۔اسلام کا لغوی اور اصطلاحی  مفهوم:

۔اسلام کا لغوی اور اصطلاحی  مفهوم:

لفظاسلام  کا مطلب ہے تسلیم و فرمانبرداری اور قرآن کی اصطلاح میں مسلم کا مطلب ہے خدا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور کسی بھی قسم کی شرک سے دور  اور خالص توحید کو ماننا،  اسی لیے قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کوایک مسلمان کے طور پر تعارف کرایا جاتا ہے۔ چونکہ خداوندتعالیٰ کے نزدیک سچا دین اسلام ہے، اس لیے وہ تمام لوگ جنہوں نے اپنے زمانے میں خدا کے دین کو قبول کیا اور احکام الٰہی کی اطاعت کی وه مسلمان ہیں۔ لیکن آج مسلمان سے مراد خاتم الانبیاءکے پیروکار ہیں، کیونکہ انہوں نے دین اسلام کو قبول کرکے تمام انبیاء اور آسمانی قوانین پر ایمان لا کر خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور اسی بنا پر اب دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو مسلمان نہیں کہا جاتا۔ کیونکہ خاتم کے دین کو قبول نہ کر کے انہوں نے خدا کی اطاعت کی نافرمانی کی اور  مسلمان ہونے اور سر تسلیم خم کرنے سے روگردانی کی ہیں۔

بلکل ایک سچا مسلمان وہ ہے جو اللہ کے  احکام کو قول اور فعل دونوں میں تسلیم کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے زبان میں خدا کی وحدانیت اور انبیاء و رسل کے مشن کو تسلیم کرنا چاہیے اور عملی طور پر مذہبی اصولوں اور احکامات کی پابندی کرنی چاہیے، بشمول سماجی قوانین جیسے کہ دوسروں کے حقوق کا احترام،  شہری، وغیرہ، اور انفرادی قواعد پر عمل کرنا جیسے نماز، روزہ وغیرہ قرآن میں ایک سچے مسلمان کو مومن سے تعبیر کیا گیا ہے۔

“اسلام” کا لفظ ماخوذ ہے “س ل ،م” سے.  جو که باب افعال  کامصدرہے  جس کا مطلب ہے صحت، تندرستی، اور ہر قسم کے عیب و لغزش سے دور، اورباب افعا لمیں  اس کا مطلب ہے “بغیر کسی اعتراضکے اطاعت، انقیاد، اورامتثال امرو نهی کا انجام دینا۔ [1]

قرآن اسلام کو بھی اس وسیع معنوں میں استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے: وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، یا تمام مخلوقات جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، مسلمان ہیں اور اللہ کے حکم کے سامنے اختیاراًیا اجباراً،تکویناً یا تشریعاً  سر تسلیم خم کرتے ہیں۔  [2]

اسلام کی تعریف کے مطابق ایک پاکیزہ انسان وہ انسان ہے جو خدا کی طرف سے اس کے لیے مقرر کردہ تقدیر کا فرمانبردار اور مطیع ہو، خواہ وہ تقدیر  تکوینی هو جیسا که  قضاءوقدر،یا تشریعی هو،مانند اوامر ونواهی  ۔ [3]

اصطلاح میں اسلام سے مراد آخری نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی شریعت ہے۔ [4]شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصطلاحی معنی اور اسلام کے لغوی معنی کے درمیان مماثلت یہ ہے کہ دین اسلام بغیر کسی اعتراض کے خدا کی اطاعت و فرمانبرداری اور احکامات کو  تسلیم کرنا۔ [5]

قرآنی ثقافت میں، مسلمان سے مراد صرف پیغمبر اسلام (ص) کے پیروکار نہیں ہیں، بلکہ ا لفظ اسلام  اسسے وسیع تیر معانی میں استعمال هوا   ہےیعنی خدا کے حکم کے سامنے مکمل سر تسلیم خم هونا ۔ کسی  بهیقسم کا شرک اور دوغلا پن نه هو ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بطور مسلمان متعارف کرایا ہے۔[6]

اور اگر خدائے بزرگ و برتر پیغمبر اسلام (ص) سے کہے: کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا پہلا شخص ہوں [7]

یہاں پہلے مسلمان سے مراد اپنی امت کے درمیان خدا کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشته  انبیاء اور ان کے پیروکار مسلمان تھے اور خدا کے حکم کے تابع تھے۔[8]

البتہ جو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 85 میں بیان کیا گیا ہے (جس نے اسلام کو اپنا دین منتخب کیا، اس سے یہ قبول نہیں کیا جائے گا)، اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 میں (آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا… اور اسلام آپ کا منتخب مذہب ہے۔) استعمال کیا جاتا ہے، مسلم سے مراد اسلام کے پیروکار ہیں۔ کیونکہ انہوں نے دین اسلام کو قبول کر کے تمام انبیاء اور آسمانی قوانین پر ایمان لا کر خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مفہوم کے مطابق اب دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو ’’مسلمان‘‘ نہیں کہا جاتا۔ کیونکہ خاتم کے دین کو قبول نہ کر کے انہوں نے خدا کی اطاعت کی نافرمانی کی اور اپنے سے مسلمان ہونے اور مطیع ہونے کی صفت کو ختم کر دیا۔ یقیناً یہ اسلام اور مسلمانیتظاہر یہے، حقیقی نہیں۔ ایک سچا مسلمان وہ ہے جو زبان، عقیدہ اور عمل دونوں میں مذہبی اصولوں اور احکامات کے تابع ہو۔ اس کا مطلب ہے خدا کی وحدانیت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کو زبان سے تسلیم کرنا اور خدا کے احکام کو عملی طور پر نافذ کرنا۔

ایک حقیقی مسلمان وہ ہے جو مذہبی قوانین پر عمل پیرا ہو، بشمول سماجی قوانین، جیسے انسانی حقوق، شہریت کے حقوق وغیرہ، اور انفرادی قوانین جیسے نماز، روزہ وغیرہ۔  

مغربی طرز زندگی کا مفهوم:

مغربی طرز زندگی کی بنیاددنیوی لذتوں اور مادیات  پر هے اس وجه سے ان کی تمام تر انفرادی اوراجتماعی  زندگی میں هر ایک اپنے مادی فوائدکے بارے میں سوچتا هے ۔کیونکه ان کے هاں توحید ، معاد  اورروح وغیره کا تصور نهیں پایا جاتا هے  اور سب کچھ یهی دنیا اور انسان هے۔اور  ان کے تمام قوانین   بشری هے اسی وجه سے مغربی طرززندگی کاملاًمادی اور مادیات پر مشتمل هے ۔

[1] : النکت و العیون، (تفسیرماوردی)، ج ۱، صص ۳۷۹– ۳۸۰

[2] : تفسیر نمونه، ج ۲، ص ۶۴۳.

[3] : طباطبائی، محمد حسین، المیزان (ترجمه)، ج ۱، ص ۴۵۴.

[4] : الوجوه و النظائر، ج ۱، ص ۲۴۸.

[5] : مبادی الاسلام، ص ۷

[6] : آل عمران،۶۷” مَا کاَنَ إِبْرَاهِیمُ یهَُودِیًّا وَ لَا نَصْرَانِیًّا وَ لَاکِن کاَنَ حَنِیفًا مُّسْلِمًا وَ مَا کاَنَ مِنَ الْمُشْرِکِین

[7] : انعام، ۱۴” قُلْ إِنىّ‏ِ أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَ لَا تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِین

[8] : اقتباس از سؤال ۶۶۵ (سایت۸۲۹)، نمایه: قرآن و معنای اسلام و مسلمان.

 

(بازدید 1 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *