اسلامی اورمغربی طرز زندگی کاتقابلی جائزہ قسط/5

اسلامی اور مغربی طرز زندگی کا تقابل:
الهٰی ورلڈ ویو کے خدوخال:
ہمارے اس کر ہ ارض میں سات ارب سے زیادہ انسان بستے ہیں۔ یہ سارے نوع انسان مختلف نظریات اور تہذیبیں رکھتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں موجود دوسری جاندار چیزوں پر فوقیت دی اور انسان میں عقل اور شعور کے مدارج رکھے۔ اسی عقل وشعور کی وجہ سے انسان نے تخلیق کے بعد ایک درندہ بنے کی بجائے کچھ نظریات پرعمل کیا جن میں کچھ نظریات الہامی تھے جو اللہ تعالٰی نے وقت کی ضرورت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے اپنے خاص بندوں کو عطا کیا۔ یہ خاص بندے اللہ کے پیغمبر اور نبی تھے اور حضرت محمد کو خاتم نبیین بنا کر بھیجا اور قیامت تک ختم نبوت کی مھر لگادی۔
دین اسلام کی بنیاد وحی الٰہی پر قائم ہے اور اس کے سرمدی اصول غیر متبدل اور ناقابل تغیر ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ وحی الٰہی کی بنیاد پر ترتیب پانے والا معاشرہ نہ تو غیر مہذب ہوتا ہے اور نہ پسماندہ۔ مفکرین یورپ کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ کونسی چیز ہو جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا جائےچنانچہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے نئی سے نئی تھیوری و فلسفہ پیش کرتے ہیں گذشتہ صدی ’’جدیدورلڈویو‘‘ کی صدی تھی اور یہ اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ’’روایت پسند Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں اس کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار، نظریات، آفاقی صداقت، مقصدیت اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دلچسپی کو کم کر دیا جائے۔ اسلام کی نظر میں یہ خطرناک موڑ ہے کہ انسان اصول و مقاصد پر عدم یقینی کی کیفیت میں مبتلاء ہو جائے ۔
اس کے علاوه ،خدا پرستی،ظاہری اور باطنی دونوں صورتوں پر توجہ،اجتماعیت،قناعت اور کفایت شعاری،سادی زندگی ،پابندیوں کے ساتھ آزادی (عقل و وحی کے مطابق آزادی) کم عمری میں شادی کرنا،خاندان کی تشکیل اور خاندان سے وابستگی،خواتین کی عزت اور قدر میں اضافہ،عفت کا تحفظ اور معاشرے میں حیا کو مضبوط کرنا، وغیره وغیره۔
مغربی طرز زندگی میں درج ذیل چیزوں کی اهمیت دی جاتی هے۔
مادی ورلڈویو ، الہٰی ورلڈ ویو کے مد مقابل وجود میں آئی ہے جسکو ماضی میں “طبیعی”دهری”زندیق” و “ملحد” کہاجاتا تھا اور ہمارے زمانہ میں اسے “مادی” اور”ماٹریالیسٹ” کہاجاتا ہے ۔اس مادی مکاتب فکر میں ڈیالکٹیک ماٹریالیسم اور مارکسیسم(Dialectic Materialism and Marxism) مشہور ہے ۔
مادی ورلڈ ویو کے خدوخال :
۱۔ مادی ورلڈویو کائنات کے آغاز اور انجام کے بارےمیں کوئی واضح تصویر پیش نہیں کرتی ہے بلکہ ان کے مطابق دنیا خودبخود ایک اتفاق سے وجود میں آئی ہے جسکو یہ بک بینگ تھیوری (Big Bang Theory)سے یاد کیاکرتے ہیں اس کے مطابق کائنات کا کوئی عالم، حکیم اور قادر خالق نہیں ہے بلکہ یہ کائنات اتفاق سے وجود میں آئی ہے ۔ بعض مٖغربی مفکرین خدا کا انکار کرتے ہیں اورنطشے نے توGod is dead کہ دیا تھا۔
۲۔ اس ورلڈویو کے مطابق وجود ،مادہ کے برابرہے یعنی ہرموجود مادہ ہے اور جو چیز مادہ نہیں انکی نظرمیں وجود نہیں رکھتی ہیں ۔ بگ بینگ یانیچرل ارتقاء پر مبنی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہ اس کائنات کا کوئی مقصدہے اورنہ انسان کی تخلیق کا کوئی مقصدہے۔ یہ کائنا ت ومافیہاسب نیچرکے اندھے قوانین کے تحت وجودمیں آئی اوران ہی قوانین کے تحت اپنے آپ بے مقصدختم بھی ہوجائے گی۔ ایسے میں خداکا وجود، حشرنشرآخرت وغیرہ کے تصورات سب غیرسائنسٹفک تصورات قرارپاتے ہیں۔
۳۔ مادی ورلڈویو کے مطابق انسان کا کوئی خاص پوزیش نہیں ہے انسان کی پیدایش مادہ سے ہوئی ہے اسےکسی خاص ہدف کے لئے خلق نہیں کیا گیاہے بلکہ انسان بھی دوسرے مخلوقات کے مانند اتفاق سے وجودمیں آیا ہے ۔اس لئے برتراند راسل مادی فلاسفرلکھتا ہے : ’’انسان ایک ایسا مولودہے جسکی پیدا ئش میں کسی خاص تدبیر کا استعمال نہیں ہوا ہے اسکا کوئی مقصد مشخص نہیں ہوا ہے انسان سالوسال کے ارتقاء کا نتیجہ ہےیہاں تک کہ انسان کے جذبات بھی جیسے آرزو، امید ، عشق ومحبت، عقیدہ و سلیقہ سب ارتقائی اور تصادفی عمل کا نتیجہ ہے‘‘ ۔
۴۔آج ارسطوکا وہ ورلڈ ویوجوسترہ صدیوں تک دنیاپر چھایارہا مسترد ہوچکا ہے۔ اْس ورلڈویومیں زمین کائنات کامرکز تھی۔ وہ ساکن تھی،سورج اس کے گردچکرلگاتا تھا(پرانی ادبیات میں اسی لیے آسمان کو گردوں کہتے تھے)کائنات ارضی کا مرکزتوجہ،مخدوم اورامین انسان تھا بعض لوگ اس کوخلافت ارضی سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔
لیکن آج جوورلڈ ویودنیاکورول کررہاہے وہ گلیلیو(Galileo)،ڈیکارتے(De Carte) ،نیوٹن(Newton)، ہبل (Hubble)اورآئن اسٹائن(Einstein)وغیرہ کے نظریات اورتحقیقات پر مبنی ہے۔ اس ورلڈ ویوکے مطابق زمین سورج کے گردگھومتی ہے،سورج اوردوسرے ستارے وسیارے اپنے اپنے محورپر گردش میں ہیں۔ انسان کوکوئی خاص پوزیشن اس زمین پر حاصل نہیں ہے بلکہ وہ بھی دوسرے مخلوقات کے مانند ہے ۔
۵۔ اس ورلڈویو کے مطابق دنیوی زندگی ہی واقعی زندگی ہے اس کے بعد کوئی اور زندگی کا تصور نہیں ہے اس لئے یہ لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔اس بناپر یہ شعار لگاتے ہیں کہ کھاو،پیواور عیش کرو ۔دنیا ہی سب کچھ ہے ۔ اس لئے مولائے کائنات فرماتے ہیں:’’ جس شخص کا مقصد پیٹ اور پیٹ میں جانے والی چیزیں ہو اسکی قدر و قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے‘‘۔
۶۔ فرانسس بیکن، ربن ڈیکارٹ3،تھا مس ہو بس، وغیرہ مفکرین کے افکار کے مطابق یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعہ قابل دریافت (Deterministic) ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربہ اور مشاہدہ کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے مابعد الطبیعیاتی حقائق اور مذہبی دعوئوں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ کسوٹیوں پر نہیں اترتے۔ ڈیکارٹ نے “I think therefore I am” (میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں ) کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفہ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
پاسکل، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ، وسلی، ہوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لامحدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا۔ یہ افکار عقلیت کہلاتے ہیں اور آج کی جدید ورلڈویو کی بنیاد ہیں۔
اس تحریک نے مذہبی محاذ پر الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ والٹیر اور ڈیدراٹ جیسے الحاد کے علمبرداروں نے مذہب کا کلیتاً انکار کردیا۔ جبکہ ہیگل جیسے متشکک مذہب کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اسے عقل کے تابع بناتے ہیں۔ اور مذہبی حقائق کو بھی دیگر عقلی مفروضات کی طرح قابل تغیر قرار دیتے ہیں۔. سیاسی محاذ پر اس تحریک نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، اور حقوق انسانی کے تصورات عام کیے۔ تھومس ہابس نے حتمی اقتدار اعلیٰ (ABSOLUTE SOVEREIGN) کے تصور کو سیاسی فلسفہ کی بنیاد قرار دیا۔ جان لاک نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا۔ والٹیر نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ مانٹسکیسواور روسو نے ایسی ریاست کے تصورات پیش کیے جس میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے ا ور حکمرانوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔
۷۔ اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادیت (UTILITARIANISM) کا تصور عام کیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی قدروں کا تعلق افادیت سے ہے۔ جو رویے سماج کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ جائز رویے اور جو سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز رویے ہیں۔ اور یہ کہ افادیت اخلاق کی واحد کسوٹی ہے۔ افادیت کے تصورنے قدیم جنسی اخلاقیات اور خاندان کے روایتی ادارہ کی افادیت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجہ میں جدید اباحیت (PERMISSIVENESS) کا آغاز ہوا۔
نتیجہ:
درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی تهذیب کی جو بنیاد توحید، نبوت، امامت، قیامت اور آخرت کے عقیدےکے اصولوں پر مبنی ہے۔لیکن مغربی ثقافت اور طرز زندگی مکمل اس کا برعکس ہے۔جس کی بنیاد لذت،ہیومنزم، ہیڈونزم،(جنسی خود غرضی) اور ورلڈ ویو ((world viewاور مادیت پر استوار ہے۔
دین مقدس اسلام ایک جامع ، کامل اور جاویدانی دین هونے کے اعتبار سے تمام انسانوں کی فردی ،اجتماعی، دنیوی اور اخروی طرز زندگی کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا هے ۔اسلام ناب محمدی انسانوں کو خدا،خود انسان اور ایک انسان کادوسرے انسانوں کے ساتھ رابطه رکھنے اور بهترین طرز زندگی کرنے کا سلیقه سکھاتا هے ۔اس کے لیے اس حکیم ذات نے همارے لیے قرآن ،رسول اکرمﷺاور ٔائمه معصومین علیهم السلام کی سنت جیسی نعمتوں سے نوازا هے لهذا بنی نوع بشر کی ذمه داری هے که اپنی زندگی کو اس عظیم الهیٰ اور انسانی قانون کے طرزکے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔
منابع ومصادر:
القرآن الکریم.
1:أبو الحسن مقاتل بن سليمان بن بشير الأزدي البلخى ، ا لوجوه والنظائر في القرآن العظيم لمقاتل بن سليمان كتاب ۱۵۴۸،الناشر، مركز جمعة الماجد للثقافة ،تاريخ الإنشاء،03 سبتمبر 2019 .
2:أبوجعفر محمّد بن عليّ بن شهرآشوب بن أبي نصر بن أبي الجيش المازندرانيّ (۴۸۸/– ۵۸۸ ق/المناقب لابن شهرآشوب،
3:اقتباس از سؤال ۶۶۵ (سایت۸۲۹)، نمایه: قرآن و معنای اسلام و مسلمان.
4:آزاد ارمکی، تقی (1391) الگوهای سبک زندگی در ایران، تهران: پژوهشکده تحقیقات استراتژیک مجمع تشخیص مصلحت نظام.
5:آمِدی عبدالواحد بن محمد تمیمی (م، ۵۵۰ ق) /غُرَرُ الحِکَم و دُرَرُ الکَلِم
6:باهنر، محمدجواد (1387) سیری در عقاید و اخلاق اسلامی، تهران: نشر فرهنگ اسلامی.
7:پارسا، داوود (1392) «تأثیر سبک زندگی غربی بر جامعه ایران»،وب‌سایتاستاد علی صفایی حائری، بخش مقالات.
8:جوادی آملی عبد الله/جامعه در قرآن /ج۱۷/ص۱۵۸/ناشرمرکز نشر اسراء/سال نشر ۱۳۹۱ھ ش
9:حبیب کرگلی،محمد جواد،تحریر، دسمبر 2022 -حوزہ نیوز ایجنسی.
10:حق‌شناس، سید مهدی (1393) راهبردهای سبک زندگی اسلامی ایرانی، قم:
11:خانی، حسین (1393)«تطبیق مفهوم شناسی (شیوه زندگی) در تمدن غربی و تمدن اسلامی»، فصلنامه فرهنگ مردم ایران، ش 37.
12:خطیبی، حسین و ابوالفضل ساجدی (1392)«مروری بر شاخص‌های سبک زندگی اسلامی»، مجله معرفت، سال بیست‌و‌دوم، ش 185.
13: راغب اصفهانی، ابوالقاسم حسین محمد ،مفردات،الفاظ القرآن، ،ناشر،طلیعة النور ،چاپ اول
14:رجبی، محمود (1388)انسان‌شناسی، قم: مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی;
15:رستمی نسب، عباسعلی (1388) فلسفه تربیتی ائمه اطهار علیهم السلام، کرمان: دانشگاه باهنر.
16:رفیعی، عطاالله (1391)«مقایسه سبک زندگی اسلامی و غربی از منظر انسان‌شناسی»، نشریه خراسان، گروه اندیشه.
17:سید رضی ،ابوالحسن محمد بن الحسین بن موسی ، نہج البلاغہ، خطبہ 203:
18:شریفی، احمد‌حسین (اخلاق و سبک زندگی اسلامی )همیشه‌بهار، قم: معارف.سال۱۳۹۲
19:شیرازی ،آیت‌الله ناصر مکارم وگروه نویسندگان،تفسیر نمونه،تهران، دارالکتب الاسلامیة، ۱۳۵۴ – ۱۳۸۷ش
20: صدوق، ابن بابويه، علي بن حسين،خصال ، ناشر: جامعه مدرسين‌،مكان چاپ: قم‌،سال چاپ: 1362 ش‌،نوبت چاپ: اول‌
21:طباطبائی، محمد حسین، المیزان (ترجمه)کانون انتشارات محمدی،تهران،چاپ سوم،۱۳۶۲سال
22:طبرسی،رضى‌الدین حسن بن فضل/مکارم الاخلاق ،ناشر: الشريف الرضي ،قم ،سال نشر: 1370 هجری شمسی.
23:علاءالدین علی بن حسام معروف به متقی هندی ، کنزالعمال، مؤسسه الرسالة، بیروت، 1405ق.
24:غضنفری، علی، فاطمه صیدانلو و مهدیه عقیقی (بیتا)«ارتباط سبک زندگی اسلامی با حیات طیبه از منظر قرآن‌کریم»،وب‌سایت دکتر علی غضنفری.
25:فاضل‌قانع، حمید، سبک زندگی بر اساس آموزه‌های اسلامی (با رویکرد رسانه‌ای) قم، مرکز پژوهش‌های اسلامی، ۱۳۹۲
26:قمی،عباس/مفاتیح الجنان ،ناشر، (انتشارات آستان قدس رضوی)‏سال انتشار: 1396 /دعا کمیل.
27:کاویانی، محمد (1391) سبک زندگی اسلامی و ابزار سنجش آن، قم: پژوهشگاه حوزه و دانشگاه.
28:کلینی ،محمد بن یعقوب کلینی (متوفی 329 ھ)الکافی، ناشر ، دارالحدیث،محل نشر ، قم. تاریخ انتشار : 1387 ش. نوبت چاپ : اول
29: مجلسی، محمدباقر ،بحارالانوار ناشر: دار إحياء التراث العربي – بیروت – لبنان ،سال نشر: 1368 هجری شمسی|1403-1413 هجری قمری ،زبان:عربی،
30:مصباح یزدی، محمدتقی (بیتا)«خوف و رجاء»، مجله معرفت، ش 33.
31:معاونت تربیت و آموزش عقیدتی سیاسی نمایندگی ولی‌فقیه در سازمان بسیج مستضعفین (1389) گفتارهای اعتقادی، معرفتی و سیاسی.
32:معین ،محمد، فرهنگ معین، ناشر: امیرکبیر. زبان: فارسی ،سال چاپ، 1391. نوبت چاپ۲۷ .
33:مفيد، محمد بن محمد،, الارشاد/ج۱/ص۲۹۶ مكان النشر: النجف : الناشر: المطبعة الحيدرية، تاريخ النشر: ۱۹۶۲ .
34:موسوی‌گیلانی ،سیدرضی / کتاب «تاریخ فرهنگ و تمدن اسلامی» گزارشی از سازه های تمدن اسلامی.
35:نجفی،محسن علی /تفسیر الکوثر، ناشر،مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور سال اشاعت: ۲۰۱۶ / info@balaghulquran.com
36:نجفی،محسن علی ،ترجمه بلاغ القرآن.
37:نوری، میرزا حسین (متوفای ۱۳۲۰ق)مستدرک الوسائل، ناشر،آل البیت.
38:WWW.ADINEHBOOK.COM/GP/SIM/9642500833
39:UR.WIKIPEDIA.ORG/WIKI
40:RASEKHOON.NET/ARTICLE/SHOW/737772

(بازدید 8 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *