غیبت کے زمانے حکومت اسلامی کی ضرورت

غیبت کے زمانے حکومت اسلامی کی ضرورت

اور منصب ولایت فقیہ

 

اس بحث میں داخل ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے مسلم عقائد میں سے کچھ چیزیں اس بحث کے مقدمے کے طور پر بیان کریں

۱۔ ہم اللہ تعالی کی خالقیت، رسول خدا ص کی رسالت، قرآن اور سنّت کے حق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔

۲۔ انسان ایک حکومتی نظام کے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اسی حقیقت  کی طرف اشارہ کرتے ہوئےامیر المومنین ع نے فرمایا:”لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ‏ أَمِيرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ” نهج البلاغة (للصبحي صالح) ؛ ؛ ص82}

یعنی لازم ہے لوگوں کے لئے کہ ان کا حاکم  چاہے وہ نیک ہو یا فاجر۔

۳۔ ولایت اور سرپرستی صرف اللہ تعالی کا حق ہے۔

“فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِي” الشوری ۹

۴۔ دین مبین اسلام، انسان کے تمام مسائل کے لئے ہے، اور انسان پر لازم ہے کہ اپنی زندگی دین کے احکام کے مطابق گزارے۔

ان مقدمات کے بعد ہم اپنی گفتگو اس جملے سے شروع کرتے ہیں کہ انسان بغیر حکومت کے نہیں رہ سکتا چاہے حکومت عادل کی ہو یا فاجر کی ۔

البتہ حکومت کس کا حق ہے اس سلسلے میں مختلف نظریات موجود ہیں :

۱) حکومت ورثہ میں منتقل ہوتی ہے یعنی بادشاہ کا بیٹا ہی صرف بادشاہ ہوسکتا ہے

۲) جو بھی شخص زور کے بل پر حکومت حاصل کرلے ، حکومت اس حق ہے

۳) جس شخص کو لوگ منتخب کریں وہ حاکم ہوگا۔

کلی طور پر تین طرح کی حکومتیں قابل فرض ہیں :

۱۔ شرعی حکومت کہ جو واضح دلائل سے ثابت ہو۔

۲۔ غیر شرعی حکومت؛ کہ جس کا باطل ہونا واضح دلائل سے ثابت ہو۔

۳۔ وہ حکومت کہ جس کا شرعی ہونا مشکوک ہو۔

سوال : جس حکومت کے شرعی ہونے کے بارے میں شک ہو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب :

 انسان کی عقل یہ کہتی ہے کہ سارے انسان آپس میں برابر ہیں۔ سب انسان آزاد خلق ہوئے ہیں، سب اختیار رکھتے ہیں اور کسی کو کسی پر حاکمیت کا حق حاصل نہیں۔

دوسری طرف یہ مسلم حقیقت ہے کہ صرف اللہ تعالی سلطان اور حاکم ہے۔ اس لیے کوئی اور اسی وقت حاکمیت رکھ سکتا ہے کہ جب اس کے پاس واضح طور پر اللہ تعالی کا اذن ہو۔

اب جب کہ ایسی وضاحت اس کے پاس نہیں، تو اس کی حاکمیت ثابت نہیں۔

اس بنیاد پر ایسی حکومت کہ جس کا شرعی ہونا مشکوک ہو باطل قرار پائے گی۔

یہاں یہ بات واضح ہے کہ صرف وہی حکومت شرعی ہوگی کہ جس کے لیے خدا کا اذن موجود ہو۔

یہاں ایک اور سوال ہیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آیا شرعی حکومت تشکیل دینا اسلام کے اہم ترین واجبات میں سے ہے یا یہ کہ حکومت شرعی اچھی چیز ہے لیکن اس کے قیام کی کوشش واجب نہیں ہے؟

تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو حکومت کی تشکیل کو مسلمانوں کے درمیان چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنّی ہوں ایک مسلم حقیقت اور اصل دینی {اصول دین} کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ 

وہ دلایل پیش کرتے ہیں کہ جو مسلمانوں کے اسلام میں سیاست اور حکومت کے قیام کو مسلم حقیقت کے طور صریحا ظاہر کررہے ہیں:

۱۔ رسول خدا ص کا اپنے وصی کی جانشینی کے لئے اقدام کرنا اور دوسروں کا اس پر اختلاف کرنا۔

۲۔ خود رسول خدا ص کی سیرت اس بات پر دلیل ہے۔ رسول خدا ص نے لوگوں کے مسایل حل کئے۔ مثلا آپس میں عقد اخوت پڑھوایا۔ یہ بھی رسالت کے وظایف تھے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیوں ان پر اتنا وقت صرف کیا؟؟؟

خود قرآن کے مزاج کو اگر دیکھیں تو اس سے واضح ہوگا کہ کتنی آیات حکومت اور ولایت کی طرف اشارہ ہیں:

قرآنی دلایل:

قرآن کی آیات کی دستہ بندی کرتے ہیں:

۱۔ وہ آیات کہ جو رسول خدا ص کے سیاسی وظایف کی نشاندہی کررہی ہیں:

          “النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم” { الأحزاب : 6}

نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔

یعنی مومن کی ساری زندگی اور اُس کے سارے پہلو نظر میں ہیں اور نبی مومنین پر ولایت مطلقہ رکھتا ہے۔

        ” وَ مَا كاَنَ لِمُؤْمِنٍ وَ لَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضىَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لهُمُ الخِيرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ  وَ مَن يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا” (الاحزاب 36)

اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بہت روشن گمراہی میں مبتلا ہوگا۔

یہاں نافرمانی رسول خدا ص کے حکومتی حکم کے مقابلے میں ہے یعنی مثلا رسول خدا ص کہیں کہ خندق کھودو اور سامنے والا نہیں کھودے۔

اور اس کے علاوہ اور آیات بھی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔

۲۔ وہ آیات کہ جو رسول خدا ص کو حکم دے رہی ہیں کہ احکام کو نافذ کریں:

          ” يَأَيهُّا النَّبِىُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ اغْلُظْ عَلَيهم‏” “التوبہ ۷۳}

پیغمبر! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے۔

ایسا کب ہوگا؟ جب طاقت ہاتھ میں ہوگی۔ جب احکام کو نافذ کرنے کی قوت رسول خدا ص کے پاس ہوگی۔

 

          ” وَ الَّذِينَ اتخَّذُواْ مَسْجِدًا ضِرَارًا وَ كُفْرًا وَ تَفْرِيقَا بَين الْمُؤْمِنِينَ وَ إِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ مِن قَبْلُ  وَ لَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنىَ‏  وَ اللَّهُ يَشهدُ إِنهُّمْ لَكَاذِبُون۔ لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا” {التوبہ  ۱۰۸،۱۰۷}

اور جن لوگوں نے مسجد ضرار بنائی کہ اس کے ذریعہ اسلام کو نقصان پہنچائیں اور کفر کو تقویت بخشیں اور مومنین کے درمیان اختلاف پیدا کرائیں اور پہلے سے خدا و رسول سے جنگ کرنے والوں کے لئے پناہ گاہ تیار کریں وہ بھی منافقین ہی ہیں اور یہ قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے صرف نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے حالانکہ یہ خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ سب جھوٹے ہیں .خبردار آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے بھی نہ ہوں۔۔۔

 

۳۔ بیعت کی آیات:

          ” إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ” {الفتح ۱۰}

بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں۔

 

۴۔ وہ آیات کہ جو رسول خدا ص کو دوسروں سے اموال لینے کا حکم دے رہی ہیں:

          ” خُذْ مِنْ أَمْوَالِهمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِم بِها” {التوبہ ۱۰۳}

(اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ{زکاہ کے عنوان سے} لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں۔

 

۵۔ وہ آیات کہ جو مومنین کو احکام کے نفاذ کا حکم دے رہی ہیں:

مثلا آیت قصاص یا وہ آیت جس میں حرام کحانے کو منع کیا گیا { وَ لَا تَأْكلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِل‏} البقرہ ۱۸۸
یا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بارے میں آیت کہ جس میں مومنین سے اس کے انجام دینے کے بارے میں حکم دیا جارہا ہے۔ {التوبہ ۷۱}

 

ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ رسول خدا ص کی اطاعت تمام مومنین پر مطلقہ واجب ہے۔ اور بہت سارے احکام جن کے مخاطب رسول خدا ص ہیں، ان پر عمل اجتماعی اور سیاسی قوت لازم چاہتا ہے۔ اور اسی لئے رسول خدا ص نے حکومت کا قیام کیا۔

 

 

رسول خدا ص کی زندگی کے بعد بلا شک شیعہ و سنی دونوں گروہوں نے حکومت بنانے کی کوششیں کیں۔

خلافت پر اختلاف، اس کے بعد بنی امیہ اور عباسیوں کی خلافت پر جنگ۔ یہ سب اس بات پر گواہ ہیں۔

البتہ اہل سنت نے اپنی حکومتوں کو اس بات سے مشروع کیا کہ امام کا ہونا واجب ہے۔ اب کون امام ہو؟ اس کا تعیُّن کیسے ہوگا وہ الگ بحث ہے۔

لیکن شیعہ یہ بات کرتے ہیں کہ امام کا ہونا واجب ہے اور امام کا تعیُّن بھی صرف خدا کرسکتا ہے۔

 

 غیبتِ کبری سے پہلے شیعہ نقطہ نظر سے واضح ہے کہ حکومت امام معصوم کا حق ہے کہ جو خدا کی طرف سے معین ہیں ۔

غیبتِ کبری کا آغاز شیعوں کے لیے ایک نیا موڑ ہے ۔

یہاں دو باتیں ہیں؛

چونکہ خدا نے زمانہ غیبت میں حاکم کا تعین نہیں کیا ہے تو حکومت ہی نہیں بنائی جائے؟؟

یا دوسری بات کہ حکومت بنائی جائے اضطرار کے طور پر۔

یہ ایسے ہی ہے کہ اگر پانی نہیں ہو تو ایسا نہیں ہے کہ نماز ہی نہیں پڑھی جائے بلکہ تیمّم کرکے نماز پڑھی جائے۔

البتہ یہاں یہ بات بتاتے چلیں کہ یہ حالات غیبت کے بعد سے مختص نہیں بلکہ عصر حضور میں بھی ایسے حالات رہے کہ جس میں ائمہ علیھم السلام کو حکومت بنانے کی شرایط حاصل نہیں ہوئیں۔ لیکن کیا انہوں سے اس کے لئے کوششیں نہیں کیں؟

ایران میں اردھال، کاشان کا ایک علاقہ ہے جس میں امام باقر علیہ السلام کے بیٹے علی بن محمد باقر نے امام وقت کے حکم سے مہاجرت کی اور تبلیغ دین اور محافظت دین کی ذمہ داری تین سال تک انجام دی اور ان کا اثر و رسوخ علاقے میں اتنا بڑھ گیا کہ حکومت وقت کو اپنی حاکمیت خطرے میں لگی اور آپ کو انتہائی فجیع انداز میں شہید کیا گیا اور آپ اہل بیت علیھم السلام کے ایران میں پہلے شہید ہیں۔ [1]

یہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام اور حاکم ہونا صرف ائمہ معصومین علیھم السلام سے مختص نہیں۔ جس کو بھی شرایط مہیا ہوں، وہ حکومت کے قیام کی کوشش کرے۔

یعنی اللہ تعالی نے امت کا بھی وظیفہ رکھا ہے کہ وہ اضطرار کی حالت میں حکومت کا قیام عمل میں لائیں اور امام کی “نیابت” میں ایسا کریں۔ {اردھال کا واقعہ نیابت میں ہوا}

 غیبت کے زمانے میں حکومت اسلامی کی ضرورت کے جو دلائل امام خمینی رح نے پیش کیے ہیں ہم ان کو یہاں تذکرہ کر رہے ہیں :

حکومت اسلامی کے دلایل:

الف۔ عقل اس بات کی طرف دلالت کرتی ہے احکام اسلام کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ اس بات کے لئے یہ تین مقدمات پیش کئے جاتے ہیں:

۱۔ تمام احکام اسلامی اور شریعت اسی طرح موجود ہیں جس طرح صدر اسلام میں تھے۔ جس طرح یہ مشہور حدیث ہے کہ ” حَلَالُ‏ مُحَمَّدٍ حَلَالٌ‏ أَبَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ حَرَامُهُ حَرَامٌ أَبَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة” { الكافي (ط – الإسلامية) ؛ ج‏1 ؛ ص58}

۲۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ احکام اسلامی اسی لئے بھیجے گئے ہیں کہ ان کو نافذ کیا جائے۔ اور یہ بات معقول نظر نہیں آتی کہ اللہ تعالی نے احکام بنائے ہوں اور ان کو نافذ کرنے کا ارادہ نہیں کیا ہو۔

۳۔ ان احکام کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کی ضرورت ہے۔

اس لئے واجب ہے کہ احکام اسلامی کے نفاذ کیلئے حکومت اسلامی کا قیام عمل میں لایا جائے۔

ب۔ نظام اسلامی کو محفوظ رکھنا اور اس میں خلل ڈالنے کی حرمت؛

اس دلیل کیلئے ۲ مقدمات پیش کئے جاتے ہیں؛

۱۔ نظام اسلامی کی حفاظت کرنا افضل ترین واجب ہے اور اس میں خلل ڈالنا بدترین حرام ہے۔

۲۔ نطام اسلامی کی حفاظت اور اس کو اختلال سے بچانے کیلئے حکومت کی ضرورت ہے۔

 

پس واجب ہے کہ اسلامی معاشرے کو بچانے کیلئے حکومت کی ضرورت ہے۔

ج۔ اسلامی ریاست کی سرحدوں کی حفاظت

یہ دلیل بھی دو مقدمات رکھتی ہے۔

۱۔ اسلامی ریاست کی سرحدوں کی دشمنوں کے حملوں سے حفاظت کرنا عقلا اور شرعا واجب ہے۔

۲۔ سرحدوں کی حفاظت حکومت کے بغیر ممکن نہیں۔

اس لئے واجب ہے کہ حکومت اسلامی ایجاد کی جائے۔

روایات میں حکومت اسلامی کے قیام کی دلیلیں:

ہم یہاں صرف چند احادیث کو پیش کررہے ہیں کہ جو حکومت اسلامی کے قیام کی طرف اشارہ کررہی ہیں:

۱۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: {الكافي، ج‏1 ؛ ص59}

إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَنْزَلَ فِي الْقُرْآنِ تِبْيَانَ‏ كُلِ‏ شَيْ‏ءٍ حَتَّى وَ اللَّهِ مَا تَرَكَ اللَّهُ شَيْئاً يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْعِبَادُ حَتَّى لَا يَسْتَطِيعَ عَبْدٌ يَقُولُ لَوْ كَانَ هَذَا أُنْزِلَ فِي الْقُرْآنِ- إِلَّا وَ قَدْ أَنْزَلَهُ اللَّهُ فِيهِ.

{بیشک اللہ تعالی نے قرآن میں ہر چیز کو بیان کیا ہے یہاں تک کہ خدا کی قسم بندوں کے ضرورت کی کسی چیز کے ذکر کو ترک نہیں کیا کہ کوئی بندہ یہ نہیں کہے کہ کاش یہ بھی قرآن میں ہوتا، کہ اُس کو بھی اللہ تعالی نے قرآن میں نازل کیا ہے۔ }

۲۔ امام صادق علیہ السلام نے امیر المومنین ع سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ‏ يُخْرِجْنِي‏ مِنَ‏ الدُّنْيَا حَتَّى بَيَّنْتُ لِلْأُمَّةِ جَمِيعَ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْه‏” { من لا يحضره الفقيه ؛ ج‏3 ؛ ص112}

تمام تعریفیں اُس اللہ کیلئے ہیں کہ جس نے مجھے اس دنیا سے اس وقت تک نہیں اٹھایا جب تک میں نے امّت کو وہ سب نہیں بتا دیا کہ جس کی ان کو احتیاج اور ضرورت تھی۔

نتیجہ:

غیبت کے زمانے میں بھی اسلامی معاشرے کو اُسی طرح حکومت کی ضرورت ہے کہ جو عصر حضور میں تھی تو لازم ہے کہ اس کے لئے شریعت ایک اضطراری بدل قرار ہے۔

اور یہ روایتیں اس بات پر دلالت کررہی ہیں کہ اسلامی معاشرے کی ضرورت کو ایک اضطراری ولایت کے ذریعہ پورا کیا جانا ایک یقینی امر ہے۔

۳۔ فضل بن شاذان نے امام رضا علیہ السلام سے ایک انتہائی طویل حدیث روایت کی ہے کہ جس میں چیزوں کی علتین بیان کی گئی ہیں:

ہم یہاں تین نکتے ذکر کریں گے کہ جس میں حکومت اور حاکم کا ذکر ہے:

        ۱۔ جب مخلوق کو اپنی حدود سمجھا دی گئیں اور اُن کو حکم ہوا کہ ان حدود سے تجاوز نہیں کیا جائے تو کیونکہ اس میں اُن کے لیے فساد ہے ۔ اس بات کو عملی کرنے کیلئے “امین”{سرپرست} کو قرار دیا گیا کہ جس کا کام ان کو مباح چیزوں کے بارے میں بتانا اور طغیان اور خطرات سے روکنا ہے۔ ۔۔۔ تو ان کو لوگوں پر “قیم” {نظام کو قائم کرنے والا} قرار دیا تاکہ وہ لوگوں کو فساد سے روکے اور اُن کے درمیان حدود اور احکام  کو قائم کرے۔  [2]

 

        ۲۔ بیشک ہم نے کسی فرقوں میں سے فرقہ اور ملتوں میں سے ملت نہیں پائی ہے مگر یہ کہ اُن میں نظام کا قائم کرنے والا اور رئیس نہ ہو۔ یہ{رئیس} لوگوں کے دین اور دنیا کیلئے ضروری ہے۔ تو حکیم کی حکمت میں یہ امکان نہیں رکھتا کہ وہ مخلوق کو ایک ضروری چیز کہ جس کی ان کو ضرورت ہو، سے محروم کردے۔ [3]

 

        ۳۔ اگر امام، قیّم، سرپرست،امنتدارکو قرار نہیں دیا جائے{یعنی متعین نہیں کیا جائے} تو ملّت طغیان کردے گی، دین ختم ہوجائے گا اور احکام اور سنّتیں تبدیل ہوجائیں گی۔ [4]

 

پہلے نکتے کا نتیجہ: نظام کی حفاظت لازم ہے۔ حقدار کو اُس کا حق دینا اور مجرم کو سزا دینا وغیرہ، یہ ساری کی ساری باتیں، زمانہ غیبت میں بھی موجود ہیں۔ تو یوں ہم زمانہ غیبت میں بھی حکومت اسلامی کے قائم کرنے کا حکم لگائیں گے۔

دوسرے نکتے کا نتیجہ: دوسرے مذاہب کی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے دینی اور دنیاوی معاملات کے لئے رئیس کی ضرورت ہے کہ جو اِن کے دشمنوں سے مقابلہ کرے۔ یہاں زمان حضور اور غیببت میں کوئی فرق نہیں۔

تیسرے نکتے کا نتیجہ: اگر امام نہیں ہو تو دین میں فساد ہو جائے گا، تو یہ مسئلہ زمان حضور اور غیبت میں فرق نہیں رکھتا۔

۔ خطبہ فدک سے ایک اقتباس:

بی بی زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے عظیم الشان اور لاجواب خطبے میں امام کی اہمیت پر ایک جملہ فرمایا تھا: ” وَ الْإِمَامَةَ لَمّاً مِنَ‏ الْفُرْقَةِ ” { من لا يحضره الفقيه ؛ ج‏3 ؛ ص568}

{اللہ تعالی نے} امامت {کو فرض کیا تاکہ} جمیعت کو ملا کر رکھے۔

نتیجہ: 

        امت اسلامیہ کو ہر زمانے میں وحدت کی ضرورت ہے۔

        اور وحدت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک حکومت نہ ہو کیونکہ اس کے لئے طاقت کی ضرورت ہے۔ حدیث میں مقصود وحدت ہے، اب اگر امام معصوم موجود ہیں تو کیا بہتر!! لیکن اگر امام معصوم موجود نہیں ہیں اور غیبت کا زمانہ ہے تو یہ مقصد ہر گز زائل نہیں ہوتا، اور یہاں سے حکومت اسلامی اور نائب امام کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔

[1] http://www.ardehal.org/Article.aspx?i=30044

[2] مِنْهَا أَنَّ الْخَلْقَ لَمَّا وَقَفُوا عَلَى‏ حَدٍّ مَحْدُودٍ وَ أُمِرُوا أَنْ لَا يَتَعَدَّوْا ذَلِكَ الْحَدَّ لِمَا فِيهِ مِنْ فَسَادِهِمْ لَمْ يَكُنْ يَثْبُتُ ذَلِكَ وَ لَا يَقُومُ إِلَّا بِأَنْ يَجْعَلَ عَلَيْهِمْ فِيهِ أَمِيناً «4» يَمْنَعُهُمْ مِنَ‏ التَّعَدِّي وَ الدُّخُولِ فِيمَا حُظِرَ عَلَيْهِمْ لِأَنَّهُ لَوْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ لَكَانَ أَحَدٌ لَا يَتْرُكُ لَذَّتَهُ وَ مَنْفَعَتَهُ لِفَسَادِ غَيْرِهِ فَجَعَلَ عَلَيْهِمْ قَيِّماً يَمْنَعُهُمْ مِنَ الْفَسَادِ وَ يُقِيمُ فِيهِمُ الْحُدُودَ وَ الْأَحْكَام‏ { عيون أخبار الرضا عليه السلام ؛ ج‏2 ؛ ص100}

 

[3] مِنْهَا أَنَّا لَا نَجِدُ فِرْقَةً مِنَ الْفِرَقِ وَ لَا مِلَّةً مِنَ الْمِلَلِ بَقُوا وَ عَاشُوا إِلَّا بِقَيِّمٍ وَ رَئِيسٍ وَ لِمَا لَا بُدَّ لَهُمْ مِنْهُ فِي أَمْرِ الدِّينِ وَ الدُّنْيَا فَلَمْ يَجُزْ فِي حِكْمَةِ الْحَكِيمِ أَنْ يَتْرُكَ الْخَلْقَ مِمَّا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا بُدَّ لَهُ مِنْهُ

عيون أخبار الرضا عليه السلام ؛ ج‏2 ؛ ص101

 

[4] وَ مِنْهَا أَنَّهُ لَوْ لَمْ يَجْعَلْ لَهُمْ إِمَاماً قَيِّماً أَمِيناً حَافِظاً مُسْتَوْدَعاً لَدَرَسَتِ الْمِلَّةُ وَ ذَهَبَ الدِّينُ وَ غُيِّرَتِ السُّنَنُ وَ الْأَحْكَام‏

عيون أخبار الرضا عليه السلام ؛ ج‏2 ؛ ص101

 

(بازدید 1 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *