہ علم بن گیا تھا۔ بقول ڈاکٹر محمد حسین ذہبی: ’’تفسیر تیسرے مرحلے پر پہنچ کر حدیث نبوی سے الگ ہو گئی اور اس نے ایک مستقل علم کا روپ اختیار کر لیا۔ قرآنی ترتیب کے مطابق ہر آیت کی تفسیر ہونے لگی اور یہیں سے تفسیری اسالیب و  مناہج اور مفسرین کے ذاتی رجحانات علم تفسیرکی وسعت کا باعث بنے ‘‘۔  [۲]

_____________________________________________

۱۔ الذہبی، محمدحسین، التفسیر والمفسرون،، ص۱۸۶۔

۲۔ ایضاً، ص۱۰۴۔

_____________________________________________

 

مناہج تفسیر

 

تفسیر قرآن کے سلسلے میں دو بڑے مناہج سامنے آئے۔ ایک تفسیر بالروایت یا تفسیربالماثور اور دوسرا تفسیر بالرائے۔ تفسیر بالروایت سے مراد قرآن کی ایسی تفسیر ہے جس میں صرف احادیث نبوی آثار صحابہ اور اقوال تابعین ہی پر انحصار کرتے ہوئے قرآنی احکام کی تشریح کی جاتی ہے اور اس میں ذاتی فیصلے یا خیال کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ لیکن تفسیر کا یہ طریقہ بھی بعض اہل علم کے نزدیک اس لیے اطمینان بخش نہیں کہ صحابہؓ کے دور میں ہی اکثر اہل کتاب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تھے۔ اور انھوں نے جو روایات بیان کی تھیں وہ بھی ذخیرہ احادیث میں شامل ہو گئی تھیں۔ یہاں تک کہ طبریؓ جیسے مشہور مفسر نے بھی اہل کتاب سے اخذ کی گئی معلومات کو اپنی تفسیر میں شامل کیا ہے۔ اس طریق تفسیر کے ناقدین کے خیال میں تفسیر کے معاملے میں عہد حاضر کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جب کہ خود قرآن اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی  غور و فکر اور تدبر قرآن کی تلقین فرماتے تھے۔ چنانچہ، اگر محض احادیث نبوی اور اقوال صحابہ اور تابعین پر انحصار کرتے ہوئے قرآن کی تفسیر بیان کرنا مطلوب تھاتو پھر قرآنی تدبر کا کیا مفہوم ہے ؟ جبکہ قرآن اوّل سے آخر تک تعقل و تفکر کی دعوت ہے۔ خود صحابہ کرام قرآن مجید کے مطالب و معانی میں اختلاف کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے اگر یہ مطالب بنی کریم ﷺ سے اخذ کیے ہوتے تو پھر اختلاف کیسے ہوتا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے وہ مطالب اپنی محنت و کاوش سے اخذ کیے ہوں گے۔ اگر قرآن میں تدبر و تفکر جائز نہ ہوتا تو صحابہ اس فعل حرام کے کیونکر مرتکب ہوتے۔ [۱]

تفسیرقرآن کا دوسرا منہج تفسیر بالرائے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی آیات کی تفسیرمیں حدیث نبوی اقوال صحابہ اور تابعین کی آرا کے ساتھ ساتھ، عہد حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مفسر کو اپنی رائے سے آیات کا مفہوم اخذ کرنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔ ان دونوں مکاتب فکر نے اپنے اپنے دائرے میں تفاسیر لکھیں۔ قرون اولیٰ سے لے کر دور حاضر تک، تفسیر بالماثو راور تفسیر بالرائے، دونوں مناہج پر ہر علاقے اور ہر زبان میں ہزاروں تفاسیر لکھی گئیں۔ بقول شاہ ولی اللہ ایک جماعت صرف ان آثار کی روایت پر کمربستہ ہے جو آیات سے مناسبت رکھتے ہوں خواہ حدیث مرفوعہ ہوں یا موقوفہ یا کسی تابعی کا قول یا اسرائیلی روایت، ایک قوم مسائل فقہیہ کا استنباط کرتی ہے۔ ایک جماعت قرآن کی لغات کی تشریح کرتی ہے ایک گروہ علم معانی، علم بیان کے نکات کو تمام تر بیان کرتا ہے۔ کچھ آدمی علم سلوک کے راستے پر ہیں۔ غرض تفسیر کا میدان نہایت وسیع ہے۔ [۲]

_______________________________________________

۱۔ الذہبی، محمد حسین، التفسیر والمفسرون، ص۱۸۷۔

۲۔ شاہ ولی اللہ،  الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، مترجم مولوی رشید احمد انصاری، دہلی: مکتبہ برہان، جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۷۵۔

(بازدید 14 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *