امام حسن (ع) کی صلح اور امام حسین (ع)

امام حسن (ع) کی صلح اور امام حسین (ع) کے جہاد کا فلسفہ کیا ھے؟

امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کو بہت سے دوسرے مسائل کی طرح علم و تحقیق کے معتبر اور قابل اعتماد سرچشموں سے رجوع کرکے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ھے ۔ ھم نے اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اختصار کے ساتھ مکمل کیا ھے:
لیکن سب سے پہلے ایک ضروری بات کی طرف ھم اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ھیں:
امام کے بارے میں ھم اھل تشیع کا عقیدہ و نظریہ بنیادی طور پر اھل سنت کے عقیدے اور نظریے سے مختلف ھے ۔
اھل سنت کہتے ھیں:
اس امر میں کوئی حرج نھیں لوگ ان کے امام اور پیشوا سے زیادہ دانش مند اور عقل مند ھوں ۔
اور وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ھیں کہ:
ان کا امام ممکن ھے گناہ کا مرتکب ھوجائے اور کسی اشتباہ سے دوچار ھوجائے ۔
اسی بنا پر اھل تسنن کی کتابوں میں ھم نے پڑھا ھے ۔ حضرت ابو بکر نے کہا:
میں نے تمہاری حکومت کے معاملات اپنے ھاتھ میں لے لیے ھیں، حالانکہ میں تم میں سے بہترین ھوں ۔ اگر تم لوگ مجھے راہ حق پر چلتا ھوا دیکھو تو میری مدد کرو اگر میں نے راہ باطل پر قدم بڑھایا تو میری رہنمائی کرو ۔1
حضرت عمر کے بارے میں بھی یہ نقل کیا گیا ھے کہ عورتوں کے مہر کے بارے میں انھوں نے قرآن کے خلاف رائے دی ۔ ایک مسلمان خاتون نے انھیں ان کی غلطی پر آگاہ کیا اور حضرت عمر نے اعتراف کیا:
تمام لوگ عمر سے زیادہ دانا اور فقیہ ھیں ۔2
لیکن اھل تشیع مسلمہ عقلی اور نقلی دلائل کی بنا پر یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ:
امام، رسالت کے ہدف کو جاری رکھنے اور اس کی خاطر جدو جہد کرنے کے لئے خدا کی طرف سے اور پیغمبر ۖ کے وسیلے سے مقرر کیا گیا ھے ۔ اس لئے اسے ہر طرح کے گناہ، خطا اور غلطی سے پاک اور تمام انسانوں سے زیادہ عقلمند ھونا چاہیئے تا کہ وہ امت اسلامی کی حقیقی فلاح و سعادت کی جانب رہنمائی کرسکے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک سچے صحابی عمار یاسر سے فرمایا:
اگر تمام لوگ کوئی راہ اختیار کریں اور علی (ع) کسی دوسری راہ پر چلیں تو تم اس راہ پر چلو جس پر علی (ع) چل رھے ھوں اور دوسرے تمام لوگوں سے الگ ھوجاؤ ۔
اے عمار ! علی (ع) تمھیں ہرگز ہدایت کے راستے سے باہر نھیں لے جائے گا اور ضلالت و گمراہی کی راہ پر نھیں ڈالے گا ۔
اے عمار ! علی (ع) کی اطاعت اور پیروی، میری اطاعت ھے اور میری اطاعت خدائے بزرگ و برتر کی اطاعت ھے ۔3
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد دو قیمتی چیزوں (ثقل اکبر اور ثقل اصغر) کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا اور وضاحت بھی فرمادی کہ ثقل اکبر سے مراد ” قرآن مجید ” اور ثقل اصغر سے مراد آپ کیعترت اور اھلبیت: ھیں اور فرمایا:
ان سے آگے اور پیچھے مت ھونا ورنہ ہلاک ھوجاؤگے اور انھیں کوئی چیز نہ سکھاؤ کہ وہ تم سے زیادہ دانا ھیں ۔4
اماموں کے بارے میں ھمارا عقیدہ اس طرح کا ھے کہ:
ان کا علم، علم الہی ھے نہ کہ بشری اور وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو اس صحیفے اور نوشتے میں دیکھتے ھیں جو اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر کے وسیلے سے ان تک پہنچا ھے ۔ اس کی حرکت، ان کا سکون، ان کی لڑائی اور ان کا سکوت، سب خدا کے حکم کے تحت ھے اور وہ کوئی کام خدا کی مرضی اور پسند کے خلاف نھیں کرتے ۔ 5
جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے بارے میں فرمایا:
حسن (ع) اور حسین (ع) دونوں امام ھیں خواہ وہ قیام کریں یا بیٹھے رھیں ۔6
اس ارشاد میں امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کی جانب اشارہ کیا گیا کہ دونوں ہی چیزیں اسلام اور مسلمان کے مفاد میں تھیں اور وہ دونوں محترم شخصیتیں اپنا حقیقی اور خدا کی طرف سے مقرر کردہ فریضہ انجام دیتی رہی تھیں اور کوئی شخص ان کی صلح اور ان کے قیام پر اعتراض نھیں کرسکتا ۔
اھل تشیع اس ثابت شدہ نظریے اور اس مستحکم عقیدے کی بنا پر اپنے اماموں کی بے چوں و چرا پیروی کرتے ھیں اور ان کی مطلق اطاعت کو واجب سمجھتے ھیں اور ان بزرگوں کے فرمان کو خواہ وہ قیام کے لئے ھو یا قعود کے لئے، خواہ وہ جہاد کے لئے ھو یا سکوت کے لئے ۔ اسے بجالانے کو اپنا فرض جانتے ھیں حسی کہ اگر وہ کسی ایسے کام کا حکم دیں جس کی مصلحت اور جس کا فائدہ ان پر واضح نہ ھو تب بھی اس حکم کے بجا لانے کو اپنا فریضہ سمجھ کر بجالاتے ھیں کیونکہ ائمہ (ع) معصوم ھیں اور جو کچھ وہ کہتے ھیں خدا کے فرمان کے مطابق اور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو پیش نظر رکھ کر کہتے ھیں ۔
اس واقعہ پر توجہ دیجیے:
سہل خراسانی نے امام صادق علیہ السلام کو خدمت میں عرض کی:
آخر آپ (ع) ان لوگوں کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے نھیں ھوتے جنھوں نے آپ (ع) کے لاکھوں طرفداراپنی تلواروں سے آپ کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ھیں ۔
امام صادق علیہ السلام نے تنور گرم کرنے کا حکم دیا اور پھر فرمایا:
اے خراسانی ! مجھے آگ کا عذاب نہ دیجیے اور میرا تصور معاف کردیجیے ۔
آپ (ع) نے فرمایا:
میں نے تجھے معاف کیا ۔
اس دواران ہارون مکی ھاتھ میں اپنے جوتے لئے حاضر ھوئے یہ امام (ع) کے سچے پیروؤں میں سے تھے ۔
امام (ع) انھیں حکم دیا:
اپنے جوتے پھینک دو اور تنور میں بیٹھ جاؤ ۔
ہارون نے اپنے زبان سے ایک حرف نکالے بغیر اور کوئی سوال کیے بغیر حکم کی تعمیل کی اور تنور میں داخل ھو گئے ۔
امام علیہ السلام نے اب سہل سے بات شروع کی اور خراسان کے حالات کو اس طرح بیان کیا جیسے وہ برسوں خراسان میں رھے ھوں ۔ پھر سہل سے کہا:
اٹھ اور تنور میں دیکھ ! ”
خراسانی اٹھا اور اس نے ہارون مکی کو دیکھا کہ کسی تکلیف کے بغیر وہ تنور میں بیٹھے ھوئے ۔
ہارون تنور سے باہر آئے، امام علیہ السلام نے خراسانی سے پوچھا:
تمھیں ہارون مکی جیسے کتنے افراد خراسان میں مل سکتے ھیں (کہ جو بے چوں چرا فرمانبرداری کریں ؟ “)
سہل نے کہا:
خدا کی قسم ایک آدمی بھی ایسا نھیں مل سکتا ۔
اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا:
ھمیں زیادہ بہتر معلوم ھے کہ کس وقت قیام کرنا چاہیئے ۔ (اس بات کی ضرورت نھیں ھے کہ دوسرے ھماری رہنمائی کریں7
ہارون مکی نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ امام (ع) ہر طرح کی خطا اور غلطی سے دور ھیں اور انھوں نے جو کچھ حکم دیا ھے اسے بجالانا اس کا فرض ھے حتی کہ کوئی سوال کرنے کی بھی ضرورت نھیں ۔ اسی لئے امام (ع) کے حکم کے بارے میں اس نے کسی تردد کا اظہار نھیں کیا اور اسے بے چوں چرا تسلیم کرلیا ؛ بلاشبہ شیعوں کا طرز فکر اپنے پاک اور معصوم ائمہ (ع) کے بارے میں اسی طرح کا ھے اور اسی عقیدے اور اعتماد پر اگر ھمیں ان کے بعض کاموں کی حکمت معلوم نہ ھو مثلاً:
امام حسن علیہ السلام کی صلح کا سبب،
یا امام حسین علیہ السلام کے قیام کی حکمت،
تب بھی ھم اعتراض و تنقید کی زبان نھیں کھولیں گے اور یہ یقین رکھیں گے کہ بہترین اور مناسب ترین وہی کام ھے جو انھوں نے انجام دیا ۔
اب ھم امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین کے قیام کے محرکات معلوم کرنے کے لئے علم و تحقیق کے متعبر سرچشموں کی طرف رجوع کرتے ھیں ۔

(بازدید 2 بار, بازدیدهای امروز 1 )

About The Author

You might be interested in

LEAVE YOUR COMMENT

Your email address will not be published. Required fields are marked *